پھر خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کئے جانے کے گناہ کو نہیں بخشتا، یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ مشرک ہو اس پر بخشش کے دروازے بند ہیں۔ اس جرم کے سوا اور گناہوں کو خواہ وہ کیسے ہی ہوں جس کو چاہے بخش دیتا ہے اس آیت کریمہ کے متعلق بہت سی حدیثیں ہیں ہم یہاں بقدر آسانی ذکر کرتے ہیں۔ پہلی حدیث بحوالہ مسند احمد۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہوں کے تین دیوان ہیں، ایک تو وہ جس کی اللہ تعالیٰ کچھ پرواہ نہیں کرتا دوسرا وہ جس میں سے اللہ تعالیٰ کچھ نہیں چھوڑتا۔ تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں بخشتا۔ پس جسے وہ بخشتا نہیں وہ شرک ہے
اللہ عزوجل خود فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو معاف نہیں فرماتا اور جگہ ارشاد ہے «إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ» [5-المائدة:72] ” جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کر لے، اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔ “ اور جس دیوان میں اللہ کے ہاں کوئی وقعت نہیں وہ بندے کا اپنی جان پر ظلم کرنا ہے اور جس کا تعلق اس سے اور اللہ کی ذات سے ہے مثلاً کسی دن کا روزہ جسے اس نے چھوڑ دیا یا نماز چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے اور جس دیوان (اعمالنامہ) کی اللہ تعالیٰ کوئی چیز ترک نہیں کرتا وہ بندوں کے آپس میں مظالم ہیں جن کا بدلہ اور قصاص ضروری ہے۔ [مسند احمد:240/6،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
دوسری حدیث بحوالہ مسند بزار۔ [مسند بزار:3439،قال الشيخ الألباني:حسن] الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مطلب وہی ہے۔ تیسری حدیث بحوالہ مسند احمد ” ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو بخش دے مگر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جس نے ایماندار کو جان بوجھ کر قتل کیا۔ “ [سنن نسائی:3446،قال الشيخ الألباني:صحیح لغیرہ]
چوتھی حدیث بحوالہ مسند احمد۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اے میرے بندے تو جب تک میری عبادت کرتا رہے گا اور مجھ سے نیک امید رکھے گا میں بھی تیری جتنی خطائیں ہیں انہیں معاف فرماتا رہوں گا میرے بندے اگر تو ساری زمین بھر کی خطائیں بھی لے کر میرے پاس آئے گا تو میں بھی زمین کی وسعتوں جتنی مغفرت کے ساتھ تجھ سے ملوں گا بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔ “ [مسند احمد:154/5،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پانچویں حدیث بحوالہ مسند احمد۔ جو بندہ «لا الہ الا اللہ» کہے پھر اسی پر اس کا انتقال ہو وہ ضرور جنت میں جائے گا یہ سن کر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو آپ نے فرمایا گو اس نے زناکاری اور چوری بھی کی ہو تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوا۔ چوتھے سوال پر آپ نے فرمایا چاہے ابوذر کی ناک خاک آلود ہو، پس سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ وہاں سے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے نکلے کہ چاہے ابوذر کی ناک خاک آلود ہو اور اس کے بعد جب کبھی آپ یہ حدیث بیان فرماتے یہ جملہ ضروری کہتے ۔ [صحیح بخاری:5827]
یہ حدیث دوسری سند سے قدرے زیادتی کے ساتھ بھی مروی ہے، اس میں ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے میدان میں چلا جا رہا تھا احد کی طرف ہماری نگاہیں تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر!“، میں نے کہا: لبیک، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! میرے پاس اس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میں نہ چاہوں گا کہ تیسری شام کو اس میں سے کچھ بھی باقی رہ جائے بجز اس دینار کے جسے میں قرضہ چکا نے کے لیے رکھ لوں باقی تمام مال میں اس طرح راہ للہ اس کے بندوں کو دے ڈالوں گا اور آپ نے دائیں بائیں اور سامنے لپیں پھینکیں۔“ پھر کچھ دیر ہم چلتے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا اور فرمایا: ”جن کے پاس یہاں زیادتی ہے وہی وہاں کمی والے ہوں گے مگر جو اس طرح کرے اور اس طرح کرے“، یعنی آپ نے اپنے دائیں بائیں اور سامنے لپیں (ہتھیلیاں) بھر کر دیتے ہوئے اس عمل کی وضاحت کی۔ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا: ”ابوذر! میں ابھی آتا ہوں تم یہیں ٹھہرو“، آپ تشریف لے گئے اور میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور مجھے آوازیں سنائی دینے لگیں دل بےچین ہو گیا کہ کہیں تنہائی میں کوئی دشمن آ گیا ہو میں نے قصد کیا کہ وہاں پہنچوں لیکن ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ میں جب تک نہ آؤں تم یہیں ٹھہرے رہنا۔ چنانچہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ آپ تشریف لے آئے تو میں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ آوازیں کیسی آ رہی تھیں آپ نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل آئے تھے اور فرما رہے تھے کہ آپ کی امت میں سے وفات پانے والا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے تو وہ جنت میں جائے گا“، میں نے کہا گو زنا اور چوری بھی اس سے سرزد ہوئی ہو تو فرمایا: ”ہاں گو زنا اور چوری بھی ہوئی ہو“ ۔ [صحیح بخاری:6268]
یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رات کے وقت نکلا دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تشریف لے جا رہے ہیں تو مجھے خیال ہوا کہ شاید اس وقت آپ کسی کو ساتھ لے جانا نہیں چاہتے تو میں چاند کی چاندنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیا۔ آپ نے جب مڑ کر مجھے دیکھا تو پوچھا: ”کون ہے؟“ میں نے کہا: ابوذر، اللہ مجھے آپ پر سے قربان کر دے۔ تو آپ نے فرمایا: ”آؤ میرے ساتھ چلو“ تھوڑی دیر ہم چلتے رہے پھر آپ نے فرمایا: ”زیادتی والے ہی قیامت کے دن کمی والے ہوں گے مگر وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا پھر وہ دائیں بائیں آگے پیچھے نیک کاموں میں خرچ کرتے رہے“ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ نے مجھے ایک جگہ بٹھا کر جس کے اردگرد پتھر تھے فرمایا: ”میری واپس تک یہیں بیٹھے رہو“ پھر آپ آگے نکل گئے یہاں تک کہ میری نظر سے پوشیدہ ہو گئے آپ کو زیادہ دیر لگ گئی پھر میں نے دیکھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں اور زبان مبارک سے فرماتے آ رہے ہیں گو زنا کیا ہو یا چوری کی ہو جب میرے پاس پہنچے تو میں رک نہ سکا پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے اس میدان کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے میں نے سنا کوئی آپ کو جواب بھی دے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”وہ جبرائیل علیہ السلام تھے یہاں میرے پاس آئے اور فرمایا اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو مرے اور اللہ کے ساتھ اس نے کسی کو شریک نہ کیا وہ جنتی ہو گا، میں نے کہا: اے جبرائیل گو اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو“، فرمایا: ہاں میں نے پھر یہی سوال کیا جواب دیا ہاں میں نے پھر یہی فرمایا ہاں اور اگرچہ اس نے شراب پی ہو ۔ [صحیح بخاری:6443]
چھٹی حدیث بحوالہ مسند عبد بن حمید ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہا: یا رسول اللہ! جنت واجب کر دینے والی چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بغیر شرک کئے مرا اس کے لیے جنت واجب ہے اور جو شرک کرتے ہوئے مرا اس کے لیے جہنم واجب ہے“ ۔ [صحیح مسلم:93]
یہی حدیث اور طریق سے مروی ہے جس میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہوا مرا اس کے لیے بخشش حلال ہے اگر اللہ چاہے اسے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے کو نہیں بخشتا اس کے سوا جسے چاہے بخش دے“ ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5425/3]
اور سند سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے پر مغفرت ہمیشہ رہتی ہے جب تک کہ پردے نہ پڑ جائیں“ دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! پردے پڑ جانا کیا ہے؟ فرمایا: ”شرک، جو شخص شرک نہ کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اس کے لیے بخشش الٰہی حلال ہو گئی اگر چاہیئے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے۔“ پھر آپ نے «إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ» [4-النساء:48] تلاوت فرمائی [مسند ابو یعلیٰ:303/2]
