جب بھی کوئی آدمی حق کا انکار کرتاہے یا نفس کی خواہشات پر چلتاہے تو ایسا اس بنا پر ہوتاہے کہ وہ یہ سمجھ کر دنیا میں نہیں رہتا کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا اور مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے کھڑا کیاجائے گا۔ دنیا میں آدمی کو اختیار ملا ہوا ہے جس کو وہ بے روک ٹوک استعمال کرتا ہے۔ اس کو مال و دولت اور دوست اور ساتھی حاصل ہیں، جن پروہ بھروسہ کرسکتا ہے۔ اس کو عقل ملی ہوئی ہے جس سے وہ سرکشی کی باتیں سوچے اور اپنے ظالمانہ عمل کی خوبصورت توجیہہ کرسکے۔ یہ چیزیں اس کو دھوکے میں ڈالتی ہیں۔ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں پر جھوٹا بھروسہ کرلیتاہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسا میں آج ہوں ویسا ہی میں ہمیشہ رہوں گا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے وہ بطور امتحان ہے، نہ کہ بطور استحقاق۔
اس قسم کی زندگی خواہ وہ آخرت کا انکار کرکے ہو یا انکار کے الفاظ بولے بغیر ہو، آدمی کا سب سے بڑا جرم ہے۔ جن دنیوی چیزوں کو آدمی اپنا سب کچھ سمجھ کر ان پر ٹوٹتا ہے۔ آخر کس حق کی بنا پر وہ ایساکر رہا ہے۔ آدمی جس روشنی میں چلتاہے اور جس ہوا میں سانس لیتاہے اس کا کوئی معاوضہ اس نے ادا نہیں کیا ہے۔ وہ جس زمین سے اپنا رزق نکالتا ہے اس کاکوئی بھي جزء اس کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ وہ تمام پسندیدہ چیزیں جن کو حاصل کرنے کے لیے آدمی دوڑتاہے ان میں سے کوئی چیز نہیں جو اس کی اپنی ہو۔ جب یہ چیزیں انسان کی پیداکی ہوئی نہیں ہیں تو جو ان تمام چیزوں کا مالک ہے کیا، اس کا آدمی کے اوپر کوئی حق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کاموجودہ دنیا کو استعمال کرنا ہی لازم کردیتاہے کہ وہ ایک روز اس کے مالک کے سامنے حساب کے لیے کھڑا کیا جائے۔
جو لوگ دنیا کو خدا کی دنیا سمجھ کر زندگی گزاریں ان کی زندگی تقویٰ کی زندگی ہوتی ہے۔ اور جو لوگ اس کو خدا کی دنیا نہ سمجھیں ان کی زندگی لہو ولعب کی زندگی ہوتی ہے۔ لہو لعب کی زندگی چندروز کا تماشا ہے جو مرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ اور تقویٰ کی زندگی خدا کے ابدی اصولوں پر قائم ہے اس لیے وہ ابدی طور پر آدمی کا سہارا بنے گی۔ موجودہ دنیا میں آدمی ان حقیقتوں کا انکار کرتاہے مگر امتحان کی آزادی ختم ہوتے ہی وہ اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا اگر چہ اس وقت کا اقرار اس کے کچھ كام نہ آئے گا۔
0%