سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں۔
زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”ایمان کہتے ہیں عمل کو“، ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ ”یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے“ ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:235/1]
ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ زبان سے، دل سے، عمل سے، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے۔ میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا «يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ» [9-التوبة:61] الخ یعنی ”اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں“۔
یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا «وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ» [12-يوسف:17] الخ یعنی ”تو ہمارا یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچے ہوں“۔ اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو۔
جیسے فرمایا: «إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ» [84-الانشقاق:25] ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:35/1]
اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی، امام احمد اور امام ابوعبیدہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا۔ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کر دی ہیں۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کیے ہیں۔
جیسے فرمان ہے: «إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ» [67-الملك:12] الخ یعنی ”جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں“۔
اور جگہ فرمایا: «مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَـٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ» [50-ق:33] یعنی ”جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے“۔ حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے۔
جیسے فرمایا: «إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ» [35-فاطر:28] الخ یعنی ”جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں“۔
بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے: «إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ» [63-المنافقون:1] یعنی ”منافق جب تیرے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ ہماری تہ دل سے شہادت ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق تجھ سے جھوٹ کہتے ہیں“۔
اس معنی کے اعتبار سے «بِالْغَيْبِ» حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں درآنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ «غیب» کا لفظ جو یہاں ہے، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہو سکتے ہیں۔
ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر، قیامت پر، جنت دوزخ پر، ملاقات اللہ پر، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر، ایمان لانا ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔
سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر اصحاب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت، دوزخ وغیرہ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔ عطا ابن ابورباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا، غیب پر ایمان لانے والا ہے۔ اسماعیل بن ابوخالد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لیے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے والوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ پھر آپ نے «الم» سے لے کر «مُفْلِحُونَ» تک آیتیں پڑھیں ۔ [سنن سعید بن منصور:544/2] (ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، مستدرک، حاکم) [تفسیر ابن ابی حاتم:34/1] امام حاکم رحمہ اللہ اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں۔
مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے۔ ابو جمعہ صحابی رضی اللہ عنہ سے ابن محریز رحمہ اللہ نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو آپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ فرمایا: میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں، ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا، ہمارے ساتھ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہا بھی تھے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے؟ ہم آپ پر اسلام لائے، آپ کے ساتھ جہاد کیا، آپ نے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہو گا ۔ [سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:907]
تفسیر ابن مردویہ میں ہے۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ ابو جمعہ انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے۔ رجاء بن حیوہ رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہیئے۔
سنو! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ۔ کہا سنو! ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم دس آدمی تھے، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی ان میں تھے، ہم نے کہا یا رسول اللہ! کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہو گا؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی۔ آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے، وحی الٰہی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہو گا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے، یہ لوگ اجر میں تم سے دگنے ہوں گے ۔ [طبرانی کبیر:3540:ضعیف]
اس حدیث میں «وجاوہ» کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کر دیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ رضی اللہ عنہم ہی ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا: ”تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے“، انہوں نے کہا، فرشتے۔ فرمایا: ”وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں“، لوگوں نے پھر کہا انبیاء، فرمایا: ”وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔“ کہا پھر ہم۔ فرمایا: ”تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے“ ۔ [مسند ابویعلی:160:ضعیف] اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں۔ ابوحاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں۔
لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے۔ مسند ابویعلیٰ تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۔ [مسند بزار:2840:ضعیف] «وَاللهُ اَعْلَمُ»
ابن ابی حاتم میں ہے سیدہ بدیلہ بنت اسلم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کر چکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر لیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے۔ عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں“ ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:36/1:ضعیف جدا] یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: فرائض نماز بجا لانا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:241/1] رکوع سجدہ، تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع، سجدہ پوری طرح کرنا، اقامت صلوٰۃ ہے۔ مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا۔ مکمل طہارت کرنا، رکوع، سجدہ پورا کرنا، تلاوت اچھی طرح کرنا۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:37/1]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ» [2-البقرة:3] کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:243/1]
سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے، خرچ میں قربانی دینا جو قرب الہٰی حاصل کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورۃ برأت میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:243/1]
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ کو اہل و عیال میں خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لیے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے۔ لہٰذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا۔
میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لیے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء، اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ لہٰذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں۔
صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا۔ نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا [صحیح بخاری:8] ، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔
عربی لغت میں «صلوٰۃ» کے معنی دعا کے ہیں۔ عرب شاعروں کے شعر اس پر شاہد ہیں۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لیے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ نماز کو «صلوٰۃ» اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں «صلوین» کہتے ہیں چونکہ نماز میں یہ ہلتی ہیں اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہا گیا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے «صلی» سے، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا۔
جیسے قرآن میں آیت «لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى» [92-الليل:15] الخ یعنی ”جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت“۔
بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لیے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب «تصلیہ» کہتے ہیں چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہتے ہیں۔
جیسے قرآن میں ہے: «إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ» [29-العنكبوت:45] الخ یعنی ”نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے“ لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» لفظ زکوٰۃ کی بحث «ان شاءاللہ تعالیٰ» اور جگہ آئے گی۔
0%