اہل کتاب کے ان گناہوں کا بیان ہو رہا ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمتوں سے دور ڈال دیئے گئے اور ملعون و جلا وطن کر دیئے گئے اولاً ان کی عہد شکنی یہ تھی کہ جو وعدے انہوں نے اللہ سے کئے ان پر قائم نہ رہے، دوسرے اللہ کی آیتوں یعنی حجت و دلیل اور نبیوں کے معجزوں سے انکار اور کفر، تیسرے بلا وجہ، ناحق انبیاء کرام علیہم السلام کا قتل۔ ان کے رسولوں کی ایک بڑی جماعت ان کے ہاتھوں قتل ہوئی۔
چوتھی ان کا یہ خیال اور قول کہ ہمارے دل غلافوں میں ہیں یعنی پردے میں ہیں، جیسے مشرکین نے کہا تھا آیت «وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ وَفِيْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ» [41-فصلت:5] یعنی ” اے نبی تیری دعوت سے ہمارے دل پردے میں ہیں۔ “
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ” ہمارے دل علم کے ظروف ہیں وہ علم و عرفان سے پُر ہیں۔ “ سورۃ البقرہ میں بھی اس کی نظیر گذر چکی ہے،
اللہ تعالیٰ ان کے اس قول کی تردید کرتا ہے کہ یوں نہیں بلکہ ان پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے کیونکہ یہ کفر میں پختہ ہو چکے تھے۔ پس پہلی تفسیر کی بنا پر یہ مطلب ہوا کہ وہ عذر کرتے تھے کہ ہمارے دل بوجہ ان پر غلاف ہونے کے نبی کی باتوں کو یاد نہیں کر سکتے تو انہیں جواب دیا گیا کہ ایسا نہیں بلکہ تمہارے کفر کی وجہ سے تمہارے دل مسخ ہو گئے ہیں اور دوسری تفسیر کی بنا پر تو جواب ہر طرح ظاہر ہے۔ سورۃ البقرہ کی تفسیر میں اس کی پوری تفصیل و تشریح گذر چکی ہے۔ پس بطور نتیجے کے فرما دیا کہ اب ان کے دل کفر و سرکشی اور کمی ایمان پر ہی رہیں گے۔
پھر ان کا پانچواں جرم عظیم بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے سیدہ مریم علیہا السلام پر زناکاری جیسی بدترین اور شرمناک تہمت لگائی اور اسی زناکاری کے حمل سے عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا شدہ بتایا، بعض نے اس سے بھی ایک قدم آگے رکھا اور کہا کہ یہ بدکاری حیض کی حالت میں ہوئی تھی۔ اللہ کی ان پر پھٹکار ہو کہ ان کی بد زبانی سے اللہ کے مقبول بندے بھی نہ بچ سکے۔
پھر ان کا چھٹا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ بطور تمسخر اور اپنی بڑائی کے یہ ہانک بھی لگاتے ہیں کہ ”ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو مار ڈالا“ جیسے کہ بطور تمسخر کے مشرکین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے تو تو مجنون ہے۔ پورا واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت دے کر بھیجا اور آپ کے ہاتھ پر بڑے بڑے معجزے دکھائے مثلاً بچپن کے اندھوں کو بینا کرنا، کوڑھیوں کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، مٹی کے پرند بنا کر پھونک مارنا اور ان کا جاندار ہو کر اڑ جانا وغیرہ
تو یہودیوں کو سخت طیش آیا اور مخالفت پر کمربستہ ہو گئے اور ہر طرح سے ایذاء رسانی شروع کر دی، آپ کی زندگی تنگ کر دی، کسی بستی میں چند دن آرام کرنا بھی آپ کو نصیب نہ ہوا، ساری عمر جنگلوں اور بیابانوں میں اپنی والدہ کے ساتھ سیاحت میں گذاری، پھر بھی انہیں چین نہ لینے دیا، یہ دمشق کے بادشاہ کے پاس گئے جو ستارہ پرست مشرک شخص تھا (اس مذہب والوں کے ملک کو اس وقت یونان کہا جاتا تھا) یہاں آکر بہت روئے پیٹے اور بادشاہ کو عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف اکسایا اور کہا کہ یہ شخص بڑا مفسد ہے۔ لوگوں کو بہکا رہا ہے، روز نئے فتنے کھڑے کرتا ہے، امن میں خلل ڈالتا ہے۔ لوگوں کو بغاوت پہ اکساتا ہے وغیرہ۔
