وهو الذي ينزل الغيث من بعد ما قنطوا وينشر رحمته وهو الولي الحميد ٢٨
وَهُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ ٱلْغَيْثَ مِنۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوا۟ وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُۥ ۚ وَهُوَ ٱلْوَلِىُّ ٱلْحَمِيدُ ٢٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت نمبر 28

یہ ایک دوسرا انداز ہے جو ان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اس دنیا میں بندوں پر اللہ کے فضل وکرم کے کئی رنگ ہیں۔ بعض اوقات سخت خشک سالی ہوجاتی ہے ، بارشیں بند ہوجاتی ہیں اور وہ زندگی کی پہلی ضرورت کی فراہمی سے بھی عاجز آجاتے ہیں ، زندگی کی پہلی ضرورت پانی ہے۔ حال یہاں تک آپہنچتی ہے کہ یہ مایوس ہونے لگتے ہیں ، اس کے بعد اللہ بارشیں برسا دیتا ہے۔ ان کی حاجت پوری ہوتی ہے۔ اللہ کی رحمت پھیل جاتی ہے ، زمین زندہ اور سر سبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ بیج پھوٹنے لگتے ہیں ، نباتات اٹھنے لگتے ہیں۔ فضا لطیف ہوجاتی ہے۔ اور ہر طرف زندگی حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چہرے کھل جاتے ہیں ، دل کھل جاتے ہیں ، امیدیں بڑھ جاتی ہیں اور امنگیں پوری ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ مایوسی اور امیدو رحمت کے درمیان پس چند لمحے ہوتے ہیں۔ چند لمحوں میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آسمانوں کے دروازے پانی کھول دیتے ہیں۔

وھو الولی الحمید (42 : 28) ” اور وہی قابل تعریف ولی ہے “۔ وہ مددگار ، کفیل ہے اور اپنی ذات وصفات میں محمود ہے۔

یہاں قرآن مجید نے بارش کے لئے غیث کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس میں امداد اور داد رسی کا مفہوم شامل ہے۔ اس وقت امداد دینا جب لوگوں پر تنگی اور مصیبت ہو ، غیث ہے۔ اسی طرح اس مدد کے نتائج کو رحمت کا نام دیا۔

وینشر رحمتہ (42 : 28) ” اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے ، اس سے ترو تازگی ، سرسبزی ، امید اور خوشی کے معانی نکلتے ہیں۔ جو نباتا کے پھوٹنے سے ، اور پھلوں کے نکلنے سے ظاہری طور پر رحمت کے پھیلاؤ کی شکل میں نظر آتے ہیں جب بھی طویل خشک سالی کے بعد باران رحمت کا نزول ہوتا ہے تو لوگوں کی خوشی ، جسم اور اعصاب کی ترو تازگی اور قلب و شعور کا سرور قابل دید ہوتا ہے۔ ایسی خشک سالی کے بعد جب زمین نباتات سے سبز سبز ہوجاتی ہے تو انسانی دلوں سے تمام پریشانیاں دور ہوجاتی ہے۔ زمین مرونی کے بعد زندہ ہوجاتی ہے۔