17:26至17:28节的经注
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اسلام نے اقرباء ، مساکین اور مسافروں کے لئے لوگوں کے ذمہ ایک حق مقرر کیا ہے اور یہ حق ان مدات میں انفاق کے ذریعہ پورا کیا جاسکتا ہے۔ نیز ان مدات پر خرچ محض خیرات اور مہربانی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے جو ہر مسلمان کی گردن پر لازم ہے۔ اور اس حق کو فریضہ قرار دینے کے بعد اسے اسلامی عقیدہ توحید اور اسلامی عبادت اور بندگی کے ساتھ منسلک کرکے اسے عبادت قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایسا حق اور فریضہ ہے جس سے مکلف صرف ادائیگی کے بعد ہی بری المذمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس مد میں خرچ کرنے والا تو اپنا فریضہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن دوسری جانب سے اس کے اور مستفید کے درمیان محبت بھی پیدا ہوگی۔

اس کے بعد قرآن کریم تبذیر کی ممانعت کرتا ہے۔ تبذیر کیا ہے ؟ ابن مسعود اور ابن عباس ؓ اس کی تعریف یوں کرتے تھے کہ ایسی مد میں خرچ کرنا جس میں خرچ کرنے کا حق نہ ہو ، تبذیر ہے۔ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اگر سچائی کی راہ پر کوئی انسان اپنا پورا مال خرچ کر دے تو وہ تبذیر تر ہوگا اور اگر کوئی دو کلو بھی بغیر حق کے خرچ کرے تو وہ تبذیر ہے۔

لہذا تبذیر کا تعلق انفاق کی مقدار سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق اس مد سے ہے جس میں خرچ کیا جاتا ہے۔ مبذرین کو شیطان کا بھائی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ باطل اور شر اور معصیت میں خرچ کرتے ہیں۔ اور یہ شیطان کے ساتھی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ وہرب کے انعامات کا شکر ادا نہیں کرتا۔ اور شیطان کے بھائی بھی اللہ کے انعامات کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اللہ کی نعمتوں کا حق یہ ہے کہ ان کو اپن جگہ خرچ کیا جائے۔

اگر کسی کے پاس اس قدر مال نہ ہو کہ وہ رشتہ داروں ، مساکین ، مسافروں کا حق ادا کرے اور وہ ان کا سامنا کرنے میں شرم محسوس کرتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے سوال کرے کہ اللہ اسے بھی رزق وافر دے اور ان کو بھی رزق وافر دے۔ اور ان حقداروں کے ساتھ وعدہ کرلے کہ جب حالات درست ہوں گے اور وہ کچھ کرنے کے قابل ہوا تو کرے گا وہ وعدہ کرے اور اچھی نرم بات ان کے ساتھ کرے۔ دل تنگی اور تھڑ دلی کا مظاہرہ نہ کرے۔ اور خاموشی بھی اختیار نہ کرے۔ مبادا کہ وہ دل میں تنگی محسوس کریں اور اس کی خاموشی کو دوسری معنی پہنائیں۔ کیونکہ اچھی طرح بات کرنے سے اور نرمی سے سمجھانے کے نتیجے میں ان کو تسلی ہوگی۔

پچھلی آیت میں چونکہ تبذیر اور فضول خرچی کی ممانعت کی گئی۔ اس کی مناسبت سے یہاں خرچ میں میانہ روی کا حکم دے دیا گیا۔