آپ 9:14 سے 9:16 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
قاتلوهم يعذبهم الله بايديكم ويخزهم وينصركم عليهم ويشف صدور قوم مومنين ١٤ ويذهب غيظ قلوبهم ويتوب الله على من يشاء والله عليم حكيم ١٥ ام حسبتم ان تتركوا ولما يعلم الله الذين جاهدوا منكم ولم يتخذوا من دون الله ولا رسوله ولا المومنين وليجة والله خبير بما تعملون ١٦
قَـٰتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ ٱللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍۢ مُّؤْمِنِينَ ١٤ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ ۗ وَيَتُوبُ ٱللَّهُ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ١٥ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا۟ وَلَمَّا يَعْلَمِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ جَـٰهَدُوا۟ مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلَا رَسُولِهِۦ وَلَا ٱلْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةًۭ ۚ وَٱللَّهُ خَبِيرٌۢ بِمَا تَعْمَلُونَ ١٦
قَاتِلُوْهُمْ
یُعَذِّبْهُمُ
اللّٰهُ
بِاَیْدِیْكُمْ
وَیُخْزِهِمْ
وَیَنْصُرْكُمْ
عَلَیْهِمْ
وَیَشْفِ
صُدُوْرَ
قَوْمٍ
مُّؤْمِنِیْنَ
۟ۙ
وَیُذْهِبْ
غَیْظَ
قُلُوْبِهِمْ ؕ
وَیَتُوْبُ
اللّٰهُ
عَلٰی
مَنْ
یَّشَآءُ ؕ
وَاللّٰهُ
عَلِیْمٌ
حَكِیْمٌ
۟
اَمْ
حَسِبْتُمْ
اَنْ
تُتْرَكُوْا
وَلَمَّا
یَعْلَمِ
اللّٰهُ
الَّذِیْنَ
جٰهَدُوْا
مِنْكُمْ
وَلَمْ
یَتَّخِذُوْا
مِنْ
دُوْنِ
اللّٰهِ
وَلَا
رَسُوْلِهٖ
وَلَا
الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلِیْجَةً ؕ
وَاللّٰهُ
خَبِیْرٌ
بِمَا
تَعْمَلُوْنَ
۟۠
3
مسلمان بھی آزمائیں جائیں گے ٭٭

یہ نا ممکن ہے کہ امتحان بغیر مسلمان بھی چھوڑ دیئے جائیں سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر کر دینا ضروری ہے۔ «وَلِيجَةً» کے معنی بھیدی اور دخل دینے والے کے ہیں۔ پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں اور ظاہر باطن میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی اور حمایت کریں۔

ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لوگوں پر بیان چھوڑ دیا ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں۔ اور جگہ قرآن کریم ہے کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہو گی ہی نہیں حالانکہ اگلے مومنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ تعالیٰ سچے اور جھوٹوں کو ضرور الگ کر دے گا۔ [29-العنكبوت:3،2]

اور آیت میں اسی مضمون کو «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ» [3-آل عمران:142] ‏ کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے۔

اور آیت میں ہے «مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ» [3-آل عمران:179] ‏ اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے؟

پس جہاد کے مشروع کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جاتی ہے۔ گو اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے جو ہو گا وہ بھی اسے معلوم ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہو گا تب کس طرح ہو گا یہ بھی وہ جانتا ہے چیز کے ہونے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے اور ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا، سچا جھوٹا ظاہر کر دے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضاء و قدر اور ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے۔

صفحہ نمبر3409