پارہ نمبر 10 ایک نظر میں
اس پارے میں سورت انفال کا باقی حصہ ہے ، جس کا ابتدائی حصہ نویں پارے میں گزر گیا ہے۔ اس کے بقیہ حصے میں سورت توبہ کا بیشتر حصہ ہے۔ یہاں ہم سورت انفال کے زیر بحث حصے کا تعارف کرائیں گے اور سورت توبہ کا تعارف آگاز سورت توبہ میں حسب دستور آئے گا۔ انشاء اللہ !
نویں پارے کے آخر میں ہم نے سورت انفال کے تعارف میں اس سورت کے مباحث کے اہم خطوط کو واضح کردیا۔ اس سورت کے حصہ زیر بحث کے خدو خال وہی ہیں جو کے پہلے حصے کے تھے۔ لیکن چونکہ موضوعات بحث مختلف ہیں ، اس لیے ان میں تکرار بالکل محسوس نہیں ہوتا۔ موضوعات کی ترتیب ایسی ہے کہ نظر آتا ہے کہ اس کا پہلا حصہ اس کا پہلا دور تھا اور یہ حصہ دوسرا دور ہے۔ کیونکہ مباحث و موضوعات کے اندر بےحد ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
پہلے حصے کا آغاز یوں ہوا تھا کہ لوگ انفال کے بارے میں سولاات کرتے ہیں اور اس کے بارے میں مسلمانوں کے مابین تنازع کا ذکر ہوا اور اس کے نتیجے میں انفال کی ملکیت اور اختیار تقسیم رسول اللہ کی طرف لوٹا دیا گیا۔ اور لوگو سے کہا گیا کہ ذرا خدا کا خوف کرو اور بتایا گیا کہ حقیقی ایمان کیا ہوتا ہے ؟ اور انہیں دعوت دی گئی کہ اس حقیقی ایمان کی سطح تک بلند ہوجاؤ۔ اس کے بعد انہیں بتایا گیا کہ بدر کے تمام واقعات اللہ کی تقدیر و تدبیر کا مظاہرہ تھا ، سب اسکیم اللہ کی تھی ، امداد سب کی سب اللہ کی طرف سے تھی۔ تمام معرکہ اس لیے درپیش ہوا کہ اللہ کا ارادہ ظاہر ہو ، جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے ، وہ محض کردار تھے۔ اور اللہ کی تقدیر کے آلات تھے۔ اس معرکے کی حققت کے انکشاف کے بعد ان کو پکارا گیا کہ جنگ کے وقت ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا کرو اور انہیں اطمینان دلایا کہ اللہ تمہاری نصرت اور معاونت کرے گا۔ اور تمہارے دشمنوں کو ان کی بد اعمالیوں کی سزا دے گا۔ اس کے بعد انہیں اللہ اور رسول اللہ کے ساتھ خیانت کرنے سے ڈرایا گیا۔ فتنہ مال اور فتنہ اولاد کے بارے میں خبردار کیا گیا اور حضور ﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ کفار کو اس انجام سے خبر دار کردیں جس سے وہ دو چار ہونے والے ہیں۔ اور اگر وہ توبہ کرکے بظاہر دعوت کو قبول کرتے ہیں تو ان کے اقرار کو مان لیا جائے اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیا جائے اور اگر وہ مان کر نہ دیں تو پھر ان سے اس وقت تک لڑآ جائے جب تک دنیا فتنے سے پاک نہیں ہوجاتی اور نظام زندگی صرف اسلامی نہیں ہوجاتا۔
یہ تو تھا خلاصہ پہلے حصے کا ، اب ذرا دیکھئے کہ اس دوسرے حصے میں بھی بات کا آغاز غنائم ہی سے ہوتا ہے اور پھر انہیں ایمان باللہ کی طرف دعوت دی جاتی ہے اور اس کلام پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے جو اس دن نازل ہوا جس دن دو گروہوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ جن حالات میں یہ غنائم تمہارے ہاتھ لگے اس کے لیے اللہ کی تقدیر نے منصوبہ بندی کی تھی اور اس معرکے کے مواقف اور مشاہدات کے کچھ دوسرے پہلو پیش کیے جاتے ہیں جن سے اس تقدیر و تدبیر کی فعالیت نمایاں نظر آتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان در اصل دست قدرت کا پردہ تھے اور بطور آلات کام کرتے تھے۔ اس کے بعد ان کو پکارا جاتا ہے کہ تم کو جب کفار کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑے تو میدان جنگ میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا کرو کیونکہ واقعات کی حقیقت تو تم جان چکے ہو ، اللہ کو ہر وقت یاد رکھو اور اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کرو ، اور ہر قسم کے تنازعات سے بچو ، کیونکہ تنازعات کی صورت میں تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم کمزور ہوجاؤ گے۔ پھر ان کو صبر کی تلقین کی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ جہاد میں کبر و غرور اور خود نمائی سے بچو۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی طرح رویہ نہ اختیار کرو جو گھروں سے گھمنڈ میں نکلے ، طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، حالانکہ ان کے اس فعل کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے۔ اور یہ لوگ شیطان کی مکاری کے جال میں پھنس گئے تھے۔ پھر ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ صرف اللہ پر بھروسہ کریں ، جو قادر ، حکیم اور مدبر ہے اور تمام کام اس کے حکم سے سر انجام پاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو بتایا جاتا ہے کہ وہ کافرین ہیں اور مکذبین کو کس طرح پکڑتا ہے اور یہ پکڑ ان کے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے۔ حصہ اول میں بتایا گیا تھا کہ فرشتے کس طرح میدان جنگ میں اترے تھے اور کس طرح کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے اور ان کو آگے اور پیچھے سے مار رہے تھے ، تو اس دوسرے حصے میں یہ کہا گیا کہ جب فرشتے کفار کی روح قبض کرتے ہیں ، ان کو خوب مارتے ہیں اور حصہ اول میں کہا گیا کہ وہ برے حیوان ہیں اسی طرح اس حصے میں بتایا گیا کہ یہ لوگ عہد کی پابندی نہیں کرتے اور اس موقعہ پر ان کی صفت حیوانیت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس حصے میں نبی ﷺ کو بعض احکام بابت قانون بین الاقوام دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض قوانین حتمی ہیں اور بعض عبوری ہیں۔ اور بعض کی تفصیلات بعد میں سورت توبہ میں آئیں گی۔
