آپ 16:101 سے 16:102 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
واذا بدلنا اية مكان اية والله اعلم بما ينزل قالوا انما انت مفتر بل اكثرهم لا يعلمون ١٠١ قل نزله روح القدس من ربك بالحق ليثبت الذين امنوا وهدى وبشرى للمسلمين ١٠٢
وَإِذَا بَدَّلْنَآ ءَايَةًۭ مَّكَانَ ءَايَةٍۢ ۙ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوٓا۟ إِنَّمَآ أَنتَ مُفْتَرٍۭ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ١٠١ قُلْ نَزَّلَهُۥ رُوحُ ٱلْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِٱلْحَقِّ لِيُثَبِّتَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَهُدًۭى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ ١٠٢
وَاِذَا
بَدَّلْنَاۤ
اٰیَةً
مَّكَانَ
اٰیَةٍ ۙ
وَّاللّٰهُ
اَعْلَمُ
بِمَا
یُنَزِّلُ
قَالُوْۤا
اِنَّمَاۤ
اَنْتَ
مُفْتَرٍ ؕ
بَلْ
اَكْثَرُهُمْ
لَا
یَعْلَمُوْنَ
۟
قُلْ
نَزَّلَهٗ
رُوْحُ
الْقُدُسِ
مِنْ
رَّبِّكَ
بِالْحَقِّ
لِیُثَبِّتَ
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَهُدًی
وَّبُشْرٰی
لِلْمُسْلِمِیْنَ
۟
3
ازلی بدنصیب لوگ ٭٭

مشرکوں کی عقلی، بے ثباتی اور بے یقینی کا بیان ہو رہا ہے کہ ” انہیں ایمان کیسے نصیب ہو؟ “ یہ تو ازلی بد نصیب ہیں، ناسخ منسوخ سے احکام کی تبدیلی دیکھ کر بکنے لگتے ہیں کہ لو صاحب ان کا بہتان کھل گیا، اتنا نہیں جانتے کہ قادر مطلق اللہ جو چاہے کرے جو ارادہ کرے، حکم دے، ایک حکم کو اٹھا دے دوسرے کو اس کی جگہ رکھ دے۔

جیسے آیت «مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ» [2-البقرة:106] ‏، میں فرمایا ہے۔

” پاک روح (‏یعنی جبرائیل علیہ السلام) اسے اللہ کی طرف سے حقانیت و صداقت کے عدل و انصاف کے ساتھ لے کر تیری جانب آتے ہیں تاکہ ایماندار ثابت قدم ہو جائیں، اب اترا، مانا، پھر اترا، پھر مانا، ان کے دل رب کی طرف جھکتے رہیں، تازہ تازہ کلام الٰہی سنتے رہیں، مسلمانوں کے لیے ہدایت و بشارت ہو جائے، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے راہ یافتہ ہو کر خوش ہو جائیں “۔

صفحہ نمبر4526