یہ آیت قرآن کریم کی تمام آیتوں سے بڑی ہے، سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ قرآن کی سب سے بڑی آیت یہی «آیت الدین» ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:41/6] یہ آیت جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے انکار کرنے والے آدم علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور قیامت تک کی ان کی تمام اولاد نکالی، آپ علیہ السلام نے اپنی اولاد کو دیکھا، ایک شخص کو خوب تروتازہ اور نورانی دیکھ کر پوچھا کہ الٰہی ان کا کیا نام ہے؟ جناب باری نے فرمایا یہ تمہارے لڑکے داؤد علیہ السلام ہیں، پوچھا اللہ ان کی عمر کیا ہے؟ فرمایا ساٹھ سال، کہا اے اللہ اس کی عمر کچھ اور بڑھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں، ہاں اگر تم اپنی عمر میں سے انہیں کچھ دینا چاہو تو دے دو، کہا اے اللہ میری عمر میں سے چالیس سال اسے دئیے جائیں، چنانچہ دے دئیے گئے، آدم علیہ السلام کی اصلی عمر ایک ہزار سال کی تھی، اس لین دین کو لکھا گیا اور فرشتوں کو اس پر گواہ کیا گیا آدم علیہ السلام کی موت جب آئی، کہنے لگے اے اللہ میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ تم نے اپنے لڑکے داؤد علیہ السلام کو دے دئیے ہیں، تو آدم علیہ السلام نے انکار کیا جس پر وہ لکھا ہوا دکھایا گیا اور فرشتوں کی گواہی گزری، دوسری روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام کی عمر پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار پوری کی اور داؤد علیہ السلام کی ایک سو سال کی۔ [مسند احمد:251/1:حسن لغیرہ] لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی علی بن زین بن جدعان کی حدیثیں منکر ہوتی ہیں، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت ہے۔ [مستدرک حاکم:586/2]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ادھار کے معاملات لکھ لیا کریں تاکہ رقم اور معیاد خوب یاد رہے، گواہ کو بھی غلطی نہ ہو، اس سے ایک وقت مقررہ کیلئے ادھار دینے کا جواز بھی ثابت ہوا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ معیاد مقرر کر کے قرض کے لین دین کی اجازت اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ مدینے والوں کا ادھار لین دین دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ناپ تول یا وزن مقرر کر لیا کرو، بھاؤ تاؤ چکا لیا کرو اور مدت کا بھی فیصلہ کر لیا کرو۔ [صحیح بخاری:2239:صحیح]
قرآن حکیم کہتا ہے کہ لکھ لیا کرو اور حدیث شریف میں ہے کہ ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھنا جانیں نہ حساب، [صحیح بخاری:1913] ان دونوں میں تطبیق اس طرح ہے کہ دینی مسائل اور شرعی امور کے لکھنے کی تو مطلق ضرورت ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بے حد آسان اور بالکل سہل کر دیا گیا۔ قرآن کا حفظ اور احادیث کا حفظ قدرتاً لوگوں پر سہل ہے، لیکن دنیوی چھوٹی بڑی لین دین کی باتیں اور وہ معاملات جو ادھار سدھار ہوں، ان کی بابت بیشک لکھ لینے کا حکم ہوا اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ حکم بھی وجوباً نہیں پس نہ لکھنا دینی امور کا ہے اور لکھ لینا دنیوی کام کا ہے۔ بعض لوگ اس کے وجوب کی طرف بھی گئے ہیں،
ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو ادھار دے وہ لکھ لے اور جو بیچے وہ گواہ کر لے، ابوسلیمان مرعشی رحمہ اللہ جنہوں نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہما کی صحبت بہت اٹھائی تھی انہوں نے ایک دن اپنے پاس والوں سے کہا اس مظلوم کو بھی جانتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس کی دعا قبول نہیں ہوتی لوگوں نے کہا یہ کس طرح؟ فرمایا یہ وہ شخص ہے جو ایک مدت کیلئے ادھار دیتا ہے اور نہ گواہ رکھتا ہے نہ لکھت پڑھت کرتا ہے۔
