سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی عضباء کی نکیل تھامے ہوئی تھی جب آپ پر سورہ مائدہ پوری نازل ہوئی۔ قریب تھا کہ اس بوجھ سے اونٹنی کے بازو ٹوٹ جائیں۔ [مسند احمد:455/6:حسن لغیره]
اور روایت میں ہے کہ اس وقت آپ سفر میں تھے، وحی کے بوجھ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا اونٹنی کی گردن ٹوٹ گئی۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی:45/7:ضعیف] [ابن مردویہ]
اور روایت میں ہے کہ جب اونٹنی کی طاقت سے زیادہ بوجھ ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سے اتر گئے۔ [مسند احمد:176/2:ضعیف]
ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ سب سے آخری سورت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری وہ سورۃ النصر «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ» [110-النصر:1] ہے۔ [سنن ترمذي:3063،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
مستدرک حاکم میں ہے جبیر بن نفیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، میں حج کے لئے گیا وہاں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا تم سورہ مائدہ پڑھا کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا سنو سب سے آخری یہی سورت نازل ہوئی ہے اس میں جس چیز کو حلال پاؤ، حلال ہی سمجھو اور اس میں جس چیز کو حرام پاؤ حرام ہی جانو۔ [نسائی فی الکبری:11138،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پھر میں نے اماں محترمہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی نسبت سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کا عملی نمونہ تھے۔ [مسند احمد:188/6:صحیح] یہ روایت نسائی شریف میں بھی ہے۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا! آپ رضی اللہ عنہ مجھے خاص نصیحت کیجئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”جب تو قرآن میں لفظ آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا» سن لے تو فوراً کان لگا کر دل سے متوجہ ہو جا، کیونکہ اس کے بعد کسی نہ کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی نہ کسی برائی سے ممانعت ہو گی۔“ [تفسیر ابن ابی حاتم:196/1:ضعیف و منقطع]
زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے اس حکم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں۔“
خیثمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں بجائے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا» کے «يَا أَيّهَا الْمَسَاكِين» ہے۔
ایک روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے بیان کی جاتی ہے کہ ”جہاں کہیں لفظ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا» ہے، ان تمام مواقع پر ان سب ایمان والوں کے سردار و شریف اور امیر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے بجز سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے کہ انہیں کسی امر میں نہیں ڈانٹا گیا“، یاد رہے کہ یہ اثر بالکل بے دلیل ہے۔ اس کے الفاظ منکر ہیں اور اس کی سند بھی صحیح نہیں۔
حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے، اس کی روایت منکر ہے۔ میں کہتا ہوں اسی طرح اس کا دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے مگر اعلیٰ درجہ کا شیعہ ہے۔ پھر بھلا اس کی ایسی روایت جو اس کے اپنے خاص خیالات کی تائید میں ہو، کیسے قبول کی جا سکے گی؟ یقیناً وہ اس میں ناقابل قبول ٹھہرے گا۔
اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو بجز سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ڈانٹا گیا، اس سے مراد ان کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ نکالنے کا حکم دیا تھا، پس ایک سے زیادہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس پر عمل صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی نے کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ آیت «ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ» [58-المجادلہ:13] ، لیکن یہ غلط ہے کہ اس آیت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو ڈانٹا گیا، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے تھا ہی نہیں، اختیاری امر تھا۔ پھر اس پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کر دیا۔