بادشاہ نے اپنے گورنر کو جو بیت المقدس میں تھا، ایک فرمان لکھا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کر لے اور سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ کر لوگوں کو اس دکھ سے نجات دلوائے۔ اس نے فرمان شاہی پڑھ کر یہودیوں کے ایک گروہ کو اپنے ساتھ لے کر اس مکان کا محاصرہ کر لیا جس میں روح اللہ علیہ السلام تھے، آپ کے ساتھ اس وقت بارہ تیرہ یا زیادہ سے زیادہ ستر آدمی تھے، جمعہ کے دن عصر کے بعد اس نے محاصرہ کیا اور ہفتہ کی رات تک مکان کو گھیرے میں لیے رہا
جب عیسیٰ علیہ السلام نے یہ محسوس کر لیا کہ اب وہ مکان میں گھس کر آپ کو گرفتار کر لیں گے یا آپ کو خود باہر نکلنا پڑے گا تو آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈال دی جائے یعنی اس کی صورت اللہ مجھ جیسی بنا دے اور وہ ان کے ہاتھوں گرفتار ہو اور مجھے اللہ مخلصی دے؟ میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں۔
اس پر ایک نوجوان نے کہا مجھے یہ منظور ہے لیکن عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں اس قابل نہ جان کر دوبارہ یہی کہا، تیسری دفعہ بھی کہا مگر ہر مرتبہ صرف یہی تیار ہوئے رضی اللہ عنہ۔ اب آپ نے یہی منظور فرما لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی صورت قدرتاً بدل گئی بالکل یہ معلوم ہونے لگا کہ عیسیٰ علیہ السلام یہی ہیں اور چھت کی طرف ایک روزن نمودار ہو گیا اور عیسیٰ علیہ السلام پر اونگھ کی سی حالت ہو گئی اور اسی طرح وہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔
جیسے قرآن کریم میں ہے آیت «إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ» [3-آل عمران:55] ، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے عیسیٰ میں تم سے مکمل تعاون کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ “
روح اللہ کے سوئے ہوئے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد یہ لوگ اس گھر سے باہر نکلے، یہودیوں کی جماعت نے اس بزرگ صحابی کو جس پر جناب مسیح علیہ السلام کی شباہت ڈال دی گئی تھی، عیسیٰ سمجھ کر پکڑ لیا اور راتوں رات اسے سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ دیا۔ اب یہود خوشیاں منانے لگے کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو قتل کر دیا اور لطف تو یہ ہے کہ عیسائیوں کی کم عقل اور جاہل جماعت نے بھی یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی اور ہاں صرف وہ لوگ جو مسیح علیہ السلام کے ساتھ اس مکان میں تھے اور جنہیں یقینی طور پر معلوم تھا کہ مسیح آسمان پر چڑھا لیے گئے اور یہ فلاں شخص ہے جو دھوکے میں ان کی جگہ کام آیا۔ باقی عیسائی بھی یہودیوں کا سا راگ الاپنے لگے، یہاں تک کہ پھر یہ بھی گھڑ لیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ سولی تلے بیٹھ کر روتی چلاتی رہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے کچھ باتیں بھی کیں، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
دراصل یہ سب باتیں اللہ کی طرف سے اپنے بزرگ بندوں کا امتحان ہیں جو اس کی حکمت بالغہ کا تقاضا ہے، پس اس غلطی کو اللہ تعالیٰ نے واضح اور ظاہر کر کے حقیقت حال سے اپنے بندوں کو مطلع فرما دیا اور اپنے سب سے بہتر رسول اور بڑے مرتبے والے پیغمبر کی زبانی اپنے پاک، سچے اور بہترین کلام میں صاف فرما دیا کہ حقیقتاً نہ کسی نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا، نہ سولی دی بلکہ ان کی شبیہ جس پر ڈالی گئی تھی، اسے عیسیٰ علیہ السلام ہی سمجھ بیٹھے۔