پھر مدت گزرنے پر تقاضا کرتا ہے اور دوسرا شخص انکار کر جاتا ہے، اب یہ اللہ سے دعا کرتا ہے لیکن پروردگار قبول نہیں کرتا اس لیے کہ اس نے کام اس کے فرمان کیخلاف کیا ہے اور اپنے رب کا نافرمان ہوا ہے، حضرت ابوسعید شعبی ربیع بن انس حسن ابن جریج ابن زید رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے تو یہ واجب تھا پھر وجوب منسوخ ہو گیا، [تفسیر ابن جریر الطبری:47/6] اور فرمایا گیا کہ اگر ایک دوسرے پر اطمینان ہو تو جسے امانت دی گئی ہے اسے چاہیئے کہ ادا کر دے، اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے، گو یہ واقعہ اگلی امت کا ہے لیکن تاہم ان کی شریعت ہماری شریعت ہے۔ جب تک ہماری شریعت پر اسے انکار نہ ہو اس واقعہ میں جسے اب ہم بیان کرتے ہیں لکھت پڑھت کے نہ ہونے اور گواہ مقرر نہ کئے جانے پر شارع علیہ السلام نے انکار نہیں کیا۔
مسند میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار ادھار مانگے، اس نے کہا گواہ لاؤ، جواب دیا کہ اللہ کی گواہی کافی ہے، کہا ضمانت لاؤ، جواب دیا اللہ کی ضمانت کافی ہے، کہا تو نے سچ کہا، ادائیگی کی معیاد مقرر ہو گئی اور اس نے اسے ایک ہزار دینار گن دئیے، اس نے تری کا سفر کیا اور اپنے کام سے فارغ ہوا، جب معیاد پوری ہونے کو آئی تو یہ سمندر کے قریب آیا کہ کوئی جہاز کشتی ملے تو اس میں بیٹھ جاؤں اور رقم ادا کر آؤں، لیکن کوئی جہاز نہ ملا، جب دیکھا کہ وقت پر نہیں پہنچ سکتا تو اس نے ایک لکڑی لی، اسے بیچ سے کھوکھلی کر لی اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک پرچہ بھی رکھ دیا، پھر منہ کو بند کر دیا اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تجھے خوب علم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے اس نے مجھ سے ضمانت طلب کی، میں نے تجھے ضامن کیا اور وہ اس پر خوش ہو گیا، گواہ مانگا، میں نے گواہ بھی تجھی کو رکھا، وہ اس پر بھی خوش ہو گیا، اب جبکہ اپنا قرض ادا کر آؤں لیکن کوئی کشتی نہیں ملی، اب میں اس رقم کو تجھے سونپتا ہوں اور سمندر میں ڈال دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ رقم اسے پہنچا دے، پھر اس لکڑی کو سمندر میں ڈال دیا اور خود چلا گیا لیکن پھر بھی کشتی کی تلاش میں رہا کہ مل جائے تو جاؤں، یہاں تو یہ ہوا، وہاں جس شخص نے اسے قرض دیا تھا، جب اس نے دیکھا کہ وقت پورا ہوا اور آج اسے آ جانا چاہیئے تھا، تو وہ بھی دریا کنارے آن کھڑا ہوا کہ وہ آئے گا اور میری رقم مجھے دیدے گا یا کسی کے ہاتھ بھجوائے گا، مگر جب شام ہونے کو آئی اور کوئی کشتی اس کی طرف سے نہیں آئی تو یہ واپس لوٹا،
کنارے پر ایک لکڑی دیکھی تو یہ سمجھ کر کہ خالی ہاتھ تو جا ہی رہا ہوں، اس لکڑی کو بھی لے چلوں، پھاڑ کر سکھا لوں گا جلانے کے کام آئے گی، گھر پہنچ کر جب اسے چیرتا ہے تو کھنا کھن بجتی ہوئی اشرفیاں نکلتی ہیں، گنتا ہے تو پوری ایک ہزار ہیں، وہیں پرچہ پر نظر پڑتی ہے، اسے بھی اٹھا کر پڑھ لیتا ہے، پھر ایک دن وہی شخص آتا ہے اور ایک ہزار دینار پیش کر کے کہتا ہے یہ لیجئے آپ کی رقم، معاف کیجئے گا میں نے ہر چند کوشش کی کہ وعدہ خلافی نہ ہو لیکن کشتی کے نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہو گیا اور دیر لگ گئی، آج کشتی ملی، آپ کی رقم لے کر حاضر ہوا، اس نے پوچھا کیا میری رقم آپ نے بھجوائی بھی ہے؟ اس نے کہا میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے کشتی نہ ملی تھی، اس نے کہا آپ اپنی رقم لے کر خوش ہو کر چلے جاؤ، آپ نے جو رقم لکڑی میں ڈال کر اسے توکل علی اللہ ڈالی تھی، اسے اللہ نے مجھ تک پہنچا دیا اور میں نے اپنی رقم پوری وصول پالی۔ [صحیح بخاری:2291] اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے، صحیح بخاری شریف میں سات جگہ یہ حدیث آئی ہے۔ [صحیح بخاری:1498]
