ساتوں قاریوں اور جمہور نے اسے «إِيَّاكَ» پڑھا ہے۔ عمرو بن فائد نے «اِیَاکَ» پڑھا ہے۔ لیکن یہ قراۃ شاذ اور مردود ہے۔ اس لیے کہ «اِیاَ» کے معنی سورج کی روشنی کے ہیں اور بعض نے «أَيَّاكَ» پڑھا ہے اور بعض نے «هَيَّاكَ» پڑھا ہے۔ عرب شاعروں کے شعر میں بھی «َھیَّاکَ» ہے۔ «نَسْتَعِينُ» کی یہی قرأت تمام کی ہے۔ سوائے یحییٰ بن وثاب اور اعمش کے۔ یہ دونوں پہلے نون کو زیر سے پڑھتے ہیں۔ قبیلہ بنو اسد، ربیعہ بنت تمیم کی لغت اسی طرح پر ہے۔
لغت میں عبادت کہتے ہیں ذلت اور پستی کو طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو۔ اسی طرح «بَعِيرٌ مُعَبَّدٌ» اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو اور شریعت میں عبادت نام ہے محبت، خشوع، خضوع اور خوف کے مجموعے کا۔ لفظ «اِیَّاکَ» کو جو مفعول ہے پہلے لائے اور پھر اسی کو دہرایا تاکہ اس کی اہمیت ہو جائے اور عبادت اور طلب مدد اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہو جائے تو اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کریں گے اور تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔ کامل اطاعت اور پورے دین کا حاصل صرف یہی دو چیزیں ہیں۔
بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن کا راز سورۃ فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» میں ہے۔ آیت کے پہلے حصہ میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملہ میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے اور اللہ عزوجل کی طرف اپنے تمام کاموں کی سپردگی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں۔
جیسے فرمایا: «فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ» [11-هود:123] الخ یعنی ”اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں“۔
فرمایا: «قُلْ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا» [67-الملك:29] الخ یعنی ”کہہ دے کہ وہی رحمان ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی پر ہم نے توکل کیا“۔
فرمایا: «رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا» [73-المزمل:9] الخ یعنی ”مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ“۔
یہی مضمون اس آیۃ کریمہ میں ہے اس سے پہلے کی آیات میں تو خطاب نہ تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کیا گیا ہے جو نہایت لطافت اور مناسبت رکھتا ہے اس لیے کہ جب بندے نے اللہ تعالیٰ کی صفت و ثنا بیان کی تو قرب الہٰی میں حاضر ہو گیا اللہ جل جلالہ کے حضور میں پہنچ گیا، اب اس مالک کو خطاب کر کے اپنی ذلت اور مسکینی کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ ”الہٰ“ ہم تو تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں۔ اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کے تمام جملوں میں خبر تھی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی ”ثناء“ انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اسی لیے اس شخص کی نماز صحیح نہیں جو اس سورت کو پڑھنا جانتا ہو اور پھر نہ پڑھے۔
جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے“ ۔ [صحیح بخاری:756]
صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان (نصف نصف) بانٹ لیا ہے اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔ جب بندہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» کہتا ہے، تو اللہ فرماتا ہے «حَمِدَنِي عَبْدِي» میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب کہتا ہے «الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ»، اللہ فرماتا ہے «أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي» میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب وہ کہتا ہے «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ»، اللہ فرماتا ہے «مَجَّدَنِي عَبْدِي» میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ جب وہ «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ» یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے۔ پھر وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ» یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے اس کے لیے ہے“ ۔ [صحیح مسلم:395]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «إِيَّاكَ نَعْبُدُ» کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے رب ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیری اسی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہم عبادت کریں، نہ ڈریں، نہ امید رکھیں۔ اور «إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں [تفسیر ابن ابی حاتم:19/1]
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے کہ تم سب اسی کی خالص عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگو [تفسیر ابن ابی حاتم:20/1]