جو یہود و نصاریٰ آپ کے قتل کے قائل ہو گئے وہ سب کے سب شک و شبہ میں حیرت و ضلالت میں مبتلا ہیں۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں نہ انہیں خود کچھ علم ہے صرف سنی سنائی باتوں پہ یقین کے سوا کوئی ان کے پاس دلیل نہیں۔ اسی لیے پھر اسی کے متصل فرما دیا کہ ”یہ یقینی امر ہے کہ روح اللہ کو کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ جناب باری عزاسمہ نے جو غالب تر ہے اور جس کی قدرتیں بندوں کے فہم میں بھی نہیں آ سکتیں اور جس کی حکمتوں کی تہ تک اور کاموں کی لم تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، اپنے خاص بندے کو جنہیں اپنی روح کہا تھا اپنے پاس اٹھا لیا“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھانا چاہا تھا، آپ گھر میں آئے اور گھر میں بارہ حواری تھے، آپ کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، آپ نے فرمایا! تم میں بعض ایسے ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں مگر کچھ مجھ سے کفر کریں گے۔ پھر آپ نے فرمایا ”تم میں سے کون شخص اسے پسند کرتا ہے کہ اس پر میری شبیہ ڈالی جائے اور میری جگہ وہ قتل کر دیا جائے اور جنت میں میرا رفیق بنے۔“
اس روایت میں یہ بھی ہے کہ روح اللہ علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق بعض نے آپ سے بارہ بارہ بار کفر کیا۔ پھر ان کے تین گروہ ہو گئے، یعقوبیہ، نسطوریہ اور مسلمان، یعقوبیہ تو کہنے لگے خود اللہ ہم میں تھا، جب تک چاہا رہا، پھر آسمان پر چڑھ گیا، نسطوریہ کا خیال ہو گیا کہ اللہ کا لڑکا ہم میں تھا، جسے ایک زمانے تک ہم میں رکھ کر پھر اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا کہ اللہ کا بندہ اور رسول ہم میں تھا جب تک اللہ نے چاہا وہ ہم میں رہا اور پھر اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔ ان پہلے دو گمراہ فرقوں کا زور ہو گیا اور انہوں نے تیسرے سچے اور اچھے فرقے کو کچلنا اور دبانا شروع کیا، چنانچہ یہ کمزور ہوتے گئے
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر اسلام کو غالب کیا۔ اس کی اسناد بالکل صحیح ہے اور نسائی میں سیدنا ابومعاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے [تفسیر ابن ابی حاتم:1110/4]
اسی طرح سلف میں سے بہت سے بزرگوں کا قول ہے، وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس وقت شاہی سپاہی اور یہودی عیسیٰ علیہ السلام پر چڑھ دوڑے اور گھیرا ڈال دیا اس وقت آپ کے ساتھ سترہ آدمی تھے۔ ان لوگوں نے جب دروازے کھول کر دیکھا تو دیکھا کہ سب کے سب عیسیٰ کی صورت میں ہیں تو کہنے لگے تم لوگوں نے ہم پر جادو کر دیا ہے، اب یا تو تم اسے جو حقیقی عیسیٰ علیہ السلام ہوں ہمیں سونپ دو یا اسے منظور کر لو کہ ہم تم سب کو قتل کر ڈالیں۔ یہ سن کر روح اللہ نے فرمایا ”کوئی ہے جو جنت میں میرا رفیق بنے اور یہاں میرے بدلے سولی پر چڑھنا منظور کرے“ ایک صحابی اس کے لیے تیار ہو گئے اور کہنے لگے عیسیٰ میں تیار ہوں، چنانچہ دشمنان دین نے انہیں گرفتار کیا قتل کیا اور سولی چڑھایا اور بغلیں بجانے لگے کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کیا، حالانکہ دراصل ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ دھوکے میں پڑ گئے اور اللہ نے اپنے رسول کو اسی وقت اپنے پاس چڑھا لیا۔