پھر فرمان ہے کہ لکھنے والا عدل و حق کے ساتھ لکھے، کتابت میں کسی فریق پر ظلم نہ کرے، ادھر ادھر کچھ کمی بیشی نہ کرے بلکہ لین دین والے دونوں متفق ہو کر جو لکھوائیں وہی لکھے، لکھا پڑھا شخص معاملہ کو لکھنے سے انکار نہ کرے، جب اسے لکھنے کو کہا جائے لکھ دے، جس طرح اللہ کا یہ احسان اس پر ہے کہ اس نے اسے لکھنا سکھایا اسی طرح جو لکھنا نہ جانتے ہوں ان پر یہ احسان کرے اور ان کے معاملہ کو لکھ دیا کرے۔ حدیث میں ہے یہ بھی صدقہ ہے کہ کسی کام کرنے والے کا ہاتھ بٹا دو، کسی گرے پڑے کا کام کر دو، [صحیح بخاری:2518] اور حدیث میں ہے جو علم کو جان کر پھر اُسے چھپائے، قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی، [سنن ابوداود:3658، قال الشيخ الألباني:حسن صحیح]
مجاہد رحمہ اللہ اور عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کاتب پر لکھ دینا اس آیت کی رو سے واجب ہے۔ جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اللہ سے ڈرے، نہ کمی بیشی کرے نہ خیانت کرے۔ اگر یہ شخص بےسمجھ ہے اسراف وغیرہ کی وجہ سے روک دیا گیا ہے یا کمزور ہے یعنی بچہ ہے یا حواس درست نہیں یا جہالت اور کندذہنی کی وجہ سے لکھوانا بھی نہیں جانتا تو جو اس کا والی اور بڑا ہو، وہ لکھوائے۔
پھر فرمایا کتابت کے ساتھ شہادت بھی ہونی چاہیئے تاکہ معاملہ خوب مضبوط اور بالکل صاف ہو جائے۔ دو عورتوں کو ایک عورت کے قائم مقام کرنا عورت کے نقصان کے سبب ہے، جیسے صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عورتو صدقہ کرو اور بکثرت استغفار کرتی رہو، میں نے دیکھا ہے کہ جہنم میں تم بہت زیادہ تعداد میں جاؤ گی، ایک عورت نے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لعنت زیادہ بھیجا کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو، میں نے نہیں دیکھا کہ باوجود عقل دین کی کمی کے، مردوں کی عقل مارنے والی تم سے زیادہ کوئی ہو، اس نے پھر پوچھا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں دین کی عقل کی کمی کیسے ہے؟ فرمایا عقل کی کمی تو اس سے ظاہر ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین کی کمی یہ ہے کہ ایام حیض میں نہ نماز ہے نہ روزہ۔ [صحیح مسلم:79:صحیح]
گواہوں کی نسبت فرمایا کہ یہ شرط ہے کہ وہ عدالت والے ہوں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ جہاں کہیں قرآن شریف میں گواہ کا ذِکر ہے وہاں عدالت کی شرط ضروری ہے، گو وہاں لفظوں میں نہ ہو اور جن لوگوں نے ان کی گواہی رَد کر دی ہے جن کا عادل ہونامعلوم نہ ہو ان کی دلیل بھی یہی آیت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گواہ عادل اور پسندیدہ ہونا چاہیئے۔ دو عورتیں مقرر ہونے کی حکمت بھی بیان کر دی گئی ہے کہ اگر ایک گواہی کو بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے کی «فَتُذَکَّرَ» کی دوسری قرأت «فَتُذَکِّرَ» بھی ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی شہادت اس کے ساتھ مل کر شہادت مرد کے کر دے گی انہوں نے مکلف کیا ہے، صحیح بات پہلی ہی ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
