اذ ناداه ربه بالواد المقدس طوى ١٦
إِذْ نَادَىٰهُ رَبُّهُۥ بِٱلْوَادِ ٱلْمُقَدَّسِ طُوًى ١٦
اِذْ
نَادٰىهُ
رَبُّهٗ
بِالْوَادِ
الْمُقَدَّسِ
طُوًی
۟ۚ
3

اذنادہ ........................ طوی (16:79) ” جب اس کے رب نے اسے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا “۔ راجح قول یہ ہے کہ طویٰ وادی کا نام ہے ، جو شخص شمالی حجاز میں مدین کی طرف سے آئے ، یہ وادی طور کے دائیں جانب پڑتی ہے۔

یہ وقت جس میں اللہ کی جانب سے پکار آئی ، یہ ایک عظیم اور خوف زدہ کرنے والے لمحات ہیں اور عجیب کیفیات کا وقت ہوگا کہ اللہ جل شانہ بذات خود اپنے ایک بندے کو پکار رہا ہوگا اور سوچا جائے تو یہ ایک عظیم بات ہے۔ ان لمحات کی خوفناکیوں کے بیان سے انسانی الفاظ قاصر ہیں۔ اللہ کی عظیم بادشاہت اور حکومت کا یہ ایک راز ہے۔ نیز نفس انسانی کے رازوں میں سے بھی یہ ایک سربستہ رز ہے کہ اللہ نے انسانی نفس میں یہ قوت ودیعت کی اور اسے اس قابل بنایا کہ وہ ندائے جلیل کو سن سکے اور اس سے مفہوم اخذ کرسکے۔ یہ وہ آخری بات ہے جو اس مقام کی نسبت سے ہم کہہ سکتے ہیں۔ ورنہ مکالمہ الٰہی کے اس مقام اور اس کی کیفیت اور ماہیت کو سمجھنا انسان کے لئے نہایت ہی مشکل ہے۔ انسان کے لئے مناسب ہے کہ اس مقام کے کنارے پر ہی کھڑا رہے۔ اس وقت جب خود باری تعالیٰ انسان کو یہ قوت نہیں دے دیتا کہ وہ اس مقام کی کیفیات و تجلیات اور سوال و جواب کو سمجھ سکے اور اس کا شعور اور اس کی قوت مدرکہ اسے چکھ سکے۔

دوسرے مقامات پر اللہ اور کلیم اللہ کے درمیان ، اس مقام پر ہونے والے مکالموں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں ، لیکن اس سورت میں چونکہ موضوع کے ارد گرد مختصر باتیں رکھنی مقصود ہیں اس لئے یہاں زور دار باتیں نہایت موثر انداز میں اور ایک جھلک کی صورت میں کی گئی ہیں۔ اس لئے یہاں بس چند کلمات کے بعد ہی ذکر کردیا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ عظیم مشن سپرد کردیا گیا۔ پس آواز آئی اور حکم دے دیا گیا۔