undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب یہ فرستادہ واپس ہوتا ہے ، رپورٹ دیتا ہے ، لیکن قرآن کریم کی درمیانی کڑیاں انسانی تخیل پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ تحقیقاتی مجلس کا منظر :

قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖ ۭ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوْۗءٍ ۭ قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ۡ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ : اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا تمہارا کیا تجربہ ہے اس وقت کا جب تم نے یوسف کو رجھانے کی کوشش کی تھی ؟

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیز مصر کے گھر کیا ہوتا رہا ؟ پھر عورتوں نے اپنی مجلس میں جو گفتگو کی وہ پہلے ریکارڈ ہوچکی ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کسی قوم پر خوشحالی آتی ہے تو اس کے اعلی طبقات کی عورتوں میں اس قسم کی اخلاقی گراوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ اگرچہ ان کا ماحول پسماندہ ہو زیر بحث جاہلیت تو قدیم تاریخ کی جاہلیت ہے لیکن جاہلیت جس دور میں بھی ہو ، وہ جاہلیت ہوتی ہے اور ہر جگہ اس کے خدوخال وہی ہوتے ہیں اور اس کے خوشحال طبقات فسق و فجور میں ڈوب جاتے ہیں۔

اب شاہی دربار میں منعقد ہونے والی تحقیقاتی مجلس میں ان عورتوں کے لیے مقام نہ تھا کہ وہ کوئی اور جھوٹ تصنیف کریں۔

قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوء : سب نے یک زبان ہوکر کہا " حاشا للہ " ہم نے تو اس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا۔

یہ حقیقت تھی ، اب ان کے لیے مشکل تھا۔ یہ عورتیں نہایت ہی بدکار اور بےباک تھیں مگر معاملہ اس قدر واضح تھا کہ انکار کی کوئی صورت نہ رہی تھی۔

اب وہ عورت سامنے آتی ہے جو یوسف کی محبت میں گرفتار تھی۔ جو ان سے مایوس ہوگئی تھی لیکن وہ ان کے ساتھ وابستگی کو کاٹ نہ سکی تھی۔ یہ عورت سامنے آتی ہے اور صراحت کے ساتھ اقرار جرم کرتی ہے اور یوسف کی پاکی کی بشارت دیتی ہے۔

قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ۡ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ : عزیز کی بیوی بول اٹھی اب حق کھل چکا ہے ، وہ میں ہی تھی جس نے اس کو پھسلانے کی وکشش کی تھی ، بیشک وہ بالکل سچا ہے۔

اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ سچائی سامنے آگئی ہے۔ میں ہی تھی جس نے اسے ورغلانے کی کوشش کی۔

انا راودتہ عن نفسہ وانہ لمن الصدقین : وہ میں ہی تھی جس نے اس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی ، بےشدک وہ بالکل سچا ہے۔ اس نے جس انداز میں شہادت دی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اب بھی حضرت یوسف کی ہمدردی حاصل کرنے کی امدی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت یوسف کے عقائد اور نظریات اس کے دل میں گھر کر گئے ہیں اور وہ ایمان لے آئی ہو۔ اسی لیے وہ کہتی ہے ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَاَنَّ اللّٰهَ لَايَهْدِيْ كَيْدَ الْخَاۗىِٕنِيْنَ : یہ اس لیے کہ عزیز مصر جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ، اللہ ان کی چالوں کو کامیابی کی راہ پر نہیں ڈالتا۔

最大化您的 Quran.com 体验!
立即开始您的游览:

0%