یہاں تک تو یہ دوسرا حصہ پہلے حصے کے مماثل ہے۔ یہاں تک کہ موضوعات اور واقعات کی بھی ایک ہی جیسی ترتیب ہے۔ ہاں بعض موضوعات پر ایک جگہ کلام مجمل ہے اور دوسری جگہ مفصل ہے۔ مثلاً اسلامی کیمپ اور غیر اسلامی کیمپوں کے بارے میں بعض احکامات اور معاملات کو مفصل لایا گیا ہے۔
سورت کے آخر میں بعض متفرق موضوعات اور احکامات بھی دیے گئے ہیں جو انہی موضوعات کا تکملہ بحث ہیں جو ان دونوں حصوں میں آگئے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نبی ﷺ اور اہل ایمان پر اپنا یہ احسان واضح کرتے ہیں کہ اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔ حالانکہ فطرتاً یہ لوگ سرکش تھے اور اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو ان کے درمیان یہ تالیف قلب پیدا کرنا کارے دارد۔
اللہ اہل ایمان کو یہ اطمینان بھی دلاتا ہے کہ وہ ان کے لیے کافی ہے۔ اور وہ ان کا حامی و مددگار ہے۔ اس لیے رسول اللہ کے واسطہ سے ان کو کم دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو قتال پر ابھارو۔ اور انہیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی وجہ سے اپنے سے کئی گنا کفار پر غالب ہوں گے۔ اس لیے کہ کفار نافہم قوم ہوتے ہیں اور نافہم اس لیے ہوتے ہیں کہ یہ ایمان نہیں لاتے اور سمجھداری ایمان کے بغیر آ ہی نہیں سکتی بشرطیکہ تم لوگ صبر کرو اور اللہ بھی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
اس کے بعد قیدیوں کے فدیے کے مسائل و احکام ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اے نبی ابھی تم نے کفار کو روند نہیں ڈالا اور نہ ہی ان کی قوت اور شوکت کو توڑا ہے ، لیکن تم نے فدیہ قبول کرلیا ہے ، یہ اچھا نہیں کیا ہے۔ کیونکہ تمہاری قوت اور سلطنت ابھی مضبوط نہیں ہوئی ہے۔ لہذا یہاں بتایا جاتا ہے کہ مختلف حالات میں مختلف منہاج اختیار کیا جاتا ہے ، لہذا تحریک اسلامی کی پالیسی کے اندر لچک رکھی گئی ہے تاکہ مختلف حالات میں مختلف پالیسیاں اختیار کی جاسکیں۔ یہاں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کریں ؟ کس طرح انہیں ایمان کی طرف مائل کریں اور ان کے دلوں میں ایمان کو مزین کریں۔ اگر یہ قیدی پھر خیانت کریں گے تو جس طرح اللہ نے پہلے انہیں شکست دی اسی طرح دوبارہ بھی شکست دے گا۔ اور وہ رسول اللہ کے سامنے ذلیل ہوں گے۔
آخر میں وہ اصول ذکر ہوتے ہیں جن کے اوپر جماعت مسلمہ کے افراد نے باہم تعلقات کو استوار رکھنا ہے۔ نیز ان لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے میں جو دار الاسلام کو تو نہیں آے لیکن اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ پھر کفار کے ساتھ تعلقات کے احکام ، ان تمام احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا اجتماعی نظام کیا نوعیت رکھتا ہے ؟ اور اسلامی نظام کی پالیسی کیا ہے ؟ ان احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی نظام ایک متحرک نظام ہے۔ اور یہ اسلامی نظام کا بنیادی اصول ہے کہ وہ متحرک رہے گا۔ اور اس کی اس حرکت سے ہی اس کے داخلی اور خارجی احکام وضع ہوتے رہیں گے۔ اس لیے اسلامی نظام میں اسلامی نظریات کو تحریکیت اور عملی وجود سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی معاشرے کا ہر دور اور ہر قسم کے حالات میں ایک عملی وجود ضروری ہے۔
اس مختصر تمہید میں اس قدر تبصرہ کافی ہے ، لہذا اب ہم آیات کی تفصیلات کو لیتے ہیں۔
درس نمبر 85 ایک نظر میں
اس سبق کے آغاز اور سابق سبق کے خاتمے کے درمیان سلسلہ کلام مسلسل اور مربوط ہے۔ نویں پارے کے آخر میں قتال کا حکم دیا گیا تھا۔ اور اس سبق میں احکام قتال کا بیان جاری ہے۔ سابق پارے کے آخر میں خاتمہ کلام یہ تھا۔
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ ۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ ۔ وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۔ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَوْلٰىكُمْ ۭنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ ۔ اے نبی ! ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آجائیں تو جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اس سے درگزر کرلیا جائے گا۔ لیکن اگر یہ اسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے ، وہ سب کو معلوم ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رک جائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے۔ اور اگر وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سر پرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ اس نص صریح کے ذریعے جہاد کے مقاصد کو متعین کردیا گیا کہ یہ جہاد و قتال اللہ کے لیے۔ یہ دعوت اسلامی کے مقاصد کے لیے ہے۔ اور اسلامی نظام حیات قیام کے لیے ہے۔ اور اس کے باوجود کہ انفال کی ملکیت کے بارے میں سورت کے آغاز ہی میں ایک دو ٹوک فیصلہ کردیا گیا کہ یہ اللہ اور رسول اللہ کی ملکیت ہیں۔ اور مجاہدین کو ان کے بارے میں دلچسپی لینے سے پاک کردیا گیا تاکہ ان کے اندر خلص نیت پیدا ہو اور ان کی تمام حرکات و سکنات اللہ کے لیے ہوجائیں ، لیکن ان سب امور کے باوجود اسلامی نظام حیات کے ان اموال کے بارے میں منظم اور حققت پسندانہ احکام بھی عطا کرتا ہے ، کیونکہ اموال غنیمت موجود ہیں اور مستحق مجاہدین بھی موجود ہیں اور یہ مجاہدین اپنے اموال اور اپنی جانوں کو اللہ کی راہ میں کھپا رہے ہیں۔ وہ رضاکارانہ طور پر جہاد میں شریک ہیں اور اپنے اخراجات خود برداشت کر رہے ہیں اور دوسرے رضا کار مجاہدین میں سے جو لوگ نادار ہیں ان کے اخراجات بھی وہ خود برداشت کرتے ہیں۔ پھر یہ لوگ اس معرکے میں اموال غنیمت پر قبضہ کرتے ہیں۔ اور اپنے صبر و ثبات اور سعی و جہاد کی وجہ سے یہ اموال حاصل کرپاتے ہیں اور ان کے دلوں کو اللہ نے ان اموال غنیمت کے بارے میں ہر قسم کی حرص و آز سے پاک بھی کردیا ہے کہ ان کی ملکیت اللہ رسول اللہ کی طرف منتقل کردی ہے۔ لہذا اب اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ان اموال میں سے ایسے لوگوں کو بھی حصہ دیا جائے جبکہ وہ سمجھتے ہوں کہ یہ اللہ اور رسول اللہ کی طرف سے خالص عطیہ ہے۔ اور یہ محض اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کی حققی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ ان کے جذبات انسانی کی تسکین بھی ہو اور اس میں کوئی انفرادی یا اجتماعی چھینا جھپٹی بھی نہ ہو۔ کوئی تنازعہ نہ ہو کیونکہ سورت کے آغاز میں حکم دے دیا گیا ہے کہ اصل مالک اللہ و رسول اللہ ہیں۔
یہ اسلامی نظام حیات ہے اور یہ انسانوں کے مزاج کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اس لیے وہ اس متوازن اور جامع انداز میں اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ اس سے انسان کے جذبات کی تسکین بھی ہوتی ہے اور اس کی حقیقی حاجات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ معاشرے کے افراد کے دل بھی ایک دوسرے سے صاف رہیں۔ اجتماعی عدل کے تقاضے بھی پورے ہوں اور اموال غنیمت باعث شر نہ ہوں ، بلکہ باعث رحمت ہوں۔
درس نمبر 85 تشریح آیات 41 تا 54 ۔
تفسیر آیت نمبر 41:
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ۔
اور ت میں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز ، یعنی دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی ، (تو یہ حصہ بخوشی ادا کرو) اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اس آیت کے بارے میں جو روایات آئی ہیں ان میں طویل فقہی اختلافات مذکور ہیں۔ پہلا اختلاف غنائم کے مفہوم و مدلول کے بارے میں ہے۔ پھر انفال کے مدلول و مفہوم کے بارے میں ہے کہ آیا یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا دو مختلف چیزیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ پھر چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بعد پانچویں حصے کے بارے میں بھی اختلافات ہیں کہ یہ حصہ کیسے تقسیم ہوگا۔ تیسرے یہ کہ پانچویں کے پانچویں حصے کے بارے میں جو اللہ کے لیے ہے کہ آیا یہ مستقل خمس ہے یا وہی ہے جو رسول اللہ کے لیے ہے۔ چوتھے یہ کہ آیا رسول اللہ کا حصہ خاص آپ کی ذات کے لیے ہے یا آپ کے بعد دوسرے ائمہ کو بھی یہ حق حاصل ہوگا۔ پانچویں یہ کہ قرابت داروں کا جو حصہ ہے کیا وہ اب بھی رسول اللہ کے قرابت داروں کے لیے باقی ہے یعنی بنوہاشم اور بنی عبدالمطلب کے لیے جیسے کہ آپ کے دور میں تھا یا اب یہ ختم ہے۔ اور اس کا تصر بھی رسول اللہ اور آپ کے بعد خلفاء کو حاصل ہے۔ اور اسی قسم کے دوسرے فروعی اختلافات ہیں۔
فی ظلال القرآن میں ہم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے ، اس کے مطاباق ہم ان فروعی فقہی اختلافات میں نہیں جاتے ، کیونکہ مناسب یہی ہے کہ یہ فقہی اختلافات ان کتابوں میں پڑھے جائیں جو مخصوص طور پر ان موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ یہ تو تھی ایک عمومی بات۔ لیکن اموال غنیمت کے بارے میں خصوصاً اب جو صورت حالات موجودہ وہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہمارے سامنے کوئی واقعی اور عملی مسئلہ موجود نہیں ہے۔ جو حل طلب ہو ، نہ کوئی عملی مسئلہ موجود ہے ، نہ کوئی اسلامی مملکت موجود ہے ، نہ کوئی ایسی جماعت موجود ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر رہی ہو اور ان کے ہاتھ کچھ مال غنیمت لگ گیا ہو۔ اور اسے ضرورت پیش آگئی ہو کہ ان کو کس طرح تقسیم کیا جائے۔ زمانہ اس طرح پھر گیا کہ اس دین کی حالت وہ ہوگئی جس طرح یہ پہلے دن دنیا میں اتارا گیا تھا۔ اس وقت لوگمکمل طور پر جاہلیت کی طرف لوٹ گئے تھے۔ وہ اللہ کے ساتھ کئی ارباب کو شریک کر رہے تھے۔ یہ ارباب لوگوں کو قانونی نظام دے رہے تھے۔ اس دین کی حالت بعینہ ابتدائی حالات جیسی ہوگئی ہے اور ہمارا فرض یہ ہے کہ لوگ اس میں نئے سرے سے داخل ہوں۔ وہ نئے سرے سے کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھیں۔ اللہ کو وحدہ لا شریک اور واحد حاکم مطلق سمجھیں۔ صرف رسولا للہ ﷺ کی سنت سے ہدایات حاصل کریں اور ایک ایسی جماعت کی صورت میں زندگی بسر کریں جس کا نصب العین یہ ہو کہ یہ دین از سر نو قائم ہوجائے اور ایسے تمام لوگ اپنی اس جدید جماعت اور قیادت کے پوری طرح وفادار ہوں اور ایسی وفاداری اور اطاعت وہ کسی بھی جاہلی قیادت و شہادت کے ساتھ نہ رکھیں۔
یہ ایک واقعی اور زندہ مسئلہ ہے جو اس دین کو درپیش ہے۔ ابتدائی طور پر اس کے سوا اس دین کو کوئی اور مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ یہاں اموال غنیمت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس وقت کسی جگہ بھی جہاد کا عمل جاری نہیں ہے بلکہ کسی بھی جگہ اسلام کو کوئی انتظامی مسئلہ درپیش نہیں ہے نہ داخلی تعلقات میں اور نہ خارجی تعلقات میں اور اس کی وجہ بہت سادی اور سمجھ میں آنے والی ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں کسی بھی ملک میں اسلامی معاشرہ موجود نہیں ہے جس کا مستقل وجود ہو اور جس کے اندر باہی تعلقات کے لیے اور دوسرے معاشروں کے ساتھ اس کے روابط کے لیے کچھ احکام و ہدایات کی ضرورت ہو۔
