ابراہیم علیہ السلام کی سچی توحید کے دلائل سن کر پھر بھی مشرکین آپ علیہ السلام سے بحث جاری رکھتے ہیں تو آپ علیہ السلام ان سے فرماتے ہیں ”تعجب ہے کہ تم مجھ سے اللہ جل جلالہ کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہو؟ حالانکہ وہ یکتا اور لا شریک ہے اس نے مجھے راہ دکھا دی ہے اور دلیل عطا فرمائی ہے میں یقیناً جانتا ہوں کہ تمہارے یہ سب معبود محض بے بس اور بے طاقت ہیں، میں نہ تو تمہاری فضول اور باطل باتوں میں آؤں گا نہ تمہاری دھمکیاں سچی جانوں گا، جاؤ تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے جو ہو سکے کر لو۔ ہرگز ہرگز کمی نہ کرو بلکہ جلدی کر گزرو اگر تمہارے اور ان کے قبضے میں میرا کوئی نقصان ہے تو جاؤ پہنچا دو۔
میرے رب کی منشا بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ضرر نفع سب اسی کی طرف سے ہے تمام جیزیں اسی کے علم میں ہیں اس پر چھوٹی سے جھوتی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔ افسوس اتنی دلیلیں سن کر بھی تمہارے دل نصیحت حاصل نہیں کرتے۔“ حضرت ھود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی۔
قرآن میں موجود ہے کہ «قَالُوا يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ مِنْ دُونِهِ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُونِ إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُمْ مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ» [11-هود:53-56] ” ان کی قوم نے ان سے کہا اے ہود! تم کوئی دلیل تو لائے نہیں ہو اور صرف تمہارے قول سے ہم اپنے معبودوں سے دست بردار نہیں ہو سکتے نہ ہم تجھ پر ایمان لائیں گے -ہمارا اپنا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں نے تجھے کچھ کر دیا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم جن کو بھی اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہو، میں سب سے بیزار ہوں۔ جاؤ تم سب مل کر جو کچھ مکر میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو وہ کر لو اور مجھے مہلت بھی نہ دو، میں نے تو اس رب پر توکل کر لیا ہے جو تمہارا میرا سب کا پالنہار ہے۔ تمام جانداروں کی پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ سمجھو اور سوچو تو سہی کہ میں تمہارے ان باطل معبودوں سے کیوں ڈراؤں گا؟ جبکہ تم اس اکیلے اللہ وحدہ لا شریک سے نہیں ڈرتے اور کھلم کھلا اس کی ذات کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہو۔ تم ہی بتلاؤ کہ ہم تم میں سے امن کا زیادہ حقدار کون ہے؟ دلیل میں اعلی کون ہے؟ “
یہ آیت مثل آیت «أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ» [42-الشورى:21] اور آیت «اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ» [53۔النجم:23] کے ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا بندہ جو خیر و شر، کا نفع و ضر کا مالک ہے امن والا ہوگا یا اس کا بندہ جو محض بے بس اور بے قدرت ہے قیامت کے دن کے عذابوں سے امن میں رہے گا۔
پھر جناب باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جو لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور خلوص کے ساتھ دینداری کریں رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں امن و امان اور راہ راست والے یہی لوگ ہیں “ -جب یہ آیت اتری تو صحابہ رضی اللہ عنہم ظلم کا لفط سن کر چونک اٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو؟ اس پر آیت «اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ» [31۔ لقمان:13] نازل ہوئی یعنی یہاں مراد ظلم سے شرک ہے۔ [صحیح بخاری:32]
اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس سوال پر فرمایا: کیا تم نے اللہ کے نیک بندے کا یہ قول نہیں سنا کہ ”اے میرے پیارے بچے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا شرک بڑا بھاری ظلم ہے“ ۔ [مسند احمد:387/1:صحیح] پس مراد یہاں ظلم سے شرک ہے۔
اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو سمجھ رہے ہو وہ مقصد نہیں ۔ [صحیح مسلم:124]
اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود «بِظُلْمٍ» کی تفسیر «بِشِرْكٍ» سے کرنا مروی ہے۔ بہت سے صحابیوں رضی اللہ عنہم سے بہت سی سندوں کے ساتھ بہت سی کتابوں میں یہ حدیث مروی ہے۔ ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھ سے کہا گیا کہ تو ان ہی لوگوں میں سے ہے ۔
