آپ 103:1 سے 103:3 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَالْعَصْرِ
۟ۙ
اِنَّ
الْاِنْسَانَ
لَفِیْ
خُسْرٍ
۟ۙ
اِلَّا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَعَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ
وَتَوَاصَوْا
بِالْحَقِّ ۙ۬
وَتَوَاصَوْا
بِالصَّبْرِ
۟۠
3
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی مسیلمہ کذاب سے ملاقات اور گفتگو:

سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے مسلمان ہونے سے پہلے ایک مرتبہ مسیلمہ کذاب سے ملے، اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر پوچھنے لگا، کہو اس مدت میں تمہارے نبی پر بھی کوئی وحی نازل ہوئی ہے، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ایک مختصر سی نہایت فصاحت والی سورت اتری ہے، پوچھا: وہ کیا ہے؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے سورۃ والعصر پڑھ کر سنا دی۔ مسیلمہ ذرا دیر سوچتا رہا پھر کہنے لگا، عمرو! دیکھو مجھ پر بھی اسی جیسی سورت اتری ہے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا وہ کیا؟ کہا: یہ «يَا وَبْر يَا وَبْر إِنَّمَا أَنْتَ أُذُنَانِ وَصَدْر وَسَائِرك حَفْر نَقْر» پھر کہنے لگا، عمرو کہو تمہارا کیا خیال ہے؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا خیال تو تو خود ہی جانتا ہے کہ مجھے تیرے جھوٹے ہونے کا علم ہے ۔ [الخرائطي في مساوئ الاخلاق:173:اسناده ضعيف‏ ]

«وبر» بلی جیسا ایک جانور ہے اس کے دونوں کان ذرا بڑے ہوتے ہیں اور سینہ بھی، باقی جسم بالکل حقیر اور واہیات ہوتا ہے۔ اس کذاب نے ایسی فضول گوئی اور بکواس کے ساتھ اللہ کے کلام کا معارضہ کرنا چاہا جسے سن کر عرب کے بت پرست لوگوں نے بھی اس کا کاذب اور مفتری ہونا سمجھ لیا۔

طبرانی میں ہے کہ دو صحابیوں کا یہ دستور تھا کہ جب ملتے ایک اس سورت کو پڑھتا دوسرا سنتا پھر سلام کر کے رخصت ہو جاتے۔ [طبراني اوسط:5120:اسناده ضعيف‏ ]

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس سورت کو غور و تدبر سے پڑھیں اور سمجھیں تو صرف یہی ایک سورت کافی ہے۔؟

مسیلمہ کذاب اور عمرو بن عاص میں مکالمہ ٭٭

[سورة العصر کی ابتدائی تفسیر دیکھئیے] ‏۔

10840
مختصر نقصان اور اصحاب فلاح و نجات ٭٭

«عصر» سے مراد زمانہ ہے جس میں انسان نیکی بدی کے کام کرتا ہے، زید بن اسلم رحمہ اللہ نے اس سے مراد عصر کی نماز یا عصر کی نماز کا وقت بیان کیا ہے لیکن مشہور پہلا قول ہی ہے۔

اس قسم کے بعد بیان فرماتا ہے کہ انسان نقصان میں، ٹوٹے میں اور ہلاکت میں ہے، ہاں اس نقصان سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان ہو، اعمال میں نیکیاں ہوں، حق کی وصیتیں کرنے والے ہوں یعنی نیکی کے کام کرنے کی، حرام کاموں سے رکنے کی ایک دوسرے کو تاکید کرتے ہوں، قسمت کے لکھے پر، مصیبتوں کی برداشت پر صبر کرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہوں۔ ساتھ ہی بھلی باتوں کا حکم کرنے اور بری باتوں سے روکنے میں لوگوں کی طرف سے جو بلائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو ان کو بھی برداشت کرتے ہوں اور اسی کی تلقین اپنے ساتھیوں کو بھی کرتے ہوں یہ ہیں جو اس صریح نقصان سے مستثنیٰ ہیں۔ سورۃ والعصر کی تفسیر بحمدللہ ختم ہوئی۔

10841

اپنے Quran.com کے تجربے کو زیادہ سے زیادہ بنائیں!
ابھی اپنا دورہ شروع کریں:

0%