آپ 86:2 سے 86:3 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَمَاۤ
اَدْرٰىكَ
مَا
الطَّارِقُ
۟ۙ
النَّجْمُ
الثَّاقِبُ
۟ۙ
3

وما ادرک ................ الطارق (2:86) ” تم کیا جانو کہ وہ رات کو نمودار ہونے والا (طارق) کیا ہے ؟ “۔ گویا وہ ایک ایسی چیز ہے کہ انسان ادرک سے ماوراء ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید خود اس کی تعریف اور وضاحت کرتا ہے کہ وہ النجم الثاقب (3:86) ” چمکتا ہوا تارا “ ہے اسے ثاقب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی شعاعوں کے ذریعہ تاریکیوں کو پھاڑ کر اپنی روشنی زمین پر پھینکتا ہے۔ اس مفہوم کے اعتبار سے ہر ستارہ نجم ثاقب ہے۔ اس آیت سے ہم معلوم نہیں کرسکتے کہ وہ ستارہ کون سا ہے اور نہ اس تعین کی چنداں ضرورت ہے بلکہ اس سے مطلق ستارہ مراد لینا ہی بہتر ہے۔ اس طرح مفہوم یہ ہوگا ” قسم ہے آسمان کی اور اس کے اندر موجود چمکتے ہوئے ستاروں کی جو تاریکیوں کو پھاڑ کر روشنی پہنچاتے ہیں “ اور وہ اس روشنی کے ذریعہ اس پردہ تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوجاتے ہیں جو دوسری چیزوں کو چھپا لیتا ہے۔ اس مفہوم سے سورت کے اندر بیان ہونے والے حقائق اور مفاہیم کی طرف بھی اشارہ ہوگا جیسا کہ آگے تشریح میں آرہا ہے۔

جواب قسم یہ ہے کہ ہر نفس سے اوپر اللہ نے اپنے حکم سے ایک نگران مقرر کررکھا ہے۔