مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اپنے رب کے اوصاف بیان کریں اس پر یہ سورت نازل ہوئی، «صمد» کے معنی ہیں جو نہ تو پیدا ہوا ہو، نہ اس کی اولاد ہو، اس لئے کہ جو پیدا ہوا ہے وہ ایک وقت مرے گا بھی اور دوسرے اس کے وارث ہوں گے، اللہ عزوجل نہ مرے، نہ اس کا کوئی وارث ہو اس جیسا اور اس کی جنس کا کوئی نہیں، نہ اس کے مثل کوئی چیز ہے۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے۔ [سنن ترمذي:3364،قال الشيخ الألباني:حسن دون الجملة:والصمد الذي ]
ابویعلی موصلی میں بھی ہے کہ ایک اعرابی نے یہ سوال کیا تھا، [مسند ابو يعلي:2044:قال الشيخ زبير علي زئي:ضعيف ]
اور روایت میں ہے کہ مشرکین کے اس سوال کے جواب میں یہ سورت اتری، [ابو الشيخ في العظمة:91:حسن بالشواهد ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”ہر چیز کی نسبت ہے اور اللہ کی نسبت یہ سورت ہے۔“ [طبراني اوسط:736:ضعيف ]
«صمد» اسے کہتے ہیں جو کھوکھلا نہ ہو، بخاری شریف کتاب التوحید میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر کہیں بھیجا جس وقت وہ پلٹے تو انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر جسے سردار بنایا تھا وہ ہر نماز کی قرأت کے خاتمہ پر سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» الخ، پڑھا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے“، پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ یہ سورت رحمان کی صفت ہے مجھے اس کا پڑھنا بہت ہی پسند ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں خبر دو کہ اللہ بھی اس سے محبت رکھتا ہے۔“ [صحيح بخاري:7375 ]
بخاری شریف کتاب الصلوۃ میں ہے کہ ایک انصاری مسجد قبا کے امام تھے ان کی عادت تھی کہ الحمد ختم کر کے پھر اس سورت کو پڑھتے پھر جونسی سورت پڑھنی ہوتی یا جہاں سے چاہتے قرآن پڑھتے، ایک دن مقتدیوں نے کہا کہ آپ اس سورت کو پڑھتے ہیں پھر دوسری سورت ملاتے ہیں یا تو آپ صرف اسی کو پڑھئیے یا چھوڑ دیجئے دوسری سورت ہی پڑھا کیجئے، انہوں نے جواب دیا کہ میں تو جس طرح کرتا ہوں کرتا رہوں گا، تم چاہو تو مجھے امام رکھو، کہو تو میں تمہاری امامت چھوڑ دوں، اب انہیں یہ بات بھاری پڑی، جانتے تھے کہ ان سب میں یہ زیادہ افضل ہیں ان کی موجودگی میں دوسرے کا نماز پڑھانا بھی انہیں گوارا نہ ہو سکا، ایک دن جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو ان لوگوں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام صاحب سے کہا: ”تم کیوں اپنے ساتھیوں کی بات نہیں مانتے اور ہر رکعت میں اس سورت کو کیوں پڑھتے ہو؟“ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! مجھے اس سورت سے بڑی محبت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی محبت نے تجھے جنت میں پہنچا دیا۔“ [صحيح بخاري:774 ]
ترمذی اور مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ سے کہا: میں اس سورت سے بہت محبت رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی محبت نے تجھے جنت میں پہنچا دیا۔“ [سنن ترمذي:2901،قال الشيخ الألباني:حسن صحيح ]
ایک شخص نے کسی کو اس سورت کو پڑھتے ہوئے رات کے وقت سنا کہ وہ بار بار اسی کو دوہرا رہا ہے۔ صبح کے وقت آ کر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گویا کہ وہ اسے ہلکے ثواب کا کام جانتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ سورت مثل تہائی قرآن کے ہے۔“ [صحيح بخاري:5013]
صحیح بخاری کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کیا تم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک رات میں ایک تہائی قرآن پڑھ لو، تو یہ صحابہ بھاری پڑا اور کہنے لگے، بھلا اتنی طاقت تو ہر ایک میں نہیں، آپ نے فرمایا: ”سنو سورۃ «قل ھو الله» تہائی قرآن ہے۔ [صحیح بخاری:5015]
مسند احمد میں ہے کہ سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ساری رات اسی سورت کو پڑھتے رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ذکر کیا گیا تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا کہ یہ آدھے قرآن یا تہائی قرآن کے برابر ہے۔ [مسند احمد:15/3:ضعیف]
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کو اس کی طاقت ہے کہ وہ ہر رات تیسرا حصہ قرآن کا پڑھ لیا کرے، صحابہ کہنے لگے یہ کس سے ہو سکے گا؟ آپ نے فرمایا: سنو «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» الخ، تہائی قرآن کے برابر ہے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آ گئے آپ نے سن لیا اور فرمایا: ”ابوایوب سچ کہتے ہیں۔“ [مسند احمد:173/2:ضعیف]
ترمذی میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: ”جمع ہو جاؤ میں تمہیں آج تہائی قرآن سناؤں گا“، لوگ جمع ہو کر بیٹھ گئے۔ آپ گھر سے آئے سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» الخ، پڑھی اور پھر گھر چلے گئے اب صحابہ میں باتیں ہونے لگیں کہ وعدہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ تہائی قرآن سنائیں گے شاید آسمان سے کوئی وحی آ گئی ہو۔ اتنے میں آپ پھر واپس آئے اور فرمایا: ”میں نے تم سے تہائی قرآن سنانے کا وعدہ کیا تھا، سنو یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے۔“ [صحیح مسلم:812]
سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس سے عاجز ہو کہ ہر دن تہائی قرآن شریف پڑھ لیا کرو“، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ہم اس سے بہت عاجز اور بہت ضعیف ہیں، آپ نے فرمایا: ”سنو! اللہ تعالیٰ نے قرآن کے تین حصے کئے ہیں «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» الخ، تیسرا حصہ ہے [صحیح مسلم:811]
ایسی ہی روایتیں صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت سے مروی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ کہیں سے آ رہے تھے آپ کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تھے تو آپ نے ایک شخص کو اس سورت کی تلاوت کرتے ہوئے سن کر فرمایا: ”واجب ہو گئی“، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا واجب ہو گئی؟ فرمایا: ”“ جنت۔“ [سنن ترمذي:2897،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابویعلی کی ایک ضعیف حدیث میں ہے کیا تم میں سے کوئی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» الخ کو رات میں تین مرتبہ لے؟ یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے۔ [مسند ابو یعلی:4118:اسنادہ ضعیف]
مسند احمد میں ہے سیدنا عبداللہ بن حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پیاسے تھے رات اندھیری تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار تھا کہ آپ تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ آپ آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے پڑھ۔ میں چپکا رہا، آپ نے پھر فرمایا پڑھ۔ میں نے کہا کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا ہر صبح شام تین تین مرتبہ سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ»، «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» پڑھ لیا کہ یہ کافی ہو جائے گا۔ [سنن ابوداود:5082،قال الشيخ الألباني:حسن]
نسائی کی ایک روایت میں ہے ہر چیز سے تجھے یہ کفایت کرے گی۔ مسند کی ایک اور ضعیف حدیث میں ہے جس نے ان کلمات کو دس مرتبہ پڑھ لیا اسے چالیس لاکھ نیکیاں ملتی ہیں وہ کلمات یہ ہیں «لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَاحِدًا أَحَدًا صَمَدًا لَمْ يَتَّخِذ صَاحِبَة وَلَا وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَد» ان کے راوی خلیل بن مرہ ہیں جنہیں امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ بہت ضعیف بتلاتے ہیں۔ [مسند احمد:103/4:ضعیف]
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”جو شخص اس پوری سورت کو دس مرتبہ پڑھ لے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل تعمیر کرے گا۔“ سیدنا عمر نے کہا: یا رسول اللہ ! پھر تو ہم بہت سے محل بنوا لیں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ اس سے بھی زیادہ اور اس سے بھی اچھے دینے والا ہے۔“ [مسند احمد:437/3:قال الشيخ الألباني:ضعیف]
دارمی میں ہے کہ دس مرتبہ پر ایک محل، بیس پر دو، تیس پر تین، یہ حدیث مرسل ہے۔ [سنن دارمي:459/2:ضعیف]
ابویعلی موصلی کی ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ جو شخص اس سورت کو پچاس مرتبہ پڑھ لے اس کے پچاس سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ [سنن دارمي:461/2:ضعیف]
اسی کی ایک اور ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جو شخص اس سورت کو ایک دن میں دو سو مرتبہ پڑھ لے اس کے لئے ایک ہزار پانچ سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں بشرطیکہ اس پر قرض نہ ہو۔ [مسند ابو یعلی:3365:ضعیف]
ترمذی کی اس حدیث میں ہے کہ اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں مگر یہ کہ اس پر قرض ہو۔ [سنن ترمذي:2898،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے جو شخص سونے کے لئے اپنے بستر پر جائے پھر داہنی کروٹ لیٹ کر سو دفعہ اس سورت کو پڑھ لے تو قیامت کے دن رب عزوجل فرمائے گا۔ اے میرے بندے اپنی داہنی طرف سے جنت میں چلا جا۔ [ضعیف ترمذي:552:ضعیف]
بزار کی ایک ضعیف سند والی حدیث میں ہے جو شخص اس سورت کو دو سو مرتبہ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے دو سو سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ [مسند بزار:84/3:ضعیف]