اسلامی نظام حیات ایک عملی نظام ہے۔ اسلامی نظام ایسے مسائل و قضایا سے بحث ہی نہیں کرتا جو عملاً موجود نہ ہوں۔ اس لیے وہ ایسے مسائل سے بحث نہیں کرتا جو عملاً موجود نہ ہوں۔ یہ اس قدر حقیقت پسندانہ ، عملی نظام ہے جو اس قسم کی لاحاصل بحثوں سے اجتناب کرتا ہے۔ محض خیالی باتیں کرنا اس نظام کا طریقہ کار نہیں ہے۔ یہ ان نکمے لوگوں کا کام ہے جو فارغ ہوتے ہیں اور جن کے سامنے کرنے کا کوئی عملی کام نہیں ہوتا۔ اور اپنے خالی اوقات کو وہ محض نظری اور خالص تصوراتی باتوں میں صرف کرتے ہیں۔ ایسے موضوعات جن کا عملی وجود اس دنیا میں نہیں ہوتا ایسے لوگوں کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنی مساعی اور اپنی قوتوں کو اسلامی نظام حیات کے قیام کے کام میں کھپائیں۔ اور ایک اسلامی معاشرہ عملاً وجود میں لائیں۔ اور یہ کام بھی وہ اسلامی نظام کے قیام کے طریقہ کار کے مطابق سر انجام دیں۔ یعنی سب سے پہلے وہ لوگوں کو کلمہ شہادت کی طرف بلائیں۔ لوگ دین اسلام میں از سر نو داخل ہونے کا اعلان کریں۔ جس طرح مکہ مکرمہ میں سب سے پہلے اس کام کا آغاز ہوا تھا۔ ایک تحریک برپا ہوئی تھی ، اس کی اپنی ایک قیادت تھی ، اور یہ جماعت اپنے ارگرد پھیلے ہوئے جاہلی معاشرے سے کٹ کر آئی تھی۔ پھر اس کے اور اس جاہلی معاشرے کے درمیان کشمکش برپا ہوئی اور اس کے بعد اللہ نے حق کو سر بلندی نصب فرما دی اور ایک اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ تب جا کر ایسے لوگوں کو غنائم اور انفال کے مسائل کی ضرورت ہوگی جب وہ عملاً ان کے سامنے پڑے ہوں گے تاکہ لوگوں کے درمیان معاملات کا تصفیہ اسلامی قانون کے مطابق ہو ، اور جب اسلامی ریاست قائم ہوگی تو پھر اس کے اور دوسری ریاستوں کے درمیان تعلقات کے لیے احکام سامنے آئیں گے۔ اب دور جدید میں اگر کچھ مسائل پدا ہوگئے تو وقت کے مجتہدین ان کے لیے حل تلاش کریں گے ، خواہ یہ مسائل داخلی ہوں یا خارجی۔ صرف اسی وقت اجتہادات کی کوئی قدر و قیمت ہوگی ، کیونکہ یہ ایک حقیقت پسندانہ اور واقعی اجتہاد ہوگا۔
ہم چونکہ اسلامی نظام حیات کے اس عملی پہلو کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ اس لیے ہم یہاں غنائم و انفال کے بارے میں ان فقہی اختلافات میں نہیں پڑتے جو ان کے بارے میں فقہی کتابوں میں موجود ہیں۔ ایک وقت ضرور آئے گا کہ ان کے بارے میں تحقیقات ہوں گی۔ اسلامی معاشرہ موجود ہوگا اور وہ عملاً جہاد پر عمل پیرا ہوگا اور اس میں غنائم و انفال کے احکام ہمارے سامنے آئیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تحریک اسلامی کے تاریخی عمل کو دیکھتے ہوئے ایمانی اصول کو اپنائی اور اسلام کے منہاج تربیت کو پیش نظر رکھیں۔ اس کتاب کا یہ ایک دائمی خاصہ ہے جو مرور زمانہ سے متاثر نہیں ہوتا۔ دوسرے جو بھی طریق کار اور مسائل ہیں وہ اس کی تشریحات ہیں حکم عام جو اس آیت سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے : وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ " اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے "
خلاصہ حکم یہ ہے کہ غنیمت کی ہر چیز سے چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور پانچویں حصے میں رسول اللہ کو اختیار ہوگا کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں اور آپ کے بعد ایسے سربراہان مملکت کو یہ اختیار ہوگا جو شریعت پر قائم ہوں اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتے ہوں اور وہ اس حصے کو ان مصارف پر خرچ کریں گے۔ اللہ کی راہ میں ، رسول اللہ پر ، رشتہ داروں پر ، یتیموں پر ، مسکینوں پر۔ اس طرح یہ مد موجودہ لوگوں کی حقیقی ضروریات کو پورا کرے گی۔ یہاں بس اس قدر کہنا ہی کافی ہے۔
اس کے بعد کوئی دائمی ہدایت یہ ہے یعنی آیت کا دوسرا حصہ۔
اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ " اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز ، یعنی دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی (تو یہ حصہ بخوشی ادا کرو) اللہ ہر چیز پر قادر ہے "۔
ایمان کی بعض علامات ہوتی ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ شخص مومن ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل بدر کے ایمان کے اعتراف کے لیے بھی دلیل یہ دیتا ہے کہ انہوں نھ غنائم و اموال کے بارے میں اللہ کی شریعت کو چونکہ تسلیم کرلیا ہے اس لیے وہ مومن حالانکہ اہل بدر اہل بدر تھے اور وہ مومن اس لیے بن گئے کہ انہوں نے یوم الفرقان میں اللہ کے بندے پر نازل ہونے والے احکام کو تسلیم کیا۔ گویا قانون شریعت کو تسلیم کرنا اللہ کے نزدیک شرط ایمان ٹھہرا اور اطاعت شریعت کو ان کے ایمان کا مقتضا قرار دیا تاکہ معلوم ہو کہ ان کا اعلان ایمان درست ہے۔