«إِيَّاكَ نَعْبُدُ» کو پہلے لانا اس لیے ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے اور مدد کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اور اہتمام اور اس پر پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو مقدم کیا جاتا ہے اور اس سے کمتر کو اس کے بعد لایا جاتا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اگر یہ کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر یہ جمع کے لیے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لیے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ جماعت میں کھڑا ہو یا امام بنا ہوا ہو۔ پس گویا وہ اپنی اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لیے آگے بڑھا ہوا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہے گویا کہ بندہ جب عبادت میں داخل ہوتا ہے تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ تو شریف ہے اور تیری عزت ہمارے دربار میں بہت زیادہ ہے تو اب «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» کہا یعنی اپنے تئیں عزت سے یاد کر۔ ہاں اگر عبادت سے الگ ہو تو اس وقت ہم نہ کہے چاہے ہزاروں لاکھوں میں ہو کیونکہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے محتاج اور اس کے دربار کے فقیر ہیں۔
بعض کا قول ہے کہ «إِيَّاكَ نَعْبُدُ» میں جو تواضع اور عاجزی ہے وہ «إِيَّاكَ عَبَدنَا» میں نہیں اس لیے کہ اس میں اپنے نفس کی بڑائی اور اپنی عبادت کی اہلیت پائی جاتی ہے حالانکہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی پوری عبادت اور جیسی چاہے ویسی ثنا و صفت بیان کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتا۔
کسی شاعر کا قول ہے (ترجمہ) کہ مجھے اس کا غلام کہہ کر ہی پکارو کیونکہ میرا سب سے اچھا نام یہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نام عبد یعنی غلام ان ہی جگہوں پر لیا جہاں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کیا جیسے قرآن نازل کرنا، نماز میں کھڑے ہونا، معراج کرانا وغیرہ،
فرمایا: «الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ» [18-الكهف:1] الخ،
فرمایا: «وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ» [72-الجن:19] الخ،
فرمایا: «سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا» [17-الإسراء:1] الخ،
ساتھ ہی قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ اے نبی جس وقت تمہارا دل مخالفین کے جھٹلانے کی وجہ سے تنگ ہو تو تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ۔ فرمان ہے: «وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ» * «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ» * «وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ» [15-الحجر:97-98-99] یعنی ”ہم جانتے ہیں کہ مخالفین کی باتیں تیرا دل دکھاتی ہیں تو ایسے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کر اور موت کے وقت تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ“۔
رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیا ہے کہ عبودیت کا مقام رسالت کے مقام سے افضل ہے کیونکہ عبادت کا تعلق مخلوق سے خالق کی طرف ہوتا اور رسالت کا تعلق حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے اور اس دلیل سے بھی کہ عبد کی کل اصلاح کے کاموں کا متولی خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہوتا ہے اور رسول اپنی امت کی مصلحتوں کا والی ہوتا ہے۔ لیکن یہ قول غلط ہے اور اس کی یہ دونوں دلیلیں بھی بودی اور لاحاصل ہیں۔ افسوس رازی نے نہ تو اس کو ضعیف کہا نہ اسے رد کیا۔ بعض صوفیوں کا قول ہے کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے یا عذاب دفع کرنے کے لیے، وہ کہتے ہیں یہ کوئی فائدے کی بات نہیں اس لیے کہ اس وقت مقصود خود اپنی مراد کا حاصل کرنا ٹھہرا۔ اس کی تکالیف کے لیے آمادگی کرنا یہ بھی ضعیف ہے۔ اعلیٰ مرتبہ عبادت یہ ہے کہ انسان اس مقدس ذات کی جو تمام کامل صفتوں سے موصوف ہے محض اس کی ذات کے لیے عبادت کرے اور مقصود کچھ نہ ہو۔ اسی لیے نمازی کی نیت نہ نماز پڑھنے کی ہوتی ہے اگر وہ ثواب پانے اور عذاب سے بچنے کے لیے ہو تو باطل ہے۔ دوسرا گروہ ان کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا کچھ اس کے خلاف نہیں کہ ثواب کی طلب اور عذاب کا بچاؤ مطلوب نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں نہ تو آپ جیسا پڑھنا جانتا ہوں نہ معاذ جیسا، میں تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے نجات چاہتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی کے قریب قریب ہم بھی پڑھتے ہیں“ ۔ [سنن ابوداود:792،قال الشيخ الألباني:صحيح]
0%