آپ 9:126 سے 9:127 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
اولا يرون انهم يفتنون في كل عام مرة او مرتين ثم لا يتوبون ولا هم يذكرون ١٢٦ واذا ما انزلت سورة نظر بعضهم الى بعض هل يراكم من احد ثم انصرفوا صرف الله قلوبهم بانهم قوم لا يفقهون ١٢٧
أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِى كُلِّ عَامٍۢ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ ١٢٦ وَإِذَا مَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌۭ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ يَرَىٰكُم مِّنْ أَحَدٍۢ ثُمَّ ٱنصَرَفُوا۟ ۚ صَرَفَ ٱللَّهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌۭ لَّا يَفْقَهُونَ ١٢٧
اَوَلَا
یَرَوْنَ
اَنَّهُمْ
یُفْتَنُوْنَ
فِیْ
كُلِّ
عَامٍ
مَّرَّةً
اَوْ
مَرَّتَیْنِ
ثُمَّ
لَا
یَتُوْبُوْنَ
وَلَا
هُمْ
یَذَّكَّرُوْنَ
۟
وَاِذَا
مَاۤ
اُنْزِلَتْ
سُوْرَةٌ
نَّظَرَ
بَعْضُهُمْ
اِلٰی
بَعْضٍ ؕ
هَلْ
یَرٰىكُمْ
مِّنْ
اَحَدٍ
ثُمَّ
انْصَرَفُوْا ؕ
صَرَفَ
اللّٰهُ
قُلُوْبَهُمْ
بِاَنَّهُمْ
قَوْمٌ
لَّا
یَفْقَهُوْنَ
۟
3
عذاب سے دوچار ہونے کے بعد بھی منافق باز نہیں آتا ٭٭

یہ منافق اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہر سال دو ایک دفعہ ضرور وہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی انہیں اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے نہ آئندہ کے لیے عبرت ہوتی ہے۔ کبھی قحط سالی ہے، کبھی جنگ ہے، کبھی جھوٹی گپیں ہیں جن سے لوگ بیچین ہو رہے ہیں۔

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کاموں میں سختی بڑھ رہی ہے۔ بخیلی عام ہو رہی ہے ہر سال اپنے سے پہلے کے سال سے بد آ رہا ہے۔ [صحیح بخاری:7068]

جب کوئی سورت اترتی ہے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟ پھر حق سے پلٹ جاتے ہیں نہ حق کو سمجھیں نہ مانیں۔ وعظ سے منہ پھیرلیں اور ایسے بھاگیں جیسے گدھا شیر سے۔ حق کو سنا اور دائیں بائیں کھسک گئے۔ ان کی اس بےایمانی کا بدلہ یہی ہے کہ اللہ نے ان کے دل بھی حق سے پھیر دیئے۔ ان کی کجی نے ان کے دل بھی ٹیرھے کر دیئے۔ یہ بدلہ ہے اللہ کے خطاب کو بےپرواہی کر کے نہ سمجھنے کا اس سے بھاگنے اور منہ موڑ لینے کا۔

صفحہ نمبر3637