آپ 109:1 سے 109:6 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
قُلْ
یٰۤاَیُّهَا
الْكٰفِرُوْنَ
۟ۙ
لَاۤ
اَعْبُدُ
مَا
تَعْبُدُوْنَ
۟ۙ
وَلَاۤ
اَنْتُمْ
عٰبِدُوْنَ
مَاۤ
اَعْبُدُ
۟ۚ
وَلَاۤ
اَنَا
عَابِدٌ
مَّا
عَبَدْتُّمْ
۟ۙ
وَلَاۤ
اَنْتُمْ
عٰبِدُوْنَ
مَاۤ
اَعْبُدُ
۟ؕ
لَكُمْ
دِیْنُكُمْ
وَلِیَ
دِیْنِ
۟۠
3
سورہ کافرون کا تعارف:

صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو اور سورۃ اخلاص کو طواف کے بعد کی دو رکعت نماز میں تلاوت فرمایا۔ [صحيح مسلم:1218‏ ]

صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صبح کی دو سنتوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہی دونوں سورتوں کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم:726‏ ]

مسند احمد میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے فرضوں سے پہلے کی دو رکعتوں میں اور مغرب کے بعد کی دو رکعتوں میں بیس اوپر کچھ دفعہ یا دس دفعہ اوپر کچھ مرتبہ سورۃ «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» اور سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» پڑھی۔ [مسند احمد:24/2،صحيح]

(‏یعنی اتنی مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سورتیں ان نمازوں میں پڑھتے ہوئے سنا)‏۔

مسند احمد میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے چوبیس یا پچیس مرتبہ صبح کی دو سنتوں میں ان دونوں سورتوں کو پڑھتے ہوئے بخوبی دیکھا۔ [مسند احمد:95/2،صحيح‏ ]

مسند ہی کی دوسری روایت میں آپ سے مروی ہے کہ مہینہ بھر تک میں نے آپ کو ان دونوں رکعتوں میں یہ دونوں سورتیں پڑھتے ہوئے پایا۔ یہ روایت ترمذی، ابن ماجہ اور نسائی میں بھی ہے۔ [سنن ابن ماجه:1149،صحيح‏] امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن کہتے ہیں، وہ روایت پہلے بیان ہو چکی ہے کہ یہ سورت چوتھائی قرآن کے برابر ہے اور سورۃ «إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا» بھی مسند احمد میں روایت ہے۔ [سنن ترمذي:2894،قال صحيح دون فضل زلزلت] ‏ سیدنا نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ہماری ربیبہ زینب کی پرورش تم اپنے ہاں کرو، میرے خیال سے یہ سیدہ زینب تھیں۔ یہ ایک مرتبہ پھر نبي صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو بچی کیا کر رہی ہے؟ کہا میں اسے اس کی ماں کے پاس چھوڑ آیا ہوں۔ فرمایا:اچھا کیوں آئے ہو؟ عرض کیا: اس لیے کہ آپ سے کوئی وظیفہ سیکھ جاؤں جو سوتے وقت پڑھ لوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» پڑھ کر سو جایا کرو اس میں شرک سے براءت اور بیزاری ہے۔ [سنن ترمذي:3404،صحيح‏ ]

طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا۔ [طبراني اوسط:1989،صحيح بالشواهد‏ ]

طبرانی کی اور روایت میں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے بسترے پر لیٹ کر اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حارث بن جبلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے کہ میں سونے کے وقت اسے کہہ لیا کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم رات کو اپنے بستر پر جاؤ تو «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» پڑھ لیا کرو یہ شرک سے بیزاری ہے۔ «والله اعلم»

مشرک سے براۃ اور بیزاری ٭٭

اس سورۃ مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ «وحدہ لا شریک لہ» کو نہ پوجو۔

پس «مَا» یہاں پر معنی میں «من» کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہو سکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کر لیے ہیں۔

جیسے اور جگہ ہے «إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَىٰ» [53-النجم:23] ‏ الخ یعنی ”یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے“۔

پس نبی اللہ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہو گا اور طریقہ عبادت ہو گا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے۔

10892

اسی لیے کلمہ اخلاص «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ» ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اللہ کے پیغمبر ہیں اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ تمہارا دین تمہارے لیے، میرا میرے لیے۔

جیسے اور جگہ ہے «وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ» [10-یونس:41] ‏ یعنی ”اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے، تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں“۔

اور جگہ فرمایا: «لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ» [28-القصص:55] ‏ الخ یعنی ”ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ“۔

صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے تمہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دین ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں «دِينِي» تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف «نون» پر ہے اس لیے اس میں بھی «يَاءُ» کو حذف کر دیا جیسے «فَهُوَ يَهْدِينِ» [26-الشعراء:78] ‏ میں اور «يَشْفِينِ» [26-الشعراء:80] ‏ میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کر دیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے «وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا» [5-المائدة:64] ‏ الخ یعنی ”تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں“۔

ابن جریر رحمہ اللہ نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ دو مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» * «إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» [94-الشرح:5-6] ‏ میں اور جیسے «لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ» * «ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ» [102-التكاثر:6-7] ‏ پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے۔

لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہوں نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی بہت اچھا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

10893

امام ابوعبداللہ شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہو سکتا ہے جبکہ ان دونوں میں نسب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں [سنن ابوداود:2911،قال الشيخ الألباني:حسن صحيح]

امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہو سکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے سورۃ الکافرون کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالحمداللہ احسانہ»

10894

اپنے Quran.com کے تجربے کو زیادہ سے زیادہ بنائیں!
ابھی اپنا دورہ شروع کریں:

0%