ساتویں حدیث بحوالہ مسند احمد، جو شخص مرے اللہ کے ساتھ شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ [مسند احمد:79/3]
آٹھویں حدیث بحوالہ مسند احمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور فرمایا: ”تمہارے رب عزوجل نے مجھے اختیار دیا کہ میری امت میں سے ستر ہزار کا بے حساب جنت میں جانا پسند کر لوں یا اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز میرے لیے میری امت کی بابت پوشیدہ محفوظ ہے اسے قبول کر لوں“، تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ آپ کے لیے یہ محفوظ چیز بچا کر بھی رکھے گا؟ آپ یہ سن کر اندر تشریف لے گئے پھر تکبیر پڑھتے ہوئے باہر آئے اور فرمانے لگے ”میرے رب نے مجھے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار کو جنت عطا کرنا مزید عطا فرمایا اور وہ پوشیدہ حصہ بھی۔“ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان فرما چکے تو سیدنا ابورہم رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ وہ پوشیدہ محفوظ چیز کیا ہے؟ اس پر لوگوں نے انہیں کچھ کچھ کہنا شروع کر دیا کہ کہاں تم اور کہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اختیار کردہ چیز؟ سیدنا ایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سنو جہاں تک ہمارا گمان ہے جو بالکل یقین کے قریب ہے یہ ہے کہ وہ چیز جنت میں جانا ہے ہر اس شخص کا جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ [مسند احمد:413/5]
نویں حدیث بحوالہ ابن ابی حاتم ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میرا بھتیجا حرام سے باز نہیں آتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دینداری کیسی ہے“، کہا نمازی ہے اور توحید والا ہے، آپ نے فرمایا: ”جاؤ اور اس سے اس کا دین بطور سبہ کے طلب کرو اگر انکار کرے تو اس سے خرید لو“، اس نے جا کر اس سے طلب کیا تو اس نے انکار کر دیا اس نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ نے فرمایا: ”میں نے اسے اپنے دین پر چمٹا ہوا پایا“، اس پر «إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ» [4-النساء:48] نازل ہوئی ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5424/3:ضعیف]
دسویں حدیث بحوالہ حافظ یعلیٰ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میں نے کوئی حاجت یا حاجت والا نہیں چھوڑا یعنی زندگی میں سب کچھ کر چکا آپ نے فرمایا: ”کیا تو یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں“، تین مرتبہ اس نے کہا: ہاں آپ نے فرمایا: ”یہ ان سب پر غالب آ جائے گا“ ۔ [مسند ابویعلیٰ:3433:صحیح]
گیارہویں حدیث بحوالہ مسند احمد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ضمضم بن جوش یمامی رحمہ اللہ سے کہا کہ اے یمامی! کسی شخص سے ہرگز یہ نہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ تجھے نہیں بخشے گا یا تجھے جنت میں داخل نہ کرے گا، یمامی رحمہ اللہ نے کہا یہ بات تو ہم لوگ اپنے بھائیوں اور دوستوں سے بھی غصے غصے میں کہہ جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: خبردار، ہرگز نہ کہنا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل میں دو شخص تھے ایک تو عبادت میں بہت چست چالاک اور دوسرا اپنی جان پر زیادتی کرنے والا اور دونوں میں دوستانہ اور بھائی چارہ تھا عابد بسا اوقات اس دوسرے کو کسی نہ کسی گناہ میں دیکھتا رہتا تھا اور کہتا رہتا تھا اے شخص باز رہ وہ جواب دیتا تو مجھے میرے رب پر چھوڑ دے کیا تو مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے؟ ایک مرتبہ عابد نے دیکھا کہ وہ پھر کسی گناہ کے کام کو کر رہا ہے جو گناہ اسے بہت بڑا معلوم ہوا تو کہا افسوس تجھ پر باز آ اس نے وہی جواب دیا تو عابد نے کہا اللہ کی قسم اللہ تجھے ہرگز نہ بخشے گا یا جنت نے دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس فرشتہ بھیجا جس نے ان کی روحیں قبض کر لیں جب دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں جمع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس گنہگار سے فرمایا جا اور میری رحمت کی بنا پر جنت میں داخل ہو جا اور اس عابد سے فرمایا کیا تجھے حقیقی علم تھا؟ کیا تو میری چیز پر قادر تھا؟ اسے جہنم کی طرف لے جاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوالقاسم کی جان ہے اس نے ایک کلمہ زبان سے ایسا نکال دیا جس نے اس کی دنیا اور آخرت برباد کر دی“ ۔ [سنن ابوداود:4901،قال الشيخ الألباني:صحیح]