غرض ایمان کا مفہوم قرآن کریم میں بہرحال دو ٹوک ہے ، اس میں کوئی لچک نہیں ہے ، نہ اس میں تاویل اور پیوند کاری کی ضرورت ہے۔ نہ ان موشگافیوں کی ضرورت ہے جو بعض میں فقہی مباحث کی وجہ سے پیدا کردی گئیں۔ اس وقت جبکہ فقہی مذاہب وجود میں آئے اور انہوں نے نصوص کے اندر طرح طرح کی تاویلات پیدا کیں اور لوگوں نے ان فقہی اور دینی موضوعات پر منطقی اور کلامی انداز میں مفروضوں کی شکل میں جدل وجدال شروع کردیا۔ بعد کے ادوار میں انہی فقہی اور کلامی اختلافات کی وجہ سے ہر فرقے نے دوسرے پر الزامات لگائے اور دوسروں نے ان الزامات کے جوابات دیے۔ پھر لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف کفر کی نسبت کرنا شروع کردی اور دوسروں نے جواب دینا شروع کردیا اور یہ تمام جدل وجدال دین کے واضح اصولوں پر قائم نہ تھا ، بلکہ یہ سب مباحث ذاتی اغراض ، ہوا و ہوس اور مخالفین کے عناد اور دشمنی پر مبنی تھا۔ اور اب کیا تھا کفر کے فتو وں کے بازار گرم ہوئے اور فروعی مسائل پر بحثیں ہوئیں۔ پھر ان الزامات کا جواب تشدد سے دیا جانے لگا اور لوگ ان الزامات میں بہت ہی سختی کرنے لگے۔ یہ غلو ان خاص تاریخی اسباب و عوامل کی وجہ سے ہوتا رہا۔ دین اسلام تو وہ بالکل واضح ہے۔ اس میں کوئی لچک نہیں ہے ، نہ اس میں پیوند کاری ہے اور اس میں غلو ہے حدیث میں آتا ہے لیس الایمان۔۔۔ ایمان محض تمناؤں کا نام نہیں ہے ، بلکہ ایمان یہ ہے کہ وہ دل میں بیٹھ جائے اور عمل اس کی تصدیق کرے۔ ایمان کے قیام کے لیے یہ ضروری ہے کہ اللہ نے جو قانون بنایا ہے اس کو عملاً زندگی میں نافذ کیا جائے اور کفر یہ ہوگا کہ اللہ نے جو قانون بنایا ہے ، اسے ترک کردیا جائے ، اللہ کے قوانین کے ماسوا دوسرے قوانین کے مطابق فیصلے کرنا اور شریعت کے سوا دوسری عدالتوں سے فیصلے کرانا کفر ہے۔ خواہ چھوٹے معاملات ہوں یا بڑے معاملات ہوں۔ یہ ہیں خدا و رسول کے سادہ ، دو ٹوک اور واضح احکام۔ اس کے ما سوا جو بھی آرا ہوں گی وہ محض تاویلات اور مذہبی اختلافات کا نتیجہ ہیں۔
یہ ہے ایک واضح مثال ، جس میں اللہ تعالیٰ واضح ، دو ٹوک ، تاکیدی انداز میں فرماتے ہیں ۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : اور ت میں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز ، یعنی دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی۔
بعینہ ہی مثال ہے ان تمام ہدایات و اعلانات کی جو قرآن مجید میں ایمان اور اس کی حدود وقیود اور اس کے تقاضوں کے بارے میں بالکل واضح طور پر دی گئی ہیں اور جو بالکل دو ٹوک اور فیصلہ کن ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اموال غنیمت کی ملکیت ان لوگوں سے لے کر جنہوں نے ان کو جمع کیا تھا اللہ اور رسول اللہ کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ جیسا کہ سورت کے آغاز میں بصراحت بتلایا گیا تاکہ اس معاملے کا مکمل اختیار اللہ اور رسول اللہ کی طرف منتقل ہوجائے اور مجاہدین کے دل اور عزائم ان آلودگیوں سے بالکل پاک ہوجائیں جن کا تعلق اس دنیا سے ہے اور اپنا معاملہ اول سے لے کر آخر تک اللہ اور رسول اللہ کے سپرد کردیں۔ اللہ ان کا رب ہے اور رسول ان کا قائد ہے اور وہ صرف اللہ کے لیے اس معرکہ میں شریک ہوں ، صرف اللہ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں۔ اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے وہ اپنی روح ، اپنے جسم اور اپنے اموال میں اللہ و رسول اللہ کے احکام کو تسلیم کریں۔ اور اپنے تمام امور میں اللہ و رسول اللہ کے فیصلوں کو بےچون و چرا تسلیم کریں۔ یہ ہے حقیقت ایمان۔ اس سورت کے آغاز میں جب لوگوں سے ان کا حق ملکیت غنیمت لے کر رسول اللہ ﷺ کو دیا جا رہا تھا تو ان سے یوں خطاب کیا گیا تھا۔
يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ۔ " تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں کہو یہ انفال تو اللہ اور اس کے رسول کے ہیں ، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اگر تم مومن ہو "
اور اس کے بعد جب انہوں نے سر تسلیم خم کرلیا اور اللہ کے اس حکم پر راضی ہوگئے ان کے دلوں میں حقیقت ایمان جاگزیں ہوگئی تو اللہ نے پانچ حصوں میں چار پھر ان تک لوٹا دیے اور پانچویں حصے کو علی حالہ چھوڑ دیا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں اس حصے سے جماعت مسلمہ کے مستحقین رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کیا جائے گا۔ اب چار حصے جب ان کی طرف لوٹائے گئے تو اس وقت ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ اللہ کا مال ہے۔ یہ جہاد اور فتح و نصرت کی وجہ سے ان کی ملکیت نہیں بن گیا۔ کیونکہ جہاد و غزی اللہ کے لیے ہے اور فتح و نصرت ان کی نہیں اللہ کے دین کی ہے۔ یہ جو اس کے مستحق ہوگئے ہیں تو یہ محض عطائے الٰہی ہے۔ جیسا کہ فتح و نصرت بھی عطائے الٰہی ہے۔ کیونکہ اس معرکے کی تمام اسکیم اللہ نے اپنے ہاتھوں سے تیار فرمائی اور مکرر ان کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی اللہ کے اس جدید حکم کو تسلیم کرنا بھی امر الہی کا تقاضا ہے اور عین ایمان ہے یہ ایمان کی شرط ہے۔ یہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ ذرا دوبارہ غور کیجیے۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۔ اور ت میں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز ، یعنی دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی۔