نسائی شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آئے تو دیکھا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے دعا مانگ رہا ہے اپنی دعا میں کہتا ہے «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلك بِأَنِّي أَشْهَد أَنْ لَا إِلَه إِلَّا أَنْتَ الْأَحَد الصَّمَد الَّذِي لَمْ يَلِد وَلَمْ يُولَد وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَد» یعنی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بات کی گواہی دے کر کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے بےنیاز ہے نہ اس کے ماں باپ نہ اولاد نہ ہمسر اور ساتھی کوئی اور۔ آپ یہ سن کر فرمانے لگے ”اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی ہے اللہ کے اس بڑے نام کے ساتھ کہ جب کبھی اس نام کے ساتھ سوال کیا جائے تو عطا ہو اور جب کبھی اس نام کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہو۔“ [سنن ابوداود:1493،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابویعلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”تین کام ہیں جو انہیں ایمان کے ساتھ کر لے وہ جنت کے تمام دروازوں میں سے جس سے چاہے جنت میں چلا جائے اور جس کسی حور جنت سے چاہے نکاح کرا دیا جائے۔ جو اپنے قاتل کو معاف کر دے اور پوشیدہ قرض ادا کر دے اور ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» الخ، کو پڑھ لے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! جو ان تینوں کاموں میں سے ایک کر لے، آپ نے فرمایا کہ پر بھی یہی درجہ ہے۔ [مسند ابو یعلی:1794:ضعیف]
طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”جو شخص اس سورت کو گھر میں جاتے وقت پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس گھر والوں سے اور اس کے پڑوسیوں سے فقیری دور کر دے گا“، اس کی اسناد ضعیف ہے۔ [طبرانی:2419:ضعیف]
مسند ابویعلی میں ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان تبوک میں تھے سورج ایسی روشنی نور اور شعاعوں کے ساتھ نکلا کہ ہم نے اس سے پہلے ایسا صاف شفاف اور روشن و منور نہیں دیکھا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آج سورج کی اس تیز روشنی اور زیادہ نور اور چمکیلی شعاعوں کی کیا وجہ ہے؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آج مدینہ میں معاویہ بن معاویہ لیثی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا ہے جن کے جنازے کی نماز کے لئے اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتے آسمان سے بھیجے ہیں، پوچھا: ”ان کے کس عمل کے باعث؟“، فرمایا: وہ سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» کو دن رات، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے پڑھا کرتے تھے اگر آپ کا ارادہ ہو تو زمین سمیٹ لوں اور آپ ان کے جنازے کی نماز ادا کر لیں؟، آپ نے فرمایا: ”بہت اچھا“، پس آپ نے ان کے جنازے کی نماز ادا کی۔ [مسند ابو یعلی:4267:ضعیف] اس حدیث کو حافظ ابوبکر بیہقی رحمہ اللہ بھی اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں یزید بن ہارون کی روایت سے لائے ہیں وہ علاء بن محمد سے روایت کرتے ہیں۔ ان پر موضوع حدیثیں بیان کرنے کی تہمت ہے۔ «واللہ اعلم»
مسند ابویعلی میں اس کی دوسری سند بھی ہے جس میں یہ راوی نہیں۔ اس میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ معاویہ بن معاویہ لیثی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا ہے کہ کیا آپ ان کے جنازے کی نماز پڑھنا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، جبرائیل علیہ السلام نے اپنا پر زمین پر مارا تمام درخت اور سب ٹیلے وغیرہ پست ہو گئے ان کا جنازہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آنے لگا، آپ نے نماز شروع کی اور آپ کے پیچھے فرشتوں کی دو صفیں تھیں، ہر صف میں ستر ہزار فرشتے تھے، آپ نے دریافت کیا کہ آخر اس مرتبہ کی کیا وجہ ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: ان کی سورت سے محبت اور ہر وقت آتے جاتے بیٹھتے اٹھتے اس کی تلاوت۔ [مسند ابو یعلی:4267:ضعیف] اسے بیہقی نے بھی روایت کیا ہے، اور بیہقی کی سند میں محبوب بن بلال ہیں۔ ابوحاتم رازی فرماتے ہیں یہ مشہور نہیں، ابویعلی میں یہ راوی نہیں وہاں ان کی جگہ ابوعبداللہ محمود ہیں، لیکن ٹھیک بات محبوب کا ہونا ہے، اس روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں اور سب ضعیف ہیں، ہم نے اختصار کے لئے انہیں یہاں نقل نہیں کیا۔
مسند احمد میں ہے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی میں نے جلدی سے آپ کا ہاتھ تھام لیا اور کہا:یا رسول اللہ ! مومن کی نجات کس عمل پر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اے عقبہ زبان تھامے رکھ، اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہا کر اور اپنی خطاؤں پر روتا رہ“، پھر دوبارہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے خود میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: ”عقبہ! کیا میں تمہیں توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن میں اتری ہوئی تمام سورتوں سے بہترین سورتیں بتاؤں؟“ میں نے کہا: ہاں اے اللہ کے رسول ! ضرور ارشاد فرمایئے، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے، پس آپ نے مجھے سورۃ «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» پڑھائیں، پھر فرمایا: ”دیکھو عقبہ! انہیں نہ بھولنا اور ہر رات انہیں پڑھ لیا کرنا۔“ فرماتے ہیں، پھر نہ میں انہیں بھولا اور نہ کوئی رات ان کے پڑھے بغیر گزاری، میں نے پھر آپ سے ملاقات کی اور جلدی کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو اپنے ہاتھ میں لے کر عرض کی کہ یا رسول اللہ ! مجھے بہترین اعمال کا ارشاد فرمایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سن جو تجھ سے توڑے تو اس سے جوڑ، جو تجھے محروم رکھے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگزر کر اور معاف کر دے۔“ [مسند احمد:148/4:حسن]