پس حقیقتاً کسی سے اس کے خلاف عمل سرزد ہی نہیں ہوا۔ پھر یہ بات بھی غلط ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کسی بات میں ڈانٹا نہیں گیا۔ سورۃ الأنفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو ڈانٹا گیا ہے۔ جنہوں نے بدری قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا، دراصل سوائے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا کے باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے باقی سب کو ہے، جن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ابن جریر میں محمد بن سلمہ فرماتے ہیں جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو لکھوا کر دی تھی جبکہ انہیں نجران بھیجا تھا، اس کتاب کو میں نے ابوبکر بن حزم کے پاس دیکھا تھا اور اسے پڑھا تھا، اس میں اللہ اور رسول کے بہت سے احکام تھے، اس میں آیت «يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ» [5۔ المائدہ:1] سے آیت «يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۡ فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ» [5۔ المائدہ:4] تک بھی لکھا ہوا تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:10918]
ابن ابی حاتم میں ہے کہ عمرو بن حزم کے پوتے ابوبکر بن محمد نے فرمایا ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کتاب ہے جسے آپ نے عمرو بن حزم کو لکھ کر دی تھی جبکہ انہیں یمن والوں کو دینی سمجھ اور حدیث سکھانے کے لیے اور ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے یمن بھیجا تھا، اس وقت یہ کتاب لکھ کر دی تھی، اس میں عہد و پیمان اور حکم احکام کا بیان یہ اس میں آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» کے بعد لکھا ہے یہ کتاب ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے، ایمان والو وعدوں کو اور عہد و پیمان کو پورا کرو، یہ عہد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرو بن حزم کے لیے ہے جبکہ انہیں یمن بھیجا انہیں اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے رہیں اور جو احسان خلوص اور نیکی کریں۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی413/5:حسن]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں ”عقود سے مراد عہد ہیں۔“ ابن جریر اس پر اجماع بتاتے ہیں۔ خواہ قسمیہ عہد و پیمان ہو یا اور وعدے ہوں، سب کو پورا کرنا فرض ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ”عہد کو پورا کرنے میں اللہ کے حلال کو حلال جاننا، اس کے حرام کو حرام جاننا، اس کے فرائض کی پابندی کرنا، اس کی حد بندی کی نگہداشت کرنا بھی ہے، کسی بات کا خلاف نہ کرو، حد کو نہ توڑو، کسی حرام کام کو نہ کرو، اس پر سختی بہت ہے پڑھو آیت «وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ اُولٰىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْءُ الدَّارِ» [13-الرعد:25] تک۔“
ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اس سے مراد یہ کہ اللہ کے حلال کو، اس کے حرام کو، اس کے وعدوں کو، جو ایمان کے بعد ہر مومن کے ذمہ آجاتے ہیں پورا کرنا اللہ کی طرف سے فرض ہے، فرائض کی پابندی، حلال حرام کی عقیدت مندی وغیرہ وغیرہ۔“
حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ چھ عہد ہیں، اللہ کا عہد، آپس کی یگانگت کا قسمیہ عہد، شرکت کا عہد، تجارت کا عہد، نکاح کا عہد اور قسمیہ وعدہ۔“
محمد بن کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں ”پانچ ہیں، جن میں جاہلیت کے زمانہ کی قسمیں ہیں اور شرکت تجارت کے عہد و پیمان ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ خرید و فروخت پوری ہو چکنے کے بعد گو اب تک خریدا اور بیچنے والے ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں تاہم واپس لوٹانے کا اختیار نہیں وہ اپنی دلیل اس آیت کو بتلاتے ہیں۔“ امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ علیہم کا یہی مذہب ہے۔
لیکن امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم اس کے خلاف ہیں اور جمہور علماء کرام بھی اس کے مخالف ہیں، اور دلیل میں وہ صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جو صحیح بخاری مسلم میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرید و فروخت کرنے والوں کو سودے کے واپس لینے دینے کا اختیار ہے جب تک کہ جدا جدا نہ ہو جائیں ۔ [صحیح بخاری:2109]
صحیح بخاری شریف کی ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ جب وہ شخصوں نے خرید و فروخت کرلی تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے علیحدہ ہونے تک اختیار باقی ہے ۔ [صحیح بخاری:2111]
