28:44至28:51节的经注
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 177 تشریح آیات

44 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 75

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ابھی گزرا اور سابقہ سبق میں اس کی مفصل تشریح کی گئی۔ اس سبق میں اس قصے پر تبصرے کیے گئے ہیں اور نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ ان نتائج کے بعد پھر سورت کا مضمون اپنے اصلی موضوع کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ اصل موضوع یہ ہے کہ امن و خوف کا مالک اللہ ہے۔ امن دینے والا بھی وہ ہے اور خوف میں مبتلا کرنے والا بھی وہ ہے۔ اس کے بعد روئے سخن مشرکین مکہ کی طرف پھرجاتا ہے جو شرک پر جمے ہوئے تھے۔ اسلام کا انکار کرتے تھے اور اس کے خلاف طرح طرح کے عذرات پیش کرتے تھے۔ مشرکین کو اس پوری کائنات کے اندر موجود شواہد بتائے جاتے ہیں۔ پھر ان کو ارانے کیلئے میدان حشر کے بھی بعض مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ جو تعلیم لے کر آئے وہ سچی ہے۔ اہل کتاب میں سے سلیم الفطرت لوگ اسے قبول کرتے ہیں جبکہ مشرکین مکہ مدعی دین ابراہیمی ہونے کے باوجود انکار کرتے ہیں اگر وہ اس دعوت کو قبول کرلیں تو یہ ان کیلئے رحمت ثابت ہوگی۔

اس قصے سے جو پہلا نتیجہ یہاں نکالا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جو کلام نازل ہو رہا ہے وہ سچا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ ان قصص کو اس طرح بیان کر رہے ہیں جس طرح کوئی عینی شاہد کسی واقعہ کو بیان کر رہا ہوتا ہے ، حالانکہ حضور اکرم ﷺ ان واقعات کے پیش آنے کے وقت وہاں موجود نہ تھے بلکہ یہ علیم وخبیر اللہ کی طرف سے وحی ہے جو آپ پر آرہی ہے اور یہ وحی رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو شرک میں مبتلا ہیں۔ اور اس فعل کی وجہ سے دائمی عذاب کے مستحق ہو سکتے ہیں اور اس لیے کہ اگر یہ وحی نہ آتی تو ان لوگوں کو ایک بہانہ ہاتھ آجاتا۔

ربنا لولا ارسلت ۔۔۔۔۔۔ من المومنین (28: 47) ” پروردگار تو نے کیوں نہ ہماری طرف کوئی نبی بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہل ایمان میں سے ہوتے “۔

وما کنت بجانب الغربی ۔۔۔۔۔۔۔ لھم القول لعلکم یتذکرون (44 – 51)

غربی سے یہاں طور کا جانب غربی مراد ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مکالمے اور چلہ کشی کے چالیس روز و شب کے لیے متعین فرمایا تھا۔ اصل میعاد تیس راتیں تھیں پھر اس میں دس کا اضافہ کردیا گیا۔ اس کا تذکرہ سورت اعراف میں گزر چکا ہے۔ اس عرصہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات کی وہ تختیاں دی گئیں جن میں احکام خداوندی لکھے ہوئے تھے تاکہ ان احکام پر بنی اسرائیل کا قانونی نظام قائم ہو۔ ظاہر ہے کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ موجود نہ تھے کہ آپ ازخود ان حالات و مشاہدات کی رپورٹ دے رہا ہے کیونکہ حضور ﷺ اور حضرت موسیٰ کے زمانوں کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے۔

ولکنا انشانا قرونا فتطاول علیھم العمر (28: 45) ” ہم بہت سی نسلیں اٹھا چکے ہیں اور ان پر زمانہ گزر چکا ہے “۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کو یہ اطلاعات اللہ علیم وخبیر دے رہا ہے اور یہ قرآن وحی من جانب اللہ ہے۔

قرآن کریم نے حضرت موسیٰ کے قیام مدین کے واقعات کے بارے میں بھی تحدی کی ہے اور چیلنج کیا ہے کہ حضرت موسیٰ نے وہاں قیام کیا۔ حضرت محمد ﷺ وہ واقعات بتا رہے ہیں تو حضور ہدایت خود مدین میں بھی تو موجود نہ تھے کہ اس زمانے کی خبریں حضور اکرم ﷺ نے ان سے لی ہوں اور پھر تفصیلات بیان کردیں۔ اس کی حقیقت یہی ہے کہ

لکنا کنا مرسلین (28: 45) ” مگر یہ خبریں ہم بھیجنے والے ہیں “۔ تو معلوم ہوا کہ قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جس کے پاس انبیائے سابقین کی خبریں محفوظ ہیں۔

پھر قرآن مجید نے حضرت موسیٰ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان مناجات اور مکالمے کو بھی اپنی جزئیات کے ساتھ نقل کیا ہے۔ نہایت گہرائی کے ساتھ۔

