12:25至12:29节的经注
واستبقا الباب وقدت قميصه من دبر والفيا سيدها لدى الباب قالت ما جزاء من اراد باهلك سوءا الا ان يسجن او عذاب اليم ٢٥ قال هي راودتني عن نفسي وشهد شاهد من اهلها ان كان قميصه قد من قبل فصدقت وهو من الكاذبين ٢٦ وان كان قميصه قد من دبر فكذبت وهو من الصادقين ٢٧ فلما راى قميصه قد من دبر قال انه من كيدكن ان كيدكن عظيم ٢٨ يوسف اعرض عن هاذا واستغفري لذنبك انك كنت من الخاطيين ٢٩
وَٱسْتَبَقَا ٱلْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُۥ مِن دُبُرٍۢ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا ٱلْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوٓءًا إِلَّآ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ٢٥ قَالَ هِىَ رَٰوَدَتْنِى عَن نَّفْسِى ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌۭ مِّنْ أَهْلِهَآ إِن كَانَ قَمِيصُهُۥ قُدَّ مِن قُبُلٍۢ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ ٱلْكَـٰذِبِينَ ٢٦ وَإِن كَانَ قَمِيصُهُۥ قُدَّ مِن دُبُرٍۢ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ ٢٧ فَلَمَّا رَءَا قَمِيصَهُۥ قُدَّ مِن دُبُرٍۢ قَالَ إِنَّهُۥ مِن كَيْدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌۭ ٢٨ يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَا ۚ وَٱسْتَغْفِرِى لِذَنۢبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ ٱلْخَاطِـِٔينَ ٢٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگے۔ زلیخا بھی ان کے پیچھے دوڑی اور پیچھے سے آپ کا کرتا پکڑ لیا۔ کھینچ تان میں پیچھے کا دامن پھٹ گیا۔ تاہم حضرت یوسف دروزاہ کھول کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ دروازہ کے باہر اتفاق سے زلیخا کا شوہر موجود تھا۔ اس کو دیکھتے ہی زلیخا نے سارا الزام حضرت یوسف پر ڈال دیا۔ ایک لمحہ پہلے وہ جس شخص سے اظہار محبت کررہی تھی، ایک لمحہ بعد اس پر جھوٹا الزام لگانے لگی۔

حضرت یوسف نے بتایا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ غلطی کس کی ہے۔ کوئی تیسرا شخص موقع پر موجود نہیں تھا جو عینی گواہی دے۔ اس وقت گھر کے ایک مرد دانا نے لوگوں کو رہنمائی دی۔ اغلب ہے کہ یہ شخص پہلے حالات سے باخبر تھا۔ نیز اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ یوسف کا کرتا آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے پھٹا ہوا ہے۔ مگر اس نے اپنی بات کو ایسے انداز میں کہا گویا کہ وہ لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ جب عینی شہادت موجود نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت (circumstantial evidence)دیکھ کر فیصلہ کرلو۔ اور قرینہ کی شہادت یہ تھی کہ حضرت یوسف کا کُرتا پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا تھا۔ یہ واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ اس معاملہ میں اقدام زلیخا کی طرف سے ہوا ہے، نہ کہ یوسف کی طرف سے۔