تفسیر ابن جریر میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو یہ وحی کر دیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں تو آپ پر بہت گراں گذرا اور موت کی گھبراہٹ بڑھ گئی تو آپ نے حواریوں کی دعوت کی، کھانا تیار کیا اور سب سے کہدیا کہ آج رات کو میرے پاس تم سب ضرور آنا، مجھے ایک ضروری کام ہے۔ جب وہ آئے تو خود کھانا کھلایا سب کام کاج اپنے ہاتھوں کرتے رہے، جب وہ کھا چکے تو خود ان کے ہاتھ دھلائے اور اپنے کپڑوں سے کے ہاتھ پونچھے یہ ان پر بھاری پڑا اور برا بھی لگا
لیکن آپ نے فرمایا“اس رات میں جو کچھ کر رہا ہوں، اگر تم میں سے کسی نے مجھے اس سے روکا تو میرا اس کا کچھ واسطہ نہیں نہ وہ میرا نہ میں اس کا۔ ”چنانچہ وہ سب خاموش رہے۔ جب آپ ان تمام کاموں سے فارغ ہو گئے تو فرمایا دیکھو! تمہارے نزدیک میں تم سب سے بڑے مرتبے والا ہوں اور میں نے تمہاری خدمت خود کی ہے، یہ اس لیے کہ تم میری اس سنت کے عامل بن جاؤ، خبردار تم میں سے کوئی اپنے آپ کو اپنے بھائیوں سے بڑا نہ سمجھے، بلکہ ہر بڑا چھوٹے کی خدمت کرے، جس طرح خود میں نے تمہاری خدمت کی ہے۔
اب تم سے میرا جو خاص کام تھا جس کی وجہ سے آج میں نے تمہیں بلایا ہے وہ بھی سن لو کہ“تم سب مل کر آج رات بھر خشوع و خضوع سے میرے لیے دعائیں کرو کہ اللہ میری اجل کو مؤخر کر دے۔ ”چنانچہ سب نے دعائیں شروع کیں لیکن خشوع و خضوع کا وقت آنے سے پہلے ہی اس طرح انہیں نیند آنے لگی کہ زبان سے ایک لفظ نکالنا مشکل ہو گیا، آپ نے انہیں بیدار کرنے کی کوشش میں ایک ایک کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہا تمہیں کیا ہو گیا؟ ایک رات بھی جاگ نہیں سکتے؟ میری مدد نہیں کرتے؟ لیکن سب نے جواب دیا اے رسول اللہ ہم خود حیران ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟
ایک چھوڑ کئی کئی راتیں جاگتے تھے، جاگنے کے عادی ہیں لیکن اللہ جانے، آج کیا بات ہے کہ بری طرح نیند نے گھیر رکھا ہے، دعا کے اور ہمارے درمیان کوئی قدرتی رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے تو آپ نے فرمایا! اچھا پھر چرواہا نہ رہے گا اور بکریاں تین تیرہ ہو جائیں گی، غرض اشاروں کنایوں میں اپنا مطلب ظاہر کرتے رہے، پھر فرمایا ”دیکھو تم میں سے ایک شخص صبح کا مرغ بولنے سے پہلے تین مرتبہ میرے ساتھ کفر کرے گا اور تم میں سے ایک چندہ درہموں کے بدلے مجھے بیچ دے گا اور میری قیمت کھائے گا۔“
اب یہ لوگ یہاں سے باہر نکلے ادھر ادھر چلے گئے، یہود جو اپنی جستجو میں تھے، انہوں نے شمعون حواری کو پہچان کر اسے پکڑا اور کہا یہ بھی اس کا ساتھی ہے، مگر شمعون نے کہا ”غلط ہے میں اس کا ساتھی نہیں ہوں۔“ انہوں نے یہ باور کر کے اسے چھوڑ دیا لیکن کچھ آگے جا کر یہ دوسری جماعت کے ہاتھ لگ گیا، وہاں سے بھی اسی طرح انکار کر کے اپنا آپ چھڑایا۔ اتنے میں مرغ نے بانگ دی اب یہ پچھتانے لگے اور سخت غمگین ہوئے۔
صبح ایک حواری یہودیوں کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں تمہیں عیسیٰ کا پتہ بتا دوں تو تم مجھے کیا دلواؤ گے؟ انہوں نے کہا تیس درہم، چانچہ اس نے وہ رقم لے لی، اور عیسیٰ علیہ السلام کا پتہ بتا دیا۔ اس سے پہلے وہ شبہ میں تھے، اب انہوں نے گرفتار کر لیا اور رسیوں میں جکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے چلے اور بطور طعنہ زنی کے کہتے جاتے تھے کہ آپ تو مردوں کو زندہ کرتے تھے، جنات کو بھگا دیا کرتے تھی، مجنون کو اچھا کر دیا کرتے تھے، اب کیا بات ہے کہ خود اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے ان رسیوں کو بھی نہیں توڑ سکتے، تھو ہے تمہارے منہ پر!