وما کنت بجانب الطور اذنادینا (28: 46) ” اور تم طور کے دامن میں اس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے پہلی مرتبہ موسیٰ کو پکارا “۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ پکار تو نہ سنی تھی۔ نہ اس کی تفصیلات انہوں نے قلم بند فرمائی تھیں۔ یہ اللہ کی جانب سے اہل مکہ قوم رسول کیلئے ایک رحمت ہے کہ وہ خبریں تفصیلات کے ساتھ دی جا رہی ہیں لہٰذا یہ خبریں بھی اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ آپ سچے ہیں اور جو دعویٰ کرتے ہیں اس پر پہلی دلیل خود یہ قرآن ہے تاکہ عرب جیسی قوم کو آپ ڈرائیں جن کے پاس اس سے قبل ڈرانے والا نہیں آیا۔ اس سے قبل کی رسالتیں بنی اسرائیل کے پاس آتی تھیں جو عربوں کے پڑوس میں بستے تھے۔ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد اہل عرب میں کوئی رسول نہ آیا تھا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

یہ قرآن لوگوں کیلئے رحمت خداوندی بھی ہے اور ان پر حجت بھی ہے تاکہ وہ قیامت کے دن یہ نہ کہیں کہ ہمارے لیے تو کوئی رسول بھیجا ہی نہ گیا تھا اور یہ کہ ان کو تو اچانک ہی پکڑ لیا گیا اور یہ کہ اس پکڑ سے قبل ہمیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ یہ لوگ جس جاہلیت اور شرک میں مبتلا تھے وہ تو موجب عذاب تھی تو اللہ نے ان کی حجت بازی اور ان کے عذرات کو ختم کرنے کیلئے رسول بھیج دیا اور آخری رسول بھیج دیا تاکہ ان کے بعد کوئی عذر نہ کرے۔

ولولا ان تصیبھم ۔۔۔۔۔۔۔ من المومنین (28: 47) ” اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اپنے کرتوتوں کی بدولت کوئی مصیبت جب ان پر آئے تو وہ کہیں اے پروردگار تو نے کیوں ہماری طرف کوئی رسول نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہل ایمان میں سے ہوتے “۔ اگر رسول نہ آتا تو وہ ایسی ہی بات کرتے۔ اگرچہ رسول کے پاس آیات نہ ہوتیں ، لیکن جب رسول آگیا اور اس کے پاس آیات بھی ہیں تو یہ لوگ ماننے سے انکار کر رہے ہیں حالانکہ اس کے پاس ناقابل تردید و ناقابل شک دلائل ہیں۔

فلما جآءھم الحق من عندنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکل کفرون (28: 48) ” مگر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آگیا تو وہ کہنے لگے ” کیوں نہ دیا گیا اس کو وہی کچھ جو موسیٰ کو دیا گیا تھا ؟ “ کیو یہ لوگ اس کا انکار کرچکے ہیں جو اس سے پہلے موسیٰ کو دیا گیا تھا ؟ انہوں نے کہا ” دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں “۔ اور کہا ” ہم کسی کو نہیں مانتے “۔ یہی غرض تھی ان کی بہانہ سازی اور ان کے غلط عذرات کی۔ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی تسلیم نہ کیا۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کو وہ معجزات کیوں نہیں دئیے گئے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے تھے یعنی مادی معجزات یا قرآن کریم تختیوں پر لکھا ہوا کیوں نہیں اتارا گیا جس طرح تورات کو لکھا ہوا اتارا گیا تھا۔ لیکن ان لوگوں نے جو دلیل بیان کی ہے ، یہ اس میں سچے نہیں ہیں۔ نہ ان کا یہ اعتراض مخلصانہ ہے۔

اولم یکفروا بما اوتی موسیٰ من قبل (28: 48) ” کیا یہ لوگ اس کا انکار نہیں کرچکے جو اس سے پہلے موسیٰ کو دیا گیا تھا ؟ “ جزیرۃ العرب میں یہودی رہتے تھے۔ ان کے پاس تورات بھی تھی تو عربوں نے تورات کو کیوں نہ مانا۔ انہوں نے تو تورات کو بھی تکذیب کی تھی۔ نیز ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ تورات میں حضرت محمد ﷺ کی بشارت اور صفات دونوں دی گئی ہیں اور انہوں نے قرآن کے بارے میں بعض اہل کتاب سے فتویٰ بھی پوچھا تھا اور انہوں نے کہہ دیا تھا کہ محمد جو تعلیم پیش کرتے ہیں وہ سچی ہے اور یہ تعلیم بھی کتب سابقہ کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ لیکن انہوں نے ان فتاویٰ کو بھی تسلیم نہ کیا۔ انہوں نے تورات کو بھی جادو کہا۔ قرآن کو بھی جادو کہا اور چونکہ دونوں جادو ہیں اس لیے دونوں ایک دوسرے کے مطابق ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے۔

قالوا سحرن تظھرا وقالوا انا بکل کفرون (28: 48) ” انہوں نے کہا دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کہا ” ہم کسی کو نہیں مانتے “ وہ حق طلب کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ورنہ دلائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور نہ قرآن کی پشت پر موجود دلائل ضعیف ہیں۔

