آپ 72:13 سے 72:17 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
وانا لما سمعنا الهدى امنا به فمن يومن بربه فلا يخاف بخسا ولا رهقا ١٣ وانا منا المسلمون ومنا القاسطون فمن اسلم فاولايك تحروا رشدا ١٤ واما القاسطون فكانوا لجهنم حطبا ١٥ وان لو استقاموا على الطريقة لاسقيناهم ماء غدقا ١٦ لنفتنهم فيه ومن يعرض عن ذكر ربه يسلكه عذابا صعدا ١٧
وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا ٱلْهُدَىٰٓ ءَامَنَّا بِهِۦ ۖ فَمَن يُؤْمِنۢ بِرَبِّهِۦ فَلَا يَخَافُ بَخْسًۭا وَلَا رَهَقًۭا ١٣ وَأَنَّا مِنَّا ٱلْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا ٱلْقَـٰسِطُونَ ۖ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ تَحَرَّوْا۟ رَشَدًۭا ١٤ وَأَمَّا ٱلْقَـٰسِطُونَ فَكَانُوا۟ لِجَهَنَّمَ حَطَبًۭا ١٥ وَأَلَّوِ ٱسْتَقَـٰمُوا۟ عَلَى ٱلطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَـٰهُم مَّآءً غَدَقًۭا ١٦ لِّنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَمَن يُعْرِضْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِۦ يَسْلُكْهُ عَذَابًۭا صَعَدًۭا ١٧
وَّاَنَّا
لَمَّا
سَمِعْنَا
الْهُدٰۤی
اٰمَنَّا
بِهٖ ؕ
فَمَنْ
یُّؤْمِنْ
بِرَبِّهٖ
فَلَا
یَخَافُ
بَخْسًا
وَّلَا
رَهَقًا
۟ۙ
وَّاَنَّا
مِنَّا
الْمُسْلِمُوْنَ
وَمِنَّا
الْقٰسِطُوْنَ ؕ
فَمَنْ
اَسْلَمَ
فَاُولٰٓىِٕكَ
تَحَرَّوْا
رَشَدًا
۟
وَاَمَّا
الْقٰسِطُوْنَ
فَكَانُوْا
لِجَهَنَّمَ
حَطَبًا
۟ۙ
وَّاَنْ لَّوِ
اسْتَقَامُوْا
عَلَی
الطَّرِیْقَةِ
لَاَسْقَیْنٰهُمْ
مَّآءً
غَدَقًا
۟ۙ
لِّنَفْتِنَهُمْ
فِیْهِ ؕ
وَمَنْ
یُّعْرِضْ
عَنْ
ذِكْرِ
رَبِّهٖ
یَسْلُكْهُ
عَذَابًا
صَعَدًا
۟ۙ
3
باب

پھر کہتے ہیں مومن کے نہ تو عمل نیک ضائع ہوں، نہ اس پر خواہ مخواہ کی برائیاں لا دی جائیں، جیسے اور جگہ ہے «فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا هَضْمًا» [20-طه:112] ‏ یعنی ” نیک مومن کو ظلم و نقصان کا ڈر نہیں “۔

پھر کہتے ہیں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض حق سے ہٹے ہوئے عدل کو چھوڑے ہوئے ہیں۔ مسلمان تو نجات کے متلاشی ہیں اور ظالم جہنم کی لکڑیاں ہیں۔ اس کے بعد کی آیت «‏وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَةِ لَاَسْقَيْنٰهُمْ مَّاءً غَدَقًا»[72- الجن:16] ‏، کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ اگر تمام لوگ اسلام پر اور راہ راست پر اور اطاعت الٰہی پر جم جاتے تو ہم ان پر بکثرت بارشیں برساتے اور خوب وسعت سے روزی دیتے۔

جیسے اور جگہ ہے «وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُوْنَ» [5-المائدة:66] ‏ یعنی ” اگر یہ توراۃ وانجیل اور آسمانی کتابوں پر سیدھے اترتے تو انہیں آسمان و زمین سے روزیاں ملتیں “۔

اور فرمان ہے «‏وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ» [7-الأعراف:96] ‏، یعنی ” اگر بستی والے ایمان لاتے متقی بن جاتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے یہ اس لیے کہ ان کی پختہ جانچ ہو جائے کہ ہدایت پر کون جما رہتا ہے اور کون پھر سے گمراہی کی طرف لوٹ جاتا ہے “۔

مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں اتری ہے جبکہ ان پر سات سال کا قحط پڑا تھا، دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر یہ سب کے سب گمراہی پر جم جاتے تو ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے جاتے تاکہ یہ خوب مست ہو جائیں اور اللہ کو بالکل بھول جائیں اور بدترین سزاؤں کے قابل ہو جائیں۔

جیسے فرمان باری ہے «فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ» [6-الأنعام:44] ‏، یعنی ” جب وہ نصیحتیں بھلا بیٹھے تو ہم نے بھی ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے جس وہ مست بن گئے کہ ناگہاں ہم نے انہیں پکڑ لیا اور وہ مایوس ہو گئے “۔

اسی طرح کی آیت «‏اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَل لَّا يَشْعُرُونَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَل لَّا يَشْعُرُونَ» [23-المؤمنون:56-55] ‏، بھی ہے۔

پھر فرماتا ہے ” جو بھی اپنے رب کے ذکر سے بے پرواہی برتے اس کا رب اسے درد ناک سخت اور مہلک عذابوں میں مبتلا کرتا ہے “۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «صَعَدًا» جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں جہنم کے ایک کنوئیں کا نام ہے۔

صفحہ نمبر9898