مسند احمد میں زاذن اور جریر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب ہم مدینہ شریف سے باہر نکل گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک اونٹ سوار بہت تیزی سے اپنے اونٹ کو دوڑتا ہوا آ رہا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری طرف ہی آ رہا ہے ، اس نے پہنچ کر سلام کیا ہم نے جواب دیا -حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا اپنے گھر سے، اپنے بال بچوں میں سے، اپنے کنبے قبیلے میں سے۔ دریافت فرمایا: کیا ارادہ ہے؟ کیسے نکلے ہو؟ جواب دیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جستجو میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے میں ہی اللہ کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں ۔ اس نے خوش ہو کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سمجھائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور نمازوں کو قائم رکھے اور زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور رمصان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے ۔ اس نے کہا مجھے سب باتیں منظور ہیں میں سب اقرار کرتا ہوں۔ اتنے میں ان کے اونٹ کا پاؤں ایک سوراخ میں گر پڑا اور اونٹ ایک دم سے جھٹکا لے کر جھک گیا اور وہ اوپر سے گرے اور سر کے بل گرے اور اسی وقت روح پرواز کرگئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گرتے ہی فرمایا کہ دیکھو انہیں سنبھالو ۔ اسی وقت عمار بن یاسر اور حذیفہ بن یمان اپنے اونٹوں سے کود پڑے اور انہیں اٹھا لیا دیکھا تو روح جسم سے علیحدہ ہو چکی ہے۔ حضور سے کہنے لگے یا رسول اللہ یہ تو فوت ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا۔ پھر ذرا سی دیر میں فرمانے لگے تم نے مجھے منہ موڑتے ہوئے دیکھا ہو گا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے دیکھا دو فرشتے آئے تھے اور مرحوم کے منہ میں جنت کے پھول دے رہے تھے اس سے میں نے جان لیا کہ بھوکے فوت ہوئے ہیں۔ سنو یہ انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کی بابت اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ” جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہ ملایا ان کے لیے امن و امان ہے اور وہ راہ یافتہ ہیں۔ اچھا اپنے پیارے بھائی کو دفن کرو ۔
چنانچہ ہم انہیں پانی کے پاس اٹھا لے گئے غسل دیا خوشبو ملی اور قبر کی طرف جنازہ لے کر چلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے بغلی قبر بناؤ سیدھی نہ بناؤ بغلی قبر ہمارے لیے ہے اور سیدھی ہمارے سوا اوروں کے لیے ہے ۔ [مسند احمد:359/4:ضعیف] لوگو یہ وہ شخص ہے جس نے عمل بہت ہی کم کیا اور ثواب زیادہ پایا ۔ [مسند احمد:359/4:ضعیف]
یہ ایک اعرابی تھے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنے گھر سے اپنے بال بجوں سے اپنے مال سے اپنے کنبے قبیلے سے اس لیے اور صرف اس لیے الگ ہوا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو قبول کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر علم کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں لوں۔“ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گھاس پھوس کھاتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ اسلام سکھائیے۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اس نے قبول کیا ہم سب ان کے اردگرد بھیڑ لگائے کھڑے تھے اتنے میں جنگلی چوہے کے بل میں ان کے اونٹ کا پاؤں پڑ گیا یہ گر پڑے اور گردن ٹوٹ گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا یہ سچ مچ فی الواقع اپنے گھر سے اپنی اہل و عیال سے اور اپنے مال مویشی سے صرف میری تابعداری کی دھن میں نکلا تھا اور وہ اس بات میں بھی سچے تھے کہ وہ میرے پاس نہیں پہنچے یہاں تک کہ ان کا کھانا صرف سبز پتے اور گھاس رہ گیا تھا تم نے ایسے لوگ بھی سنے ہوں گے جو عمل کم کرتے ہیں اور ثواب بہت پاتے ہیں۔ یہ بزرگ انہی میں سے تھے ۔ رضی اللہ عنہ
پھر فرمایا ” ابراہیم علیہ السلام کو یہ دلیلیں ہم نے سکھائیں جن سے وہ اپنی قوم پر غالب آگئے “ -جیسے انہوں نے ایک اللہ کے پرستار کا امن اور اس کی ہدایت بیان فرمائی اور خود اللہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی آیت «نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاءُ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ» [6۔الأنعام:83] کی یہی ایک قرأت ہے، اضافت کے ساتھ اور بے اضافت دونوں طرح پڑھا گیا ہے جیسے سورۃ یوسف میں ہے اور معنی دونوں قرأتوں کے قریب قریب برابر ہیں۔
” تیرے رب کے اقوال رحمت والے اور اس کے کام بھی حکمت والے ہیں۔ وہ صحیح راستے والوں کو اور گمراہوں کو بخوبی جانتا ہے “۔
جیسے فرمان ہے «إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ» [10-يونس:96-97] ” جن پر تیرے رب کی بات صادق آ گئی ہے ان کے پاس چاہے تم تمام نشانیاں لے آؤ پھر بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیں “۔ پس رب کی حکمت اور اس کے علم میں کوئی شبہ نہیں۔
0%