یہ کہتے جاتے تھے اور کانٹے ان کے اوپر ڈالتے جاتے تھے۔ اسی طرح بیدردی سے گھسیتے ہوئے جب اس لکڑی کے پاس لائے جہاں سولی دینا تھی اور ارادہ کیا کہ سولی پر چڑھا دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنی طرف چڑھا لیا اور انہوں نے دوسرے شخص کو جو آپ کے مشابہ تھا سولی پر چڑھا دیا۔
پھر سات دن کے بعد مریم اور وہ عورت جس کو عیسیٰ علیہ السلام نے جن سے نجات دلوائی تھی۔ وہاں آئیں اور رونے پیٹنے لگیں تو ان کے پاس عیسیٰ علیہ السلام آئے اور ان سے کہا کہ ”کیوں روتی ہو؟ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف بلند کر لیا ہے اور مجھے ان کی اذیتیں نہیں پہنچیں، ان پر تو شبہ ڈال دیا گیا ہے میرے حواریوں سے کہو کہ مجھ سے فلاں جگہ ملیں“
چنانچہ یہ بشارت جب حواریوں کو ملی تو وہ سب کے سب گیارہ آدمی اس جگہ پہنچے، جس حواری نے آپ کو بیچا تھا، اسے انہوں نے وہاں نہ پایا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے اپنا گلا گھونٹ کر آپ ہی مر گیا، اس نے خودکشی کر لی۔ آپ نے فرمایا ”اگر وہ توبہ کرتا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا۔“
پھر پوچھا کہ یہ بچہ جو تمہارے ساتھ ہے، اس کا نام یحییٰ ہے، اب یہ تمہارا ساتھی ہے سنو صبح کو تمہاری زبانیں بدل دی جائیں گی، ہر شخص اپنی اپنی قوم کی زبان بولنے لگے گا، اسے چاہیئے کہ اسی قوم میں جا کر اسے میری دعوت پہنچائے اور اللہ سے ڈرائے۔ یہ واقعہ نہایت ہی غریب ہے
ابن اسحاق کا قول ہے کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ جس نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے اپنی فوج بھیجی تھی اس کا نام داؤد تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام اس وقت سخت گھبراہٹ میں تھے، کوئی شخص اپنی موت سے اس قدر پریشان حواس باختہ اور اس قدر واویلا کرنے والا نہ ہو گا، جس قدر آپ نے اس وقت کیا۔ یہاں تک کہ فرمایا یا اللہ اگر تو موت کے پیالے کو کسی سے بھی ٹالنے والا ہے تو مجھ سے ٹال دے اور یہاں تک کہ گھبراہٹ اور خوف کے مارے ان کے بدن سے خون پھوٹ کر بہنے لگا،
اس وقت اس مکان میں آپ کے ساتھ بارہ حواری تھے، جن کے نام یہ ہیں فرطوس، یعقوب، ربداء، یحنس، [ یعقوب کا بھائی ] اندرا اییس، فیلبس ابن یلما، منتا، طوماس، یعقوب بن حلقایا، تداوسیس، قثانیا، یودس ذکریا یوطا۔ بعض کہتے ہیں تیرہ آدمی تھے اور ایک کا نام سرجس تھا۔ اسی نے اپنا آپ سولی پر چڑھایا جانا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت پر منظور کیا تھا۔
جب عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر چڑھا لیے گئے اور بقیہ لوگ یہودیوں کے ہاتھوں میں اسیر ہو گئے، اب جو گنتی گنتے ہیں تو ایک کم نکلا۔ اس کے بارے میں ان میں آپس میں اختلاف ہوا۔ یہ لوگ جب اس جماعت پر چھاپہ مارتے ہیں اور انہیں گرفتار کرنا چاہتے ہیں تو عیسیٰ علیہ السلام کو چونکہ پہچانتے نہ تھے تو یودس ذکریا یوطا نے تیس درہم لے کر ان سے کہا تھا کہ میں سب سے پہلے جاتا ہوں جسے میں جا کر بوسہ دوں تم سمجھ لینا کہ عیسیٰ علیہ السلام وہی ہے۔
جب یہ اندر پہنچتے ہیں، اس وقت عیسیٰ اٹھا لیے گئے تھے اور سرجس آپ کی صورت میں بنا دیئے گئے تھے، اس نے جا کر حسب قرار داد انہی کا بوسہ لیا اور یہ گرفتار کر لیے گئے پھر تو یہ بہت نادم ہوا اور اپنے گلے میں رسی ڈال کر پھانسی پر لٹک گیا اور نصرانیوں میں ملعون بنا۔ بعض کہتے ہیں اس کا نام یودس رکریا بوطا تھا، یہ جیسے ہی عیسیٰ علیہ السلام کی پہچان کرانے کے لیے اس گھر میں داخل ہوا، عیسیٰ علیہ السلام تو اٹھا لیے گئے اور خود اس کی صورت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہو گئی اور اسی کو لوگوں نے پکڑ لیا، یہ ہزار چیختا چلاتا رہا کہ میں عیسیٰ نہیں ہوں، میں تو تمہارا ساتھی ہوں، میں نے ہی تو تمہیں عیسیٰ علیہ السلام کا پتہ دیا تھا لیکن کون سنتا؟ آخر اسی کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ اب اللہ ہی کو علم ہے کہ یہی تھا یا وہ تھا، جس کا ذکر پہلے ہوا۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ روح اللہ علیہ السلام کی مشابہت جس پر ڈال دی گئی تھی اسے صلیب پر چڑھایا اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ آپ کے ان تمام ساتھیوں پر ڈال دی گی تھی۔“ اس کے بعد ذکر ہوتا ہے کہ جناب روح اللہ علیہ السلام کی موت سے پہلے جملہ اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے اور قیامت تک آپ ان کے گواہ ہوں گے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی تفسیر میں کئی قول ہیں
ایک تو یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام موت سے پہلے یعنی جب آپ دجال کو قتل کرنے کے لیے دوبارہ زمین پر آئیں گے اس وقت تمام مذاہب ختم ہو چکے ہوں گے اور صرف ملت اسلامیہ جو دراصل ابراہیم علیہ السلام حنیف کی ملت ہے رہ جائے گی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «موتہ» سے مراد موت عیسیٰ علیہ السلام ہے ابو مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب جناب مسیح علیہ السلام اتریں گے، اس وقت کل اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:380/9]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور روایت میں ہے خصوصاً یہودی ایک بھی باقی نہیں رہے گا۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی نجاشی اور ان کے ساتھی آپ سے مروی ہے کہ قسم اللہ کی عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے پاس اب زندہ موجود ہیں۔ جب آپ زمین پر نازل ہوں گے، اس وقت اہل کتاب میں سے ایک بھی ایسا نہ ہو گا جو آپ پر ایمان نہ لائے۔ آپ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی جاتی ہے تو آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو اپنے پاس اٹھا لیا ہے اور قیامت سے پہلے آپ کو دوبارہ زمین پر اس حیثیت سے بھیجے گا کہ ہر نیک و بد آپ پر ایمان لائے گا۔ قتادہ، عبدالرحمٰن رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بہت سے مفسرین کا یہی فیصلہ ہے اور یہی قول حق ہے اور یہی تفسیر بالکل ٹھیک ہے، ان شاءاللہ العظیم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق سے ہم اسے بادلائل ثابت کریں گے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ہر اہل کتاب آپ پر اپنی موت سے پہلے ایمان لاتا ہے۔ اس لیے کہ موت کے وقت حق و باطل سب کھل جاتا ہے تو ہر کتابی عیسیٰ کی حقانیت کو زمین سے سدھارنے سے پہلے یاد کر لیتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کوئی یہودی نہیں مرتا جب تک کہ وہ روح اللہ پر ایمان نہ لائے۔
مجاہد رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تو یہاں تک مروی ہے کہ اگر کسی اہل کتاب کی گردن تلوار سے اڑا دی جائے تو اس کی روح نہیں نکلتی جب تک کہ وہ عیسیٰ پر ایمان نہ لائے اور یہ نہ کہدے کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ ابی رحمہ اللہ کی تو قرأت میں «قبل موتھم» ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا ہے کہ فرض کرو کوئی دیوار سے گر کر مر جائے؟ فرمایا پھر بھی اس درمیانی فاصلے میں وہ ایمان لا چکتا ہے۔
عکرمہ، محمد بن سیرین، محمد ضحاک، سعید بن جبیر رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے۔ ایک قول امام حسن رحمہ اللہ سے ایسا بھی مروی ہے کہ جس کا مطلب پہلے قول کا سا بھی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کی موت سے پہلے کا بھی ہو سکتا ہے۔
0%