قرآن مجید ایک قدم آگے بڑھ کر ان کو اچھی طرح لاجواب کردیتا ہے ، ان سے کہا جاتا ہے اگر تم قرآن کو تسلیم نہیں کرتے ، اور تورات کی تعلیمات بھی تمہارے دل کو نہیں لگتیں تو تم کوئی ایسی کتاب لاؤ جو تورات اور قرآن دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو ، ہم اس کتاب کو مان لیں گے۔

یہ آخری بات ہے اور دلیل وبرہان کی آخری حد ہے کہ تم ایسی کوئی کتاب لاؤ، اس کے بعد بھی اگر کوئی حق کے سامنے نہیں جھکتا تو یہ مکابرہ ہوگا اور ہٹ دھرمی ہوگی۔ اور ہٹ دھرمی کے سامنے کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی۔

فان لم یستجیبوا ۔۔۔۔۔۔۔ لا یھدی القوم الظلمین (28: 50) ” اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں ، اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے ؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا “۔

قرآن جن حقائق پر مشتمل ہے وہ نہایت واضح ہیں۔ دین اسلام کے جو دلائل ہیں وہ قطعی اللبوت ہیں۔ ان دلائل کا جو شخص انکار کرتا ہے وہ وہی شخص ہوگا جو اپنی خواہشات کی پیروی میں لگا ہوا ہو۔ کیونکہ معقول انسان کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ تیسرا راستہ ہی نہیں ہے یا تو وہ مخلص اور حق قبول کرنے والا ہوگا تو وہ لازماً دلائل ایمان کو دیکھ کر ایمان لائے گا اور یا وہ شک میں مبتلا ہوگا ، اپنی خواہشات کا پیرو ہوگا وہ ہٹ دھرم اور کج بحثی کرنے والا ہوگا۔ انکار محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے کرے گا ، اسلئے نہیں کرے گا کہ اسلامی عقائد میں کوئی پیچیدگی ہے یا حجت میں کوئی ضعف ہے یا دلیل میں کوئی کمی ہے جیسا کہ نفس پرست لوگ کہتے ہیں۔

فان لم یستجیبوا ۔۔۔۔۔ اھوآءھم (28: 50) ” اگر وہ آپ کی بات نہیں مانتے تو جان لیں کہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ اور یہ فیصلہ حتمی ہے ، آخری ہے ، اللہ کا فیصلہ ہے۔ اس لیے اسے رد نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ اس دین کو قبول نہیں کرتے وہ مفاد پرست ہیں۔ اس کے سوا کوئی اور عذر نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو زبردستی ناسمجھ بنا رکھا ہے دراصل اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں۔ حق واضح ہے اور پھر بھی یہ لوگ منہ موڑتے ہیں۔

ومن اضل ممن اتبع ۔۔۔۔۔۔۔ القوم لظلمین (28: 50) ” اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے ؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا “۔ اور یہ اہل مکہ اس معاملے میں بڑے ظالم اور باغی ہیں۔

یہ آیت ان لوگوں کے تمام عذرات ختم کردیتی ہے جن کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو سمجھا نہیں ہے اور ان کو دین کا پورا پورا علم نہ تھا۔ اسلام کا موقف ہے کہ اسلام بالکل واضح ہے۔ صرف لوگوں تک پہنچنا چاہئے ، ان پر حجت تمام ہونا چاہئے کہ اسلام پہنچا دیا گیا۔ بس پھر مجادلہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف پہنچا دینے سے لوگوں کے عذرات ختم ہوجائیں گے۔ دین پہنچ جانے کے بعد محض نفس پرست یا مفاد پرست ہی اس سے منہ موڑ سکتا ہے اور تکذیب وہی شخص کرسکتا ہے جو زبردستی اپنے آپ کو جاہل بنائے اور اپنے اوپر ظلم کرے۔ اس سچائی پر ظلم کرے۔ ایسا شخص مستحق ہدایت ہی نہیں ہوتا۔ ” ایسے ظالموں کو تو اللہ ہدایت ہی نہیں بخشتا “۔

حق پہنچتے ہی ان کا عذر ختم ہوا۔ ان پر دعوت پیش کرتے ہی رسول اور امت کی ذمہ داری ختم ہوگئی۔ اب ایسے لوگوں کے پاس کوئی عذر نہ ہوگا۔

ولقد وصلنا ۔۔۔۔۔ یتذکرون (28: 51) ” اور نصیحت کی بات پے در پے ہم انہیں پہنچا چکے ہیں تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہوں “۔

گذشتہ آیات میں ثابت کیا گیا ہے کہ یہ لوگ منہ موڑتے ہیں ، شک کرتے ہیں اور ہٹ دھرمی کرتے ہیں۔ اب یہاں بعض ایسے لوگوں اور ایسے کرداروں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے جو حق کو خلوص نیت سے قبول کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی مثال اہل کتاب میں ملتی ہے۔ ذرا دیکھو انہوں نے سچائی پر مشتمل اس کتاب کو کس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا۔

最大化您的 Quran.com 体验!
立即开始您的游览:

0%