سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں «ذَلِكَ» معنی میں «هَذَا» کے ہیں۔ مجاہد، عکرمہ، سعید، جبیر سدی، مقاتل بن حیان، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے۔ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ «ذَلِكَ» اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لیے جس کے معنی ہیں ”وہ“ لیکن کبھی نزدیک کے لیے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں ”یہ“ یہاں بھی اس معنی میں ہے۔
زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ «الم» کی طرف ہے۔
جیسے اس آیت میں ہے «لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ» [2-البقرة:68] الخ یعنی ”نہ تو وہ گائے بڑھیا ہے نہ بچہ ہے بلکہ اس کے درمیانی عمر کی جوان ہے“۔
دوسری جگہ فرمایا: «ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّـهِ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ» [60-الممتحنة:10] الخ یعنی ”یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے“۔
اور جگہ فرمایا: «ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ» [6-الأنعام:102] یہ ہی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا۔
بعض نے توراۃ کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
«كِتَابُ» سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت «ذَٰلِكَ الْكِتَابُ» کا اشارہ توراۃ اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں۔
«رَيْبَ» کے معنی ہیں شک و شبہ۔ سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور کئی ایک صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی معنی مروی ہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:228/1] سیدنا ابودرداء، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم، مجاہد، سعید بن جبیر، ابو مالک نافع جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مولا ہیں، عطا، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، مقاتل بن حیان، سدی، قتادہ، اسماعیل بن ابوخالد سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:31/1]
«رَيْبَ» کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں۔
جیسے سورہ سجدہ میں ہے: «الم» * «تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ» [32-السجدة:1-2] یعنی ”بیشک یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ کی طرف سے ہے“، یعنی اس میں شک نہ کرو۔
بعض قاری «لَا رَيْبَ» پر وقف کرتے ہیں اور «فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ» کو الگ جملہ پڑھتے ہیں۔ لیکن «لَا رَيْبَ فِيهِ» پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورۃ السجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت «فِيهِ هُدًى» کے زیادہ مبالغہ ہے۔ «هُدًى» نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہو سکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہو سکتا ہے۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا۔
جیسے دوسری جگہ فرمایا: «قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَـٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ» [41-فصلت:44] الخ یعنی ”یہ قرآن ہدایت اور شفاء ہے ایمان والوں کے لیے اور بے ایمانوں کے کان بوجھل ہیں اور آنکھیں اندھی ہیں یہ بہت دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں“۔
اور فرمایا: «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا» [17-الإسراء:82] الخ یعنی ”یہ قرآن ایمان داروں کے لیے شفاء اور رحمت ہے اور ظالم لوگ تو اپنے خسارے میں ہی بڑھتے جاتے ہیں“۔
اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں۔ جیسے فرمایا: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ» [10-يونس:57] یعنی ”تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور سینے کی بیماریوں کی شفاء آ چکی جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے“ اور سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں۔ ایک اور روایت میں ہے متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے۔“ اعمش ابوبکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں۔ ”متقی کون ہے؟“ آپ یہی جواب دیتے ہیں پھر میں نے کہا ”ذرا کلبی سے بھی تو دریافت کر لو!“ وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں۔ اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ «الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ» [2-البقرة:3]
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بندہ حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہو جائے ۔ [سنن ترمذي:2451،قال الشيخ الألباني:ضعيف] امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں۔
ابن ابی حاتم میں ہے، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لیے جائیں گے، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بازو میں لے لے گا اور بےحجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ ابوعفیف نے پوچھا متقی کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے۔
ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہو جانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا۔
فرمان ہے: «إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ» [28-القصص:56] الخ یعنی ”اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا“۔
فرماتا ہے: «لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ» [2-البقرة:272] الخ یعنی ”تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں“۔
فرماتا ہے: «مَنْ يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ» [7-الأعراف:186] الخ یعنی ”جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں“۔
فرمایا: «مَنْ يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا» [18-الكهف:17] الخ یعنی ”جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز نہ اس کا کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد“۔
اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کر دینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ» [42-الشورى:52] الخ یعنی ”تو یقیناً سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے“۔
اور فرمایا: «إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ» [13-الرعد:7] الخ یعنی ”تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے“۔
اور جگہ فرمان ہے: «وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ» [41-فصلت:17] الخ یعنی ”ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دے کر پسند کر لیا۔
فرماتا ہے: «وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ» [90-البلد:10] ”ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں“ یعنی بھلائی اور برائی کی۔
تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں۔ اصل میں یہ «وقوی» ہے «وقایت» سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے۔ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔ «خل الذنوب صغیرھا .... وکبیرھا ذاک التقی .... واصنع کماش فوق ارض .... الشوک یحدذر مایری .... لا تحقرن صغیرۃ .... ان الجبال من الحصی» یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ اپنے اشعار میں فرماتے ہیں انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو۔ وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے ۔ [سنن ابن ماجہ:1857،قال الشيخ الألباني:ضعيف]
0%