یہ حدیث صاف اور صریح ہے کہ یہ اختیار خرید و فروخت پورے ہوچکنے کے بعد کا ہے۔ ہاں اسے بیع کے لازم ہو جانے کے خلاف نہ سمجھا جائے بلکہ یہ شرعی طور پر اسی کا مقتضی ہے، پس اسے نبھانا بھی اسی آیت کے ماتحت ضروری ہے۔ پھر فرماتا ہے ” مویشی چوپائے تمہارے لیے حلال کئے گئے ہیں “ یعنی اونٹ، گائے، بکری۔ ابوالحسن، قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”عرب میں ان کے لغت کے مطابق بھی یہی ہے۔“ سیدنا ابن عمر، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ بہت سے بزرگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ”جس حلال مادہ کو ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلے گو وہ مردہ ہو پھر بھی حلال ہے۔“
ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اونٹنی، گائے، بکری ذبح کی جاتی ہے، ان کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے تو ہم اسے کھا لیں یا پھینک دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو کھا لو، اس کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذیبحہ ہے ۔ [سنن ابوداود:2827،قال الشيخ الألباني:صحیح] امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں۔
ابوداؤد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پیٹ کے اندر والے بچے کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے ۔ [سنن ابوداود:2828،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرماتا ہے ” مگر وہ جن کا بیان تمہارے سامنے کیا جائے گا “۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اس سے مطلب مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ہے۔“ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”مراد اس سے از خود مرا ہوا جانور اور وہ جانور ہوئے جس کے ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔“
پورا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد اللہ کا فرمان آیت «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَ كَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ» [5-المائدہ:3] ہے یعنی تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر منسوب و مشہور کی جائے اور جو گلا گھونٹنے سے مر جائے، کسی ضرب سے مر جائے، اونچی جگہ سے گر کر مر جائے اور کسی ٹکر لگنے سے مر جائے، جسے درندہ کھانے لگے پس یہ بھی گو مویشیوں چوپایوں میں سے ہیں لیکن ان وجوہ سے وہ حرام ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے اس کے بعد فرمایا ” لیکن جس کو ذبح کر ڈالو “۔
جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جائے، وہ بھی حرام ہے اور ایسا حرام کہ اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں، اسی لیے اس سے استدراک نہیں کیا گیا اور حلال کے ساتھ اس کا کوئی فرد ملایا نہیں گیا۔ پس یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ ” چوپائے مویشی تم پر حلال ہیں لیکن وہ جن کا ذکر ابھی آئے گا “۔
بعض احوال میں حرام ہیں، اس کے بعد کا جملہ حالیت کی بناء پر منصوب ہے۔ مراد انعام سے عام ہے بعض تو وہ جو انسانوں میں رہتے پلتے ہیں، جیسے اونٹ، گائے، بکری اور بعض وہ جو جنگلی ہیں جیسے ہرن، نیل گائے اور جنگلی گدھے، پس پالتو جانوروں میں سے تو ان کو مخصوص کرلیا جو بیان ہوئے اور وحشی جانوروں میں سے احرام کی حالت میں کسی کو بھی شکار کرنا ممنوع قرار دیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے ” ہم نے تمہارے لیے چوپائے جانور ہر حال میں حلال کئے ہیں پس تم احرام کی حالت میں شکار کھیلنے سے رک جاؤ اور اسے حرام جانو “۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے جس طرح اس کے تمام احکام سراسر حکمت سے پر ہیں، اسی طرح اس کی ہر ممانعت میں بھی حکمت ہے، اللہ وہ حکم فرماتا ہے جو ارادہ کرتا ہے۔
” ایماندارو! رب کی نشانیوں کی توہین نہ کرو “، یعنی مناسک حج، صفا، مروہ، قربانی کے جانور، اونٹ اور اللہ کی حرام کردہ ہر چیز، حرمت والے مہینوں سمیت کسی کی توہین نہ کرو، ان کا ادب کرو، ان کا لحاظ رکھو، ان کی عظمت کو مانو اور ان میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی نافرمانیوں سے بچو اور ان مبارک اور محترم مہینوں میں اپنے دشمنوں سے از خود لڑائی نہ چھیڑو۔
جیسے ارشاد ہے آیت «يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ۭ» [2-البقرۃ:217] ” اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لوگ تم سے حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کا حکم پوچھتے ہیں تم ان سے کہو کہ ان میں لڑائی کرنا گناہ ہے “۔