بارہویں حدیث بحوالہ طبرانی جس نے اس بات کا یقین کر لیا کہ میں گناہوں کی بخشش پر قادر ہوں تو میں اسے بخش ہی دیتا ہوں اور کوئی پرواہ نہیں کرتا جب تک کہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرالے ۔ [طبرانی کبیر:11615/11:ضعیف]
تیرہویں حدیث بحوالہ بزار، ابو یعلیٰ جس عمل پر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا وعدہ کیا ہے اسے تو مالک ضرور پورا فرمائے گا اور جس پر سزا کا فرمایا ہے وہ اس کے اختیار میں ہے چاہے بخش دے یا سزا دے ۔ [مسند ابویعلی:3316:ضعیف]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہم صحابہ رضی اللہ عنہم قاتل کے بارے میں اور یتیم کا مال کھا جانے والے کے بارے میں اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والے کے بارے میں اور جھوٹی گواہی دینے والے کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ «إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ» [4-النساء:48] اتری اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہی سے رک گئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:9737:ضعیف]
ابن جریر کی یہ روایت اس طرح ہے کہ جن گناہوں پر جہنم کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اسے کرنے والے کے جہنمی ہونے میں ہمیں کوئی شک ہی نہیں تھا یہاں تک کہ ہم پر یہ آیت اتری جب ہم نے اسے سنا تو ہم شہادت کے لیے رک گئے اور تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ دئیے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5421/3:ضعیف]
بزار میں آپ ہی کی ایک روایت ہے کہ کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے استغفار کرنے سے ہم رکے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے مؤخر کر رکھا ہے۔ [مسند بزار:3254،قال الشيخ الألباني:حسن]
ابو جعفر رازی کی روایت میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ جب «يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ» [39-الزمر:53] نازل ہوئی یعنی ” اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ “ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا حضور شرک کرنے والا بھی؟ آپ کو اس کا یہ سوال ناپسند آیا پھر آپ نے «إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا» [4-النساء:48] پڑھ کر سنائی۔
سورۃ تنزیل کی یہ آیت مشروط ہے توبہ کے ساتھ پس جو شخص جس گناہ سے توبہ کرے اللہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے گو باربار کرے پس مایوس نہ ہونے کی آیت میں توبہ کی شرط ضرور ہے۔ ورنہ اس میں مشرک بھی آ جائے گا اور پھر مطلب صحیح نہ ہو گا کیونکہ اس آیت میں وضاحت کے ساتھ یہاں موجود ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کی بخشش نہیں ہے۔ ہاں اس کے سوا جسے چاہے یعنی اگر اس نے توبہ بھی نہ کی ہو اس مطلب کے ساتھ اس آیت میں جو امید دلانے والی ہے اور زیادہ امید کی آس پیدا ہو جاتی ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر فرماتا ہے اللہ کے ساتھ جو شرک کرے اس نے بڑے گناہ کا افترا باندھا، جیسے اور آیت میں ہے «إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ» [31-لقمان:13] ” شرک بہت بڑا ظلم ہے “ بخاری مسلم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک بنائے حالانکہ اسی نے تجھ کو پیدا کیا ہے۔ [صحیح بخاری:4477] پھر پوری حدیث بیان فرمائی۔
ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا ہے پھر آپ نے اسی آیت کا یہ آخری حصہ تلاوت فرمایا پھر ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ «اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ» [31-لقمان:14] ” میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا شکریہ کر میری طرف لوٹنا ہے “۔
0%