آپ 28:60 سے 28:61 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَمَاۤ
اُوْتِیْتُمْ
مِّنْ
شَیْءٍ
فَمَتَاعُ
الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا
وَزِیْنَتُهَا ۚ
وَمَا
عِنْدَ
اللّٰهِ
خَیْرٌ
وَّاَبْقٰی ؕ
اَفَلَا
تَعْقِلُوْنَ
۟۠
اَفَمَنْ
وَّعَدْنٰهُ
وَعْدًا
حَسَنًا
فَهُوَ
لَاقِیْهِ
كَمَنْ
مَّتَّعْنٰهُ
مَتَاعَ
الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا
ثُمَّ
هُوَ
یَوْمَ
الْقِیٰمَةِ
مِنَ
الْمُحْضَرِیْنَ
۟
3
دنیا اور اخرت کا تقابلی جائزہ ٭٭

اللہ تعالیٰ دنیا کی حقارت اس کی رونق کی قلت و ذلت اس کی ناپائیداری بے ثباتی اور برائی بیان فرما رہا ہے اور اس کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتوں کی پائیداری دوام عظمت اور قیام کا ذکر فرما رہے ہیں۔ جیسے ارشاد ہے آیت «مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» [16-النحل:96]” تمہارے پاس جو کچھ ہے فنا ہونے والا ہے۔ اور اللہ کے پاس تمام چیزیں بقا والی ہیں “۔ «وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ» [3-آل عمران:198]” اللہ کے پاس جو ہے وہ نیک لوگوں کے لیے بہت ہی بہتر اور عمدہ ہے “۔ «وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ» [13-الرعد:26]” آخرت کے مقابلہ میں دنیا تو کچھ بھی نہیں “۔ «بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ» [87-الأعلى:16،17]” لیکن افسوس کہ لوگ دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور آخرت سے غافل ہو رہے ہیں جو بہت بہتر اور بہت باقی رہنے والی ہے “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں انگلی ڈبو کر نکال لے پھر دیکھ لے کہ اس کی انگلی پر جو پانی چڑھا ہوا ہے وہ سمندر کے مقابلہ میں کتنا کچھ ہے ۔ [صحیح مسلم:2858] ‏ افسوس کہ اس پر بھی اکثر لوگ اپنی کم علمی اور بےعلمی کے باعث دنیا کے متوالے ہو رہے ہیں۔

صفحہ نمبر6616

خیال کر لو ایک تو وہ جو اللہ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان و یقین رکھتا ہو اور ایک وہ جو ایمان نہ لایا ہو نتیجے کے اعتبار سے برابر ہو سکتے ہیں؟ ایمان والوں کے ساتھ تو اللہ کا جنت کا اور اپنی بےشمار ان مٹ غیر فانی نعمتوں کا وعدہ ہے اور کافر کے ساتھ وہاں کے عذابوں کا ڈراوا ہے گو دنیا میں کچھ روز عیش ہی منالے۔

مروی ہے کہ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ایک قول یہ بھی ہے کہ سیدنا حمزہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہم اور ابوجہل کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے جیسے فرمان اللہ ہے کہ جنتی مومن اپنے جنت کے درجوں سے جھانک کر جہنمی کافر کو جہنم کے جیل خانہ میں دیکھ کر کہے گا «وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ» [37-الصافات:57]” اگر مجھ پر میرے رب کا انعام نہ ہوتا تو میں بھی ان عذابوں میں پھنس جاتا “۔ اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ» [37-الصافات:158]” جنات کو یقین ہے کہ وہ حاضر کیے جانے والوں میں سے ہیں “۔

صفحہ نمبر6617

اپنے Quran.com کے تجربے کو زیادہ سے زیادہ بنائیں!
ابھی اپنا دورہ شروع کریں:

0%