اور آیت میں ہے «إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّـهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا» [9-التوبة:36] ” مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے “۔
صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الودع میں فرمایا: زمانہ گھوم گھام کر ٹھیک اسی طرز پر آگیا ہے جس پر وہ اس وقت تھا، جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں۔ تین تو یکے بعد دیگرے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب، جسے قبیلہ مضر رجب کہتا ہے جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان ہے ۔ [صحیح بخاری:3197] اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان مہینوں کی حرمت تاقیامت ہے جیسے کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے۔
آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ ان ”مہینوں میں لڑائی کرنا حلال نہ کر لیا کرو۔“ لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے اور حرمت والے مہینوں میں بھی دشمنان اسلام سے جہاد کی ابتداء کرنا بھی جائز ہے۔
ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے آیت «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ» [9-التوبة:5] یعنی ” جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ “ اور مراد یہاں ان چار مہینوں کا گزر جانا ہے، جب وہ چار مہینے گزر چکے جو اس وقت تھے، تو اب ان کے بعد برابر جہاد جاری ہے اور قرآن نے پھر کوئی مہینہ خاص نہیں کیا، بلکہ امام ابو جعفر رحمہ اللہ تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے جہاد کرنا، ہر وقت اور ہر مہینے میں جاری ہی رکھا ہے۔“
آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر کوئی کافر حرم کے تمام درختوں کی چھال اپنے اوپر لپیٹ لے تب بھی اس کے لیے امن و امان نہ سمجھی جائے گی۔ اگر مسلمانوں نے از خود اس سے پہلے اسے امن نہ دیا ہو۔“ اس مسئلہ کی پوری بحث یہاں نہیں ہو سکتی۔
پھر فرمایا کہ ” «ھَدْی» اور «قَلاَئِد» کی بے حرمتی بھی مت کرو “۔ یعنی بیت اللہ شریف کی طرف قربانیاں بھیجنا بند نہ کرو، کیونکہ اس میں اللہ کی نشانوں کی تعظیم ہے اور قربانی کے لیے جو اونٹ بیت الحرام کی طرف بھیجو، ان کے گلے میں بطور نشان پٹا ڈالنے سے بھی نہ رکو۔ تاکہ اس نشان سے ہر کوئی پہچان لے کہ یہ جانور اللہ کے لیے اللہ کی راہ کے لیے وقف ہو چکا ہے اب اسے کوئی برائی سے ہاتھ نہ لگائے گا بلکہ اسے دیکھ کر دوسروں کو بھی شوق پیدا ہوگا کہ ہم بھی اس طرح اللہ کے نام جانور بھیجیں اور اس صورت میں تمہیں اس کی نیکی پر بھی اجر ملے گا کیونکہ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلائے اسے بھی وہ اجر ملے گا، جو اس کی بات مان کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے۔ یہ بھی خیال رہے اللہ تعالیٰ ان کے اجر کو کم کر کے اسے نہیں دے گا بلکہ اسے اپنے پاس سے عطا فرمائے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی عقیق یعنی ذوالحلیفہ میں رات گزاری، صبح اپنی نو بیویوں کے پاس گئے، پھر غسل کر کے خوشبو ملی اور دو رکعت نماز ادا کی اور اپنی قربانی کے جانور کے کوہان پر نشان کیا اور گلے میں پٹہ ڈالا اور حج اور عمرے کا احرام باندھا۔ قربانی کے لیے آپ نے بہت خوش رنگ مضبوط اور نوجوان اونٹ ساٹھ سے اوپر اوپر اپنے ساتھ لیے تھے، جیسے کہ قرآن کا فرمان ہے ” جو شخص اللہ کے احکام کی تعظیم کرے اس کا دل تقوے والا ہے “۔
بعض سلف کا فرمان ہے کہ ”تعظیم یہ بھی ہے کہ قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح رکھا جائے اور انہیں خوب کھلایا جائے اور مضبوط اور موٹا کیا جائے۔“
سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھیں اور کان دیکھ بھال کر خریدیں۔“ [سنن ابوداود:2804،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”جاہلیت کے زمانے میں جب یہ لوگ اپنے وطن سے نکلتے تھے اور حرمت والے مہینے نہیں ہوتے تھے تو یہ اپنے اوپر بالوں اور اون کو لپیٹ لیتے تھے اور حرم میں رہنے والے مشرک لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں اپنے جسم پر باندھ لیتے تھے، اس سے عام لوگ انہیں امن دیتے تھے اور ان کو مارتے پیٹتے نہ تھے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بروایت مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اس سورت کی دو آیتیں منسوخ ہیں «وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ» اور یہ آیت «فَاِنْ جَاءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا» [5-المائدہ:42] لیکن حسن رحمة الله سے جب سوال ہوتا ہے کہ ”کیا اس سورت میں سے کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے؟“ تو آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”نہیں۔“
عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”وہ لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں لٹکا لیا کرتے تھے اور اس سے انہیں امن ملتا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے حرم کے درختوں کو کاٹنا منع فرما دیا۔“
پھر فرماتا ہے ” جو لوگ بیت اللہ کے ارادے سے نکلے ہوں، ان سے لڑائی مت لڑو “۔ یہاں جو آئے وہ امن میں پہنچ گیا، پس جو اس کے قصد سے چلا ہے اس کی نیت اللہ کے فضل کی تلاش اور اس کی رضا مندی کی جستجو ہے تو اب اسے ڈر خوف کے دباؤ میں نہ رکھو، اس کی عزت اور ادب کرو اور اسے بیت اللہ سے نہ روکو۔
بعض کا قول ہے کہ ”اللہ کا فضل تلاش کرنے سے مراد تجارت ہے۔“ جیسے اس آیت میں ہے «لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ» [2-البقرۃ:198] یعنی ” زمانہ حج میں تجارت کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں “۔
«رِضْوَانْ» سے مراد حج کرنے میں اللہ کی مرضی کو تلاش کرنا ہے۔ ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ”یہ آیت خطیم بن ہند بکری کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس شخص نے مدینہ کی چراگاہ پر دھاوا ڈالا تھا پھر اگلے سال یہ عمرے کے ارادے سے آ رہا تھا تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کا ارادہ ہوا کہ اسے راستے میں روکیں، اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔“ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے کہ ”جو مشرک مسلمانوں کی امان لیے ہوئے نہ ہو تو چاہے وہ بیت اللہ شریف کے ارادے سے جا رہا ہو یا بیت المقدس کے ارادے سے، اسے قتل کرنا جائز ہے یہ حکم ان کے حق میں منسوخ ہے۔“ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
وہاں جو شخص وہاں الحاد پھیلانے کیلئے جا رہا ہے اور شرک و کفر کے ارادے کا قصد کرتا ہو تو اسے روکا جائے گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”پہلے مومن و مشرک سب حج کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ممانعت تھی کہ کسی مومن کافر کو نہ روکو لیکن اس کے بعد یہ آیت اتری کہ «يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖٓ اِنْ شَاءَ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ» [9-التوبة:28] یعنی ” مشرکین سراسر نجس ہیں اور وہ اس سال کے بعد مسجد الحرام کے پاس بھی نہ آئیں گے “۔
اور فرمان ہے «مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّـهِ» [9-التوبة:17] یعنی ” مشرکین اللہ کی مسجد کو آباد رکھنے کے ہرگز اہل نہیں “۔ فرمان ہے آیت «إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ فَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ» [9-التوبة:18] یعنی ” اللہ کی مسجد کو تو صرف وہی آباد رکھ سکتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں “۔ پس مشرکین مسجدوں سے روک دیئے گئے۔“
قتادہ رحمة الله فرماتے ہیں آیت «وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ» الخ، منسوخ ہے، جاہلیت کے زمانہ میں جب کوئی شخص اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلتا تو وہ درخت کی چھال وغیرہ باندھ لیتا تو راستے میں اسے کوئی نہ ستاتا، پھر لوٹتے وقت بالوں کا ہار ڈال لیتا اور محفوظ رہتا اس وقت تک مشرکین بیت اللہ سے روکے نہ جاتے تھے، اب مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حرمت والے مہینوں میں نہ لڑیں اور نہ بیت اللہ کے پاس لڑیں، پھر اس حکم کو اس آیت نے منسوخ کر دیا کہ «فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ» [9-التوبة:5] ” مشرکین سے لڑو جہاں کہیں انہیں پاؤ “۔
ابن جریر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” «قَلَائِدَ» سے مراد یہی ہے جو ہار وہ حرم سے گلے میں ڈال لیتے تھے اور اس کی وجہ سے امن میں رہتے تھے، عرب میں اس کی تعظیم برابر چلی آ رہی تھی اور جو اس کے خلاف کرتا تھا اسے بہت برا کہا جاتا تھا اور شاعر اس کو ہجو کرتے تھے۔“
پھر فرماتا ہے ” جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کر سکتے ہو “۔ احرام میں شکار کی ممانعت تھی، اب احرام کے بعد پھر اس کی اباحت ہوگئی جو حکم ممانعت کے بعد ہو اس حکم سے وہی ثابت ہوتا ہے جو ممانعت سے پہلے اصل میں تھا۔ یعنی اگر وجوب اصلی تھا تو ممانعت کے بعد کا امر بھی وجوب کیلئے ہوگا، اور اسی طرح مستحب و مباح کے بارے میں۔
