مشہور تو یہی ہے کہ یہ مومن قبطی تھے [ رحمہ اللہ تعالیٰ ] اور فرعون کے خاندان کے تھے۔ حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرعون کے یہ چچا زاد بھائی تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نجات پائی تھی۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں۔ بلکہ جن لوگوں کا قول ہے کہ یہ مومن بھی اسرائیلی تھے۔ آپ نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ اسرائیلی ہوتے تو نہ فرعون اس طرح صبر سے ان کی نصیحت سنتا نہ موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے ارادے سے باز آتا۔ بلکہ انہیں ایذاء پہنچاتا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آل فرعون میں سے ایک تو یہ مرد ایماندار تھا اور دوسرے فرعون کی بیوی ایمان لائی تھیں۔ تیسرا وہ شخص جس نے موسیٰ علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ «يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ» [ 28-القص: 20 ] سرداروں کا مشورہ تمہیں قتل کرنے کا ہو رہا ہے۔ یہ اپنے ایمان کو چھپاتے رہتے تھے لیکن قتل موسیٰ علیہ السلام کی سن کر ضبط نہ ہو سکی اور یہی درحقیقت سب سے بہتر اور افضل جہاد ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے انسان کلمہ حق کہہ دے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے، [سنن ابوداود:4344،قال الشيخ الألباني:صحیح] اور فرعون کے سامنے اس سے زیادہ بڑا کلمہ کوئی نہ تھا۔ پس یہ شخص بہت بلند مرتبے کے مجاہد تھے «رحمہ اللہ علیہ» ۔ جن کے مقابلے کا کوئی نظر نہیں آتا۔
البتہ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ایک واقعہ کئی روایتوں سے مروی ہے جس کا ماحاصل یہ ہے کہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا سے ایک مرتبہ پوچھا کہ سب سے بڑی ایذاء مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پہنچائی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لیا اور اپنی چادر میں بل دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈال کر گھسیٹنے لگا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھٹنے لگا۔ اسی وقت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دوڑے دوڑے آئے اور اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔ [صحیح بخاری:3856]
ایک اور روایت میں ہے کہ قریشیوں کامجمع جمع تھا جب آپ وہاں سے گذرے تو انہوں نے کہا کیا تو ہی ہے؟ جو ہمیں ہمارے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت سے منع کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہاں میں ہی ہوں۔ اس پر وہ سب آپ کو چمٹ گئے اور کپڑے گھسیٹنے لگے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آ کر آپ کو چھڑایا اور پوری آیت «أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ» [ الغافر: 28 ] کی تلاوت کی۔ [نسائی فی السنن الکبری:11462،صحیح:] ۔
پس اس مومن نے بھی یہی کہا کہ اس کا قصور تو صرف اتنا ہی ہے کہ یہ اپنا رب اللہ کو بتاتا ہے اور جو کہتا ہے اس پر سند اور دلیل پیش کرتا ہے۔ اچھا مان لو بالفرض یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اللہ سبحان و تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سزا دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ستایا دکھ دیا تو یقیناً تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا جیسے کہ وہ کہہ رہا ہے۔ پس عقلاً لازم ہے کہ تم اسے چھوڑ دو جو اس کی مان رہے ہیں مانیں۔ تم کیوں اس کے درپے آزار ہو رہے ہو؟
موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون اور قوم فرعون سے یہی چاہا تھا۔ جیسے کہ آیت «وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّـهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ وَأَن لَّا تَعْلُوا عَلَى اللَّـهِ ۖ إِنِّي آتِيكُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَن تَرْجُمُونِ وَإِن لَّمْ تُؤْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ» [ 44- الدخان: 21-17 ] تک ہے یعنی ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا ان کے پاس رسول اللہ کو بھیجا۔ اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو مجھے سونپ دو۔ میں تمہاری طرف رب کا رسول امین ہوں۔ تم اللہ سے بغاوت نہ کرو۔ دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیلیں اور زبردست معجزے لایا ہوں۔ تم مجھے سنگسار کر دو گے اس سے میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں، اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھے چھوڑ دو،
یہی جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف مجھے پکارنے دو تم میری ایذاء رسانی سے باز رہو۔ اور میری قرابت داری کو خیال کرتے ہوئے مجھے دکھ نہ دو۔ صلح حدیبیہ بھی دراصل یہی چیز تھی جو کھلی فتح کہلائی۔ وہ مومن کہتا ہے کہ سنو! مسرف اور جھوٹے آدمی راہ یافتہ نہیں ہوتے۔ ان کے ساتھ اللہ کی نصرت نہیں ہوتی۔ ان کے اقوال و افعال بہت جلد ان کی خباثت کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ برخلاف اس کے یہ نبی اللہ علیہم السلام اختلاف و اضطراب سے پاک ہیں۔ صحیح سچی اور اچھی راہ پر ہیں۔ زبان کے سچے عمل کے پکے ہیں۔ اگر یہ حد سے گذر جانے والے اور جھوٹے ہوتے تو یہ راستی اور عمدگی ان میں ہرگز نہ ہوتی،
پھر قوم کو نصیحت کرتے ہیں اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں بھائیو! تمہیں اللہ نے اس ملک کی سلطنت عطا فرمائی ہے۔ بڑی عزت دی ہے۔ تمہارا حکم جاری کر رکھا ہے۔ اللہ کی اس نعمت پر تمہیں اس کا شکر کرنا چائے اور اس کے رسولوں کو سچا ماننا چاہیئے۔
یاد رکھو اگر تم نے ناشکری کی اور رسول کی طرف بری نظریں ڈالیں۔ تو یقیناً عذاب اللہ تم پر آ جائے گا۔ بتاؤ اس وقت کسے لاؤ گے۔ جو تمہاری مدد پر کھڑا ہو اور اللہ کے عذاب کو روکے یا ٹالے؟ یہ لاؤ لشکر یہ جان و مال کچھ کام نہ آئیں گے۔ فرعون سے اور تو کوئی معقول جواب بن نہ پڑا کھسایانہ بن کر قوم میں اپنی خیر خواہی جتانے لگا کہ میں دھوکا نہیں دے رہا جو میر اخیال ہے اور میرے ذہن میں ہے وہی تم پر ظاہر کر رہا ہوں۔ حالانکہ دراصل یہ بھی اس کی خیانت تھی۔ وہ بھی جانتا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جیسے فرمان باری ہے «لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا» [ 17- الإسراء: 102 ] یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائبات خاص آسمان و زمین کے پروردگار نے بھیجے ہیں۔ جو کہ بصیرت کے ذرائع ہیں۔
اور آیت میں ہے «وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ» [ 27- النمل: 14 ] ، یعنی انہوں نے باوجود دلی یقین کے از راہ ظلم و زیادتی انکار کر دیا۔ اسی طرح اس کا یہ کہنا بھی سراسر غلط تھا کہ میں تمہیں حق کی سچائی کی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہوں۔ اس میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا اور رعیت کی خیانت کر رہا تھا۔ لیکن اس کی قوم اس کے دھوکے میں آ گئی اور فرعون کی بات مان لی۔ «إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ ۖ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ» [ 11-هود: 97 ] فرعون نے انہیں کسی بھلائی کی راہ نہ ڈالا۔ اس کا عمل ہی ٹھیک نہیں تھا اور جگہ اللہ عزوجل فرماتا ہے «وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَىٰ» [ 20-طه: 79 ] فرعون نے اپنی قوم کو بہا دیا اور انہیں صحیح راہ تک نہ پہنچنے دیا نہ پہنچایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو امام اپنی رعایا سے خیانت کر رہا ہو وہ مر کر جنت کی خوشبو بھی نہیں پاتا۔ حالانکہ وہ خوشبو پانچ سو سال کی راہ پر آتی ہے۔ [صحیح بخاری:1750] «واللہ سبحانہ و تعالیٰ الموفق للصواب»
0%