اس کا بعض حصہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی زہد کے باب میں وارد کیا ہے اور فرمایا ہے یہ حدیث حسن ہے۔ [مسند احمد:158/4:حسن] مسند احمد میں بھی اس کی ایک اور سند ہے۔
صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت جب بستر پر جاتے تو ہر رات تینوں سورتوں کو پڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیاں ملا کر ان پر دم کر کے اپنے جسم مبارک پر پھیر لیا کرتے جہاں تک ہاتھ پہنچتے پہنچاتے، پہلے سر پر، پھر منہ پر، پھر اپنے سامنے کے جسم پر تین مرتبہ اسی طرح کرتے، یہ حدیث سنن میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:5017]
اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم عزیز (علیہ السلام) کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم مسیح (علیہ السلام) کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی! تم کہہ دو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں، جس کا کوئی وزیر نہیں، جس کا کوئی شریک نہیں، جس کا کوئی ہمسر نہیں، جس کا کوئی ہم جنس نہیں، جس کا برابر اور کوئی نہیں، جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے۔ وہ «صمد» ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بے نیاز ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «صمد» وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب پر غالب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے، «صمد» کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا، سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو۔
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ «صمد» کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گزرا،
اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ «صمد» کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو، عبداللہ بن بریدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ «صمد» میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو، [طبرانی:1162:ضعیف] لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔
حافظ ابوالقاسم طبرانی رحمہ اللہ اپنی کتاب «السنہ» میں لفظ «صمد» کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ دراصل یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردار اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے، نہ وہ کھوکھلا ہے، نہ وہ کھائے، نہ پئے، سب فانی ہیں اور وہ باقی ہے۔ وغیرہ
پھر فرمایا: اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی۔ جیسے اور جگہ ہے: «بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ» [6-الأنعام:101] الخ یعنی ”وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے“، یعنی وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے، پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے۔
جیسے اور جگہ فرمایا: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا» * «لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا» * «تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا» * «أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدًا» * «وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَـٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا» * «إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا» * «لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا» * «وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا» [19-مريم:88-95] یعنی ”یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں“۔
اور جگہ ہے: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ» * «لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ» [21-الأنبياء:26] یعنی ”ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں“۔
اور جگہ ہے: «وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ» * «سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ» [37-الصافات:158-159] یعنی ”انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے“۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے ۔ [صحیح بخاری:7378]
بخاری کی اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہیئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور [صحیح بخاری:4974]
«الحمداللہ» سورۃ الاخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی۔
0%