یہ آیات مسلسل ایک واضح دو ٹوک اور فیصلہ کن اصول کو متعین کرتی ہیں جس کا تعلق اصول دین سے ہے۔ ان میں ایمان کے مفہوم و مدلول کو متعین کیا گیا ہے۔ ایمان کی حقیقت اس کی شرائط اور اس کے تقاضوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہاں حضور اکرم ﷺ کے لی لفظ " عبدنا " کا استعمال کیا گیا ہے۔ " اپنے بندے " اور یہ لفظ اس صورت حال کے درمیان استعمال ہوا ہے جبکہ ابتداء تمام انفال و غنائم کا اختیار رسول اللہ کو دے دیا گیا اور پھر چار حصوں کو چھوڑ کر پانچویں حصے کا اختیار آپ کو دے دیا گیا (علی عبدنا) میں بھی یہی اشارہ ہے کہ عبدیت اور بندگی بھی حقیقت ایمان کا ایک حصہ ہے اور (عبدنا) کا مقام وہ بلند مقام ہے جس تک کبھی کوئی بندہ پہنچ سکتا ہے۔ اور یہ بات اس ماحول میں کی جا رہی ہے جس میں حضور کا رم کو تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کے انتظامی اختیارات بھی دیے جا رہے ہیں۔۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مقام فی الواقعہ ایک بلند مقام ہے جس کتب کبھی کوئی پہنچ سکتا ہے کہ وہ دین دنیا کے اختیارات کا بھی مالک ہو اور مقام عبدیت پر بھی فائز ہو۔
صرف اللہ کی بندگی ہی انسان کو اپنی خواہشات کی بندگی کے مقام سے بلند کرسکتی ہے۔ اسی طرح یہی بندگی انسان کو دوسرے انسانوں کی بندگی سے بچا سکتی ہے۔ اور انسان انسانیت کی اعلی شرف و برتری پر صرف اسی صورت میں فائز ہوسکتا ہے جب وہ اللہ کے سوا تمام لوگوں کی غلامی سے محفوظ ہو۔
جو لوگ اللہ وحدہ کے غلام بننے سے سرتابی کرتے ہیں ، وہ اسی وقت ذلیل ترین غلامیوں کا جوا پہن لیتے ہیں۔ وہ اپنی خواہشات نفسانیہ اور سفلی میلانات کے غلام بن جاتے ہیں اور اس کا فوری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے صرف انسان کو جو وصف دیا تھا کہ وہ متحرک بالارادہ ہے ان کا یہ وصف اسی وقت ختم ہوجاتا ہے جب ان کو اپنے ارادے پر کنٹرول نہیں رہتا تو وہ مطلق حیوان بن جاتے ہیں بلکہ وہ ان حیوانات سے بھی ذلیل تر ہوجاتے ہیں اور وہ اسفل سافلین بن جاتے ہیں جبکہ اللہ نے انہیں احسن تقویم میں پیدا کیا تھا۔
نیز جو لوگ اللہ کی غلامی سے روگردانی کرتے ہیں وہ دوسری خطرناک غلامیوں میں جکڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنے جیسے انسانوں کی غلامی اختیار کرتے ہیں۔ یہ انسان آقا ان لوگوں کی زندگیوں کو اپنی خواہشات اور مقاصد کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ ان کی نظر کوتاہ جن نظریات کو پا سکتی ہے وہ ان لوگوں کی راہنمائی ان نظریات کی طرف کرتے ہیں اور ان نظریات کے پیچھے صرف یہ نظریات اور مقاصد ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انسان آقا اپنی برتری قائم کرتے ہیں اور لوگوں کی زندگی جاہلانہ نقائص سے پر اور خود سری پر مبنی ہوتی ہے۔
یہ انسان آقا ان کے لیے اصول موضوعہ تجویز کرتے ہیں اور کہتے ہیں اور انہیں باور کراتے ہیں کہ ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ ان کے سامنے سرتسلیم خم کردیں او ان اصولوں کی مخالفت نہ کریں۔ بعض اصول تاریخی جدلیات پر مبنی ہیں بعض اقتصادی حقائق پر مبنی ہیں ، بعض طبیعی ارتقاء پر مبنی ہیں غرض یہ اور اس قسم کی دوسری غلامیاں جو مادیت نے انسان پر مسلط کردی ہیں اور انسان ان کی دلدل میں اس طرح پھنس گیا ہے کہ نہ وہ ان سے نکلنا چاہتا ہے اور اگر چاہے تو اسے کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ اور وہ ان خود ساختہ اٹل اصولوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اور خوفناک جبریت کے تحت زندگی بسر کر رہا ہے۔
اس کے بعد یہاں دوسرا لفظ بھی نہایت ہی اہم ہے۔ یہاں بدر کے لیے یوم الفرقان کہا گیا ہے۔ یوم الفرقان یوم التقی الجعن " فیصلے کے دن یعنی دونون فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن "۔ حقیقت یہ ہے کہ بدر کا دن فی الواقعہ ایک فیصلہ کن دن تھا۔ اس دن کے بارے میں پوری اسکیم اللہ نے تیار کی تھی اور اللہ کی نصرت و ہدایت کے مطابق اس میں کام ہوا۔ یہ دن حق و باطل کے درمیان فیصلے کا دن تھا۔ یہی بات مفسرین نے اجمالاً کہی ہے۔ یہ دن فیصلے کا دن تھا۔ اس لیے کہ اس کے نتائج نہایت ہی گہرے ، دور رس اور ہمہ گیر تھے۔
یہ دن عملاً حق و باطل کے درمیان فیصلے کا دن تھا۔ لیکن اس دن فیصلہ اس حقیقی سچائی اور باطل کے درمیان تھا۔ جس پر زمین و آسمان عملاً برپا ہیں۔ اس سچائی پر تمام اشیاء اور تمام زندہ مخلوقات کی فطرت استوار ہوئی ہے۔ وہ سچائی جو اللہ کی ذات کو وحدہ تسلیم کرتی ہے ، اللہ ہی کو بادشاہ تسلیم کرتی ہے اور اسے اس عالم کا مدبر متصرف تسلیم کرتی ہے ، وہ سچائی جو یہ سکھاتی ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کی بندہ و غلام ہے۔ اس کائنات کے آسمان اس کی زمین ، اس کی چیزوں اور اس کی زندہ مخلوق سب میں اللہ وحدہ متصرف ہے۔ اور یہ سب چیزیں اللہ کی الوہیت ، اس کی بادشاہت اور اس کی تکوینی حکومت کے تحت ہیں اور کوئی اس سے سرتابی نہیں کرسکتا۔ اور باطل کون سا باطل ہے ؟ اس سے مراد وہ باطل ہے جو کھوٹا ہے اور جو اس وقت یوم بدر کے وقت دنیا پر چھایا ہوا تھا ، اور اس نے اس عظیم سچائی کو دبایا ہوا تھا۔ اور اس باطل نے کرہ ارض کے اوپر ایسی طاغوتی طاقتیں پیدا کردی تھیں جو لوگوں کی زندگی کے معاملات میں جس طرح چاہتی تھیں ، فیصلے کرتی تھیں۔ اس نظام باطل میں یہ لوگوں کی خواہشات ہی تھیں جو اشیاء و احیاء سب کی قسمتوں کے فیصلے کرتی تھیں۔ یہ تھا وہ عظیم فیصلہ جو اس دن ہوا۔ یعنی عظیم بدر کے دن یعنی اس دن اس عظیم سچائی اور اس ہمہ گیر باطل کے درمیان فیصلہ کن معرکہ پیش آیا۔ ان کے درمیان یوم بدر میں ایسا فیصلہ اور فاصلہ ہوا کہ آئندہ کبھی ان کے درمیان کوئی التباس اس اشتراک نہ ہوا۔