گواہوں کو چاہیئے کہ جب وہ بلائے جائیں انکار نہ کریں یعنی جب ان سے کہا جائے کہ آؤ اس معاملہ پر گواہ رہو تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیئے جیسے کاتب کی بابت بھی یہی فرمایا گیا ہے، یہاں سے یہ بھی فائدہ حاصل کیا گیا ہے کہ گواہ رہنا بھی فرض کفایہ ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمہور کا مذہب یہی ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:68/6] اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ جب گواہ گواہی دینے کیلئے طلب کیا جائے یعنی جب اس سے واقعہ پوچھا جائے تو وہ خاموش نہ رہے، چنانچہ ابومجلز مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ جب گواہ بننے کیلئے بلائے جاؤ تو تمہیں اختیار ہے خواہ گواہ بننا پسند کرو یا نہ کرو یا نہ جاؤ لیکن جب گواہ ہو چکو پھر گواہی دینے کیلئے جب بلایا جائے تو ضرور جانا پڑے گا، [تفسیر ابن ابی حاتم:181/3] صحیح مسلم اور سنن کی حدیث میں ہے اچھے گواہ وہ ہیں جو بے پوچھے ہی گواہی دے دیا کریں، [صحیح مسلم:1719:صحیح] بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ بدترین گواہ وہ ہیں جن سے گواہی طلب نہ کی جائے اور وہ گواہی دینے بیٹھ جائیں، [صحیح بخاری:6428:صحیح] اور وہ حدیث جس میں ہے کہ پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی قسمیں گواہیوں پر اور گواہیاں قسموں پر پیش پیش رہیں گی، [صحیح بخاری:2652:صحیح] اور روایت میں آیا ہے کہ ان سے گواہی نہ لی جائے گی تاہم وہ گواہی دیں گے، [صحیح بخاری:2651:صحیح] تو یاد رہے [ مذمت جھوٹی گواہی دینے والوں کی اور تعریف سچی گواہی دینے والوں کی ہے ] اور یہی ان مختلف احادیث میں تطبیق ہے،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں آیت دونوں حالتوں پر شامل ہے، یعنی گواہی دینے کیلئے بھی اور گواہ رہنے کیلئے بھی انکار نہ کرنا چاہیئے۔
پھر فرمایا چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا لکھنے سے کسمساؤ نہیں بلکہ مدت وغیرہ بھی لکھ لیا کرو۔ ہمارا یہ حکم پورے عدل والا اور بغیر شک و شبہ فیصلہ ہو سکتا ہے۔ پھر فرمایا جبکہ نقد خرید و فروخت ہو رہی ہو تو چونکہ باقی کچھ نہیں رہتا اس لیے اگر نہ لکھا جائے تو کسی جھگڑے کا احتمال نہیں، لہٰذا کتابت کی شرط تو ہٹا دی گئی، اب رہی شہادت تو حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ ادھار ہو یا نہ ہو، ہر حال میں اپنے حق پر گواہ کر لیا کرو، دیگر بزرگوں سے مروی ہے کہ «فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ» [ البقرہ: 283 ] فرما کر اس حکم کو بھی ہٹا دیا
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم واجب نہیں بلکہ استحباب کے طور پر اچھائی کیلئے ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید و فروخت کی جبکہ اور کوئی گواہ شاہد نہ تھا، چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا اور اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کی طرف رقم لینے کیلئے چلا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ذرا جلد نکل آئے اور وہ آہستہ آہستہ آ رہا تھا، لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گھوڑا بک گیا ہے، انہوں نے قیمت لگانی شروع کی یہاں تک کہ جتنے داموں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچا تھا اس سے زیادہ دام لگ گئے، اعرابی کی نیت پلٹی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے کر کہا یا تو گھوڑا اسی وقت نقد دے کر لے لو یا میں اور کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سُن کر رکے اور فرمانے لگے تو تو اسے میرے ہاتھ بیچ چکا ہے پھر یہ کیا کہہ رہا ہے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم میں نے تو نہیں بیچا، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلط کہتا ہے، میرے تیرے درمیان معاملہ طے ہو چکا ہے، اب لوگ ادھر اُدھر سے بیچ میں بولنے لگے، اس گنوار نے کہا اچھا تو گواہ لائیے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچ دیا، مسلمانوں نے ہر چند کہا کہ بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے پیغمبر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے تو حق ہی نکلتا ہے، لیکن وہ یہی کہے چلا جائے کہ لاؤ گواہ پیش کرو، اتنے میں سیدنا خزیمہ رضی اللہ عنہ آ گئے اور اعرابی کے اس قول کو سن کر فرمانے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے بیچ دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ تو فروخت کر چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیسے شہادت دے رہا ہے، سیدنا خزیمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور سچائی کی بنیاد پر یہ شہادت دی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی دو گواہوں کے برابر ہے۔ [سنن ابوداود:3607، قال الشيخ الألباني:صحیح]
پس اس حدیث سے خرید و فروخت پر گواہی دو گواہوں کی ضروری نہ رہی، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ تجارت پر بھی دو گواہ ہوں، کیونکہ ابن مردویہ اور حاکم میں ہے کہ تین شخص ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں کی جاتی، ایک تو وہ کہ جس کے گھر بداخلاق عورت ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے، دوسرا وہ شخص جو کسی یتیم کا مال اس کی بلوغت کے پہلے اسے سونپ دے، تیسرا وہ شخص جو کسی کو مال قرض دے اور گواہ نہ رکھے، [مستدرک حاکم:302/2] امام حاکم اسے شرط بخاری و مسلم پر صحیح بتلاتے ہیں، بخاری مسلم اس لیے نہیں لائے کہ شعبہ کے شاگرد اس روایت کو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ پر موقوف بتاتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ کاتب کو چاہیئے کہ جو لکھا گیا وہی لکھے اور گواہ کو چاہیئے کہ واقعہ کیخلاف گواہی نہ دے اور نہ گواہی کو چھپائے، حسن رحمہ اللہ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کو ضرر نہ پہنچایا جائے مثلاً انہیں بلانے کیلئے گئے، وہ کسی اپنے کام میں مشغول ہوں تو یہ کہنے لگے کہ تم پر یہ فرض ہے۔ اپنا حرج کرو اور چلو، یہ حق انہیں نہیں، اور بہت سے بزرگوں سے بھی یہی مروی ہے۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں جس سے روکوں اس کا کرنا اور جو کام کرنے کو کہوں اس سے رک جانا یہ بدکاری ہے جس کا وبال تم سے چھٹے گا نہیں۔ پھر فرمایا اللہ سے ڈرو اس کا لحاظ رکھو، اس کی فرمانبرداری کرو، اس کے روکے ہوئے کاموں سے رُک جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھا رہا ہے جیسے اور جگہ فرمایا «يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا» [ 8۔ الانفال: 29 ] اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں دلیل دیدے گا، اور جگہ ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ» [ 57-الحديد: 28 ] اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھو وہ تمہیں دوہری رحمتیں دے گا اور تمہیں نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلتے رہو گے۔ پھر فرمایا تمام کاموں کا انجام اور حقیقت سے ان کی مصلحتوں اور دور اندیشیوں سے اللہ آگاہ ہے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، اس کا علم تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے اور ہرچیز کا اسے حقیقی علم ہے۔
0%