گو بعض نے کہا ہے کہ ایسا امر وجوب کیلئے ہی ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے، صرف مباح ہونے کیلئے ہی ہوتا ہے لیکن دونوں جماعتوں کے خلاف قرآن کی آیتیں موجود ہیں۔ پس صحیح مذہب جس سے تمام دلیلیں مل جائیں وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا اور بعض علماء اصول نے بھی اسے ہی اختیار کیا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر فرماتا ہے ” جس قوم نے تمہیں حدیبیہ والے سال مسجد الحرام سے روکا تھا تو تم ان سے دشمنی باندھ کر قصاص پر آمادہ ہو کر اللہ کے حکم سے آگے بڑھ کر ظلم و زیادتی پر نہ اتر آنا، بلکہ تمہیں کسی وقت بھی عدل کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیئے “۔ اسی طرح کی وہ آیت بھی ہے جس میں فرمایا ہے «وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى» [5-المائدة:8] ” تمہیں کسی قسم کی عداوت خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیا کرو، عدل ہی تقوے سے زیادہ قریب ہے “۔
بعض سلف کا قول ہے کہ ”گو کوئی تجھ سے تیرے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرے لیکن تجھے چاہیئے کہ تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمانبرداری ہی کرے، عدل ہی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو جبکہ مشرکین نے بیت اللہ کی زیارت سے روکا اور حدیبیہ سے آگے بڑھنے ہی نہ دیا، اسی رنج و غم میں صحابہ رضی اللہ عنہم واپس آ رہے تھے جو مشرقی مشرک مکہ جاتے ہوئے انہیں ملے تو ان کا ارادہ ہوا کہ جیسے ان کے گروہوں نے ہمیں روکا ہم بھی انہیں ان تک نہ جانے دیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:478/9:ضعیف و مرسل] اس پر یہ آیت اتری «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا» [5-المائدة:8] ۔
«شَنَآنُ» کے معنی بغض کے ہیں بعض عرب اسے «شَنَانْ» بھی کہتے ہیں لیکن کسی قاری کی یہ قرأت مروی نہیں، ہاں عربی شعروں میں «شَنَانْ» بھی آیا ہے۔ جیسے کہ شاعر کہتا ہے ؎ «ومَا الْعَيْشُ إِلَّا مَا تُحِبُّ وَتَشْتَهِي» «وَإِنْ لَامَ فِيهِ ذُو الشَّنَّانِ وفَنَّدَا»
پھر اللہ تعالیٰ اپنے ایمان والے بندوں کو نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے کی تائید کرنے کو فرماتا ہے، «بِرِّ» کہتے ہیں نیکیاں کرنے کو اور «تَّقْوَىٰ» کہتے ہیں برائیوں کے چھوڑنے کو اور انہیں منع فرماتا ہے گناہوں اور حرام کاموں پر کسی کی مدد کرنے کو۔
ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”جس کام کے کرنے کا اللہ کا حکم ہو اور انسان اسے نہ کرے، یہ «إِثْمِ» ہے اور دین میں جو حدیں اللہ نے مقرر کر دی ہیں جو فرائض اپنی جان یا دوسروں کے بارے میں جناب باری نے مقرر فرمائے ہیں، ان سے آگے نکل جانا «عُدْوَانَ» ہے۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مظلوم ہونے کی صورت میں مدد کرنا ٹھیک ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مدد کریں؟“ فرمایا: اسے ظلم نہ کرنے دو، ظلم سے روک لو، یہی اس وقت کی اس کی مدد ہے ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے [صحیح بخاری:6952]
مسند احمد میں ہے جو مسلمان لوگوں سے ملے جلے اور دین کے حوالے سے ان کی ایذاؤں پر صبر کرے وہ ان مسلمانوں سے بڑے اجر والا ہے، جو نہ لوگوں سے ملے جلے، نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے ۔ [سنن ترمذي:2507،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند بزار میں ہے «الدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَا عِلِهِ» ”جو شخص کسی بھلی بات کی دوسرے کو ہدایت کرے وہ اس بھلائی کے کرنے والے جیسا ہی ہے“ ۔ [سنن ترمذي:2670،قال الشيخ الألباني:حسن]
امام ابوبکر بزار رحمہ اللہ اسے بیان فرما کر فرماتے ہیں کہ ”یہ حدیث صرف اسی ایک سند سے مروی ہے۔“ لیکن میں کہتا ہوں اس کی شاہد یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو بلائے، اسے ان تمام کے بابر ثواب ملے گا جو قیامت تک آئیں گے اور اس کی تابعداری کریں گے۔ لیکن ان کے ثواب میں سے گھٹا کر نہیں اور جو شخص کسی کو برائی کی طرف چلائے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برائی کو کریں گے۔ ان سب کا جتنا گناہ ہو گا، وہ سارا اس اکیلے کو ہو گا۔ لیکن ان کے گناہ گھٹا کر نہیں ۔ [صحیح مسلم:2674]
طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص کسی ظالم کے ساتھ جائے تاکہ اس کی اعانت و امداد کرے اور وہ جانتا ہو کہ یہ ظالم ہے وہ یقیناً دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ [سلسلة احادیث ضعیفہ البانی:5367،ضعیف جدا]
0%