یہ دن حق و باطل کے درمیان نہایت ہی وسیع اور گہرے معنوں میں ایک فیصلہ کن دن تھا۔ نہایت ہی دقیق اور لطیف معنوں میں۔ انسان کے ضمیر کی گہرائیوں میں حق و باطل کے درمیان فیصلہ تھا۔ انسانی تصورات اور شعور کے میدان میں وحدانیت اور شرک کے درمیان یہ فرقان تھا۔ انسانی اخلاق اور طرز عمل میں حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن دن تھا ، اللہ کی عبادت اور بندگی میں حق و باطل کے درمیان یہ فیصلہ کن معرکہ تھا۔ توحید اور شرک کی تمام شکلوں اور صورتوں کے درمیان یہ فیصلہ کن دن تھا ، چاہے اس کا تعلق اشخاص سے ہوا ، اقدار سے ہو ، رسم و رواج اور عادات سے ہو یا کسی اور شکل سے ہو۔ اور ظاہری واقعہ کے اعتبار سے بھی اس حق اور اس باطل کے درمیان یہ فیصلہ کن دن تھا۔ اس دن خواہشات اور اشخاص کی بندگی اور اقدار اور تہذیب کے درمیان جنگ تھی ، ایک طرف ذاتی اغراض تھیں اور دوسری طرف الہی قوانین تھے اور ایک طرف صرف اللہ وحدہ کی حاکمیت ، الوہیت اور اقتدار اعلی کے نظریات تھے اور دوسری جانب انسان پر انسانوں کی برتری تھی۔ چناچہ یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی نفع و نقصان دینے والا نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے ، اس کے سوا کوئی قانون ساز نہیں ہے۔ اب لوگوں کے سر بلند ہوگئے۔ اب وہ کسی غیر کے سامنے نہ جھکتے تھے ، لوگ سب کے سب باہم مساوی قرار پائے۔ ان پر اگر کوئی برتری تھی تو اللہ اور اس کے قانون کی تھی۔ اب لوگ غول در غول اٹھتے اور آزادی کے جھنڈے بلند کرتے ، اور ظالموں اور سرکشوں سے نجات پاتے۔
یہ دن تحریک اسلامی کی تاریخ میں دو ادوار کے درمیان ایک حد فاصل تھا۔ پہلے تحریک صبر اور برداشت کے اصولوں پر عمل پیرا تھی ، وہا پنی قوتوں کو مجتمع کر رہی تھی۔ اب تحریک اسلامی کی قوت ، آغاز کار اور ترقی کا دور شروع ہوا ، اسلام نے پوری زندگی کے لیے ایک جدید تصور دیا۔ انسانی معاملات کے طے کرنے کے لیے ایک جدید نظام دیا ایک جدید اجتماعی نظام پیش کیا گیا ۔ حکومت کے لیے ایک نیا سیاسی نظام اور دستور تجویز ہوا۔ اور یہ اعلان کردیا گیا کہ اب کوئی انسان دوسرے انسان کا غلام نہ ہوگا۔ سب کے سب صرف اللہ رب العالمین کے غلام ہوں گے۔ اور اب ان طاغوتی قوتوں کو زندہ رہنے کے لیے کوئی جواز نہیں ہے جنہوں نے اللہ کے حق حاکمیت کو غصب کرلیا ہے۔ اسلام کے ایسے نظریہ کے لیے ضروری تھا کہ اس کی اپنی قوت ہو ، وہ ایک تحریک ہو ، وہ اقدامی پوزیشن رکھتا ہو اور آگے پڑھنے کی سکت اس میں ہو ، اس لیے کہ اسلام ایسے نظریات رکھتے ہوئے خاموش تماشا ائی بن کر رہنے کی پوزیشن اختیار نہیں کرسکتا اور پھر غیر معین عرصے تک۔ اسلام کا منشا یہ نہ تھا کہ وہ اس کے حاملین کے لیے محض ایک تصور اور عقیدہ رہے۔ یا اس کا ظہور چند مراسم عبودیت ہی میں ہو یا اس کے مخصوص انفرادی اخلاق ضوابط ہوں ، لہذا اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ جدید اخلاقی تصورات دے ، وہ جدید نظام دے ، جدید حکومت دے اور ایک جدید معاشرے کی بنیاد رکھے ، اور یہ سب مظاہر عملی ہوں۔ پھر وہ اپنے ان اہداف کے حصول کے لیے وہ تمام رکاوٹیں دور کردے جو ان مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بنیں اور مذکورہ بالا اصول کو مسلمانوں کی زندگی میں نافذ نہ ہونے دیں یا اس کرہ ارض پر اسے رائج نہ کرنے دیں حالانکہ اسلام اللہ کی طرف سے آیا ہی اس لیے تھا کہ دنیا میں نافذ ہو (تفصیلات کے لیے دیکھیے سورت انفال)
یہ دن پوری انسانی تاریخ میں بھی یوم الفرقان تھا۔ اس لیے کہ اس سے قبل جو انسانیت کرہ ارض پر بستی تھی ، مجموعی اعتبار سے وہ اس انسانیت سے مختلف تھی۔ جو اس دن کے بعد آنے والے نظام میں نمودار ہوئی۔ یہ جدید تصور اور نظریہ جس کے نتیجے میں یہ جدید نظام تشکیل پایا اس جدید نظام نے انسان کو جو تصورات عطا کیے اور اس کے نتیجے میں جو نیا انسان نمودار ہوا ، یہ در اصل پوری انسانیت کے لیے ایک نیا جنم تھا۔ یہ اقدار جن پر پوری زندگی استوار ہوتی ہے ، اسی کی اساس پر اجتماعی نظام بھی تیار ہوتا ہے اور اسی کی اساس پر قانونی نظام بھی تیار ہوتا ہے۔ یہ تمام امور جنگ بدر کے صرف مسلمانوں کا اثاثہ نہ رہے جبکہ جدید اجتماعی نظام قائم ہوگیا تھا بلکہ آہستہ آہستہ یہ اقدار تمام انسانیت کا اثاثہ بن گئیں۔ اس تبدیلی سے انسانیت جس طرح دار الاسلام کے اندر متاثر ہوئی ، اسی طرح دار الاسلام کے باہر بھی انسانیت اس سے متاثر ہوئی۔ اسلام کی دوستی میں بھی لوگ اس سے متاثر ہوئے اور اسلام کی دشمنی میں بھی لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ وہ صلیبی قوتیں جنہوں نے مغرب کی جانب سے اسلام کے خلاف لشکر کشی کی اور جن کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسلام کے خلاف جنگ کریں اور اسلام کی برتری کو ختم کردیں ، وہ اسلامی معاشرے کے رسم و رواج اور اصول و قوانین سے متاثر ہوئے۔ یہاں سے واپس جا کر انہوں نے مغرب میں رائج جاگیردارانہ نظام کے خلاف جدوجہد شروع کردی ، اس لیے کہ انہوں نے اگرچہ حقیقی اسلامی نظام تو نہ دیکھا تھا مگر اسلامی اصولوں کے جو آثار شرق اوسط کے معاشرے میں باقی تھے ، ان سے وہ متاثر ہوئے ، تاراری جنہوں نے مشرق سے اسلام پر حملے شروع کیے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیں اور اس کام پر ان کو یہودیون اور صلیبیوں نے آمادہ کیا تھا۔ وہ اسلامی نظریات سے متاثر ہوگئے اور انہوں نے اسلام کو مزید نئے علاقوں تک پھیلایا اور انہوں نے ایک ایسا نظام حکومت یعنی اسلامی خلافت قائم کیا جو پندرہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک یورپ کے دل میں قائم رہا ، الغرض بدر کے بعد تمام انسانی تاریخ اسلامی افکار سے متاثر ہوئی اور یہ دن قدیم اور جدید تاریخ کے درمیان بھی حد فاصل اور فرقان تھا۔ اور انسانیت عالم اسلام کے اندر اور اس کے مخالف بلاک کے اندر بھی اسلام سے متاثر ہوئی۔ اسی طرح یہ دن فتح و نصرت کے دو تصورات کے درمیان بھی حد فاصل تھا۔ یہاں مشرکین کے حق میں فتح و نصرت کے تمام ضروری عناصر موجود تھے اور مسلمانوں کے محاذ پر بظاہر شکست کے تمام عوامل موجود تھے۔ ، یہاں تک کہ منافقین اور بیمار دل لوگوں نے یہ ریمارک پاس کیا کہ (غر ھولاء دینہم) ان کے نئے دین نے ان کو غرے میں مبتلا کردیا ہے۔ لیکن اللہ کا ارادہ یہی تھا کہ اسی انداز پر یہ جنگ ہوجائے۔ کفار کی ایک کثیر تعداد اور اہل ایمان کی ایک قلیل تعداد کے درمیان معرکہ تھا ، تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ فتح و نصرت کے معیار وہ نہیں ہیں جو عام لوگوں کے درمیان معروف ہیں۔ بلکہ اللہ نے چاہا کہ یہاں قومی نظریات قلت سازوسامان کے ساتھ ایک عظیم لشکر پر فتح یاب ہو ، جو بےعقیدہ ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ نصرت ایک صالح عقیدے اور برحق نظریات کے لیے مقدر ہوتی ہے ، محض تعداد اور اسلحہ کی بنیاد پر فتح نصیب نہیں ہوتی اور یہ بتانا بھی مقصد تھا کہ نظریاتی لوگوں کو چاہئے کہ وہ کفر کے خلاف معرکے میں کود جائیں اور اس وقت کا انتظار نہ کریں کہ فریقین کی ظاہر قوت برابر ہوجائے کیونکہ برحق نظریات رکھنے والے لوگوں کی پشت پر سچائی کی طاقت ہوتی ہے۔ یہ محض خالی خولی دعویٰ ہی نہیں ہے بلکہ جنگ بدر کے اندر اس کا دو ٹوک فیصلہ ہوا اور لوگوں نے آنکھوں سے دیکھا۔
آخر میں میں کہتا ہوں کہ جنگ بدر ایک دوسرے زاوئیے سے بھی حق و باطل کے درمیان فرقان تھا اور اس پہلو کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا۔
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ ۔ لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ ۔ یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جاے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہوکر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
جو لوگ بدر کے لیے نکلے تھے وہ صرف اس ارادے سے نکلے تھے کہ ابوسفیان کے قافلے کو لے لیں جو غیر مسلح تھا۔ لیکن اللہ نے ان کی آرزو کو پورا نہ کیا۔ اللہ نے ابوسفیان کے قافلے کو بچ نکل کر جانے کا موقعہ دیا۔ اور اہل اسلام کو ابوجہل کے پر شوکت لشکر سے ٹکرا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں جنگ ہوئی ، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور کفار قید ہوئے اور قتل ہوئے۔ اور یہ نہ ہوا کہ مسلمان بطور تفریح نکلیں اور قافلے پر قبضہ کرکے آسان طریقے سے مال غنیمت حاصل کرلیں۔ اور یہ کام اللہ نے اس لیے کیا لیحق الحق ویبطل الباسل " تاکہ حق ، حق ہوجائے اور باطل ، باطل " اس میں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتے تھے کہ اللہ کی اسکیم کے مطابق احقاق حق کا طریقہ کیا ہے ؟ مطلب یہ تھا کہ محض وعظ و تبلیغ اور نظریاتی اور حکیمانہ تبلیغ ہی سے احقاق حق نہیں ہوتا اور نہ نظریاتی بحث وجدال کے نتیجے میں احقاق حق ہوتا ہے کہ کوئی دلائل سے یہ بات کرے کہ حق یہ ہے اور باطل یہ ہے۔ حق اس وقت تک عملی شکل اختیار نہیں کرتا اور باطل لوگوں کی عملی زندگی سے اس وقت تک خارج نہیں ہوتا جب تک باطل کی قوت اور اقتدار کو ختم نہ کردیا جائے اور اس کی جگہ حق کا اقتدار اعلی قائم نہ کردیا جائے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک حق کی فوجوں کو نصرت اور فتح مندی نصیب نہ ہو اور بطل کو شکست نہ ہوجائے یعنی کسی جنگی معرکے میں۔ غرض یہ دین ایک حرکتی منہاج ہے ، محض نظریہ نہیں ہے ، محض علمی بحث وجدال نہیں ہے اور نہ ہی محض منفی اعتقاد ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہہ نہیں ہے بلکہ اس کا مثبت پہلو بھی ہے۔ احقاق حق اور ابطال باطل میدان جنگ میں ہوتا ہے اور عملاً حق کو نصرت نصیب ہوتی ہے اور یہ عملی نصرت فرقان ہوتی ہے اور اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کیا چاہتے تھے اور یہ کہ الہ نے رسول الہ کو اس دن حق کے ساتھ گھر سے نکالا تھا اور حق یہ تھا کہ قافلہ چلا جائے اور سازوسامان سے لیس لشکر سے تمہاری مڈ بھیڑ ہوجائے۔
یہ تھی اس دین اور اس دن کی حیثیت فرقانیت ، جس سے اس دین کی حقیقت ، اس کا مزاج واضح ہوتا ہے اور مسلمانوں کے احساس و شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ ایسی فرقانیت ہے جس کی ضرورت آج محسوس کی جاتی ہے کیونکہ مسلمانوں کے احساس و شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ ایسی فرقانیت ہے جس کی ضرورت آج محسوس کی جاتی ہے کیونکہ مسلمانوں کے احساس و شعور کے اندر آج اسلام کے صحیح تصور کے اندر انحراف اور لچک پیدا ہوگئی ہے اور یہ ڈھیل اس قدر پھیل گئی ہے کہ بعض لوگ دعوت دین اور تبلیغ دین کا دعوی کرتے ہیں لیکن احقاق حق کے اس منہاج کو وہ نہیں پا سکے۔
یہ تھی یوم بدر کی حیثیت فرقانیت جس کے بارے کہا گیا کہ وہ (یوم الفرقان) اور (یوم التقی الجمعان) ہے جس کے اندر گہری معنویت پائی جاتی ہے۔ واللہ علی کل شیئ قدیر " اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے " اور یوم بدر قدرت الہیہ کی بہترین مثال ہے۔ ایسی مثال جس میں کوئی مقال نہیں ہے اور نہ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہے۔ یہ ایک مشاہدہ ہے اور اس کی تفسیر کے لیے کسی طویل کلام کی ضرورت نہٰں ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