اِنَّاۤ
اَرْسَلْنَا
نُوْحًا
اِلٰی
قَوْمِهٖۤ
اَنْ
اَنْذِرْ
قَوْمَكَ
مِنْ
قَبْلِ
اَنْ
یَّاْتِیَهُمْ
عَذَابٌ
اَلِیْمٌ
۟
3

انا ارسلنا ................................ کنتم تعلمون

سورت کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ رسالت اور نبوت کا سرچشمہ کیا ہے اور یہ نظریہ اور عقیدہ کہاں سے آرہا ہے۔

انا ارسلنا ............ قومہ (17 : 1) ” ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا “۔ گویا سرچشمہ ہدایت و رسالت ذات باری تعالیٰ ہے۔ تمام انبیاء اپنے عقائد اور ہدایات اللہ سے لیتے ہیں ، اللہ انسانوں کا بھی خالق ہے۔ اس کائنات کا بھی خالق ہے اور اللہ ہی ہے جس نے افسانوں کی فطرت کے اندر معرفت رب کی استعداد رکھی ۔ اور جب بھی انسانوں نے راہ فطرت اور اللہ کی ہدایت سے منہ موڑا ، اللہ نے کوئی نہ کوئی رسول بھیج دیا۔ اور تمام رسول ہمیشہ گم کردہ راہ انسانیت کو راہ راست کی طرف موڑتے رہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سلسلہ رسل کی پہلی کڑی تھے۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد۔ قرآن کریم نے حضرت آدم کی رسالت کا ذکر نہیں فرمایا کہ انہوں نے انسانوں کی ہدایت کے لئے یہ یہ کام کیا ، اس لئے کہ حضرت آدم صرف اپنے بیٹوں اور پوتوں کی ہدایت پر مامور تھے۔ اور حضرت آدم کے پوتے اور اولاد آپ کی وفات کے بعد ایک عرصے کے بعد گمراہ ہوئی اور اپنے لئے بت گھڑ لیے۔ اور ان کی پوجا کرنے لگی۔ پہلے تو وہ ان کو مقدس قوتوں کے لئے بطور مزواشارہ استعمال کرتے تھے بعد میں انہوں نے ان بتوں ہی کی پوجا اختیار کرلی۔ اور ان بتوں میں سے مشہور وہ پانچ بت تھے ، جن کا ذکر اس سورت میں آرہا ہے۔ چناچہ جب یہ لوگ گمراہ ہوگئے تو اللہ نے ان کی ہدایت کے لئے سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ارسال فرمایا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کو عقیدہ توحید کی طرف واپس لانے کی طویل جدوجہد کی۔ اور ان کے عقائد کو درست کرنے کی سعی کی۔ کتب سابقہ میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کو سب سے پہلے نبی کے طور پر ذکر کیا گیا۔ یعنی حرضت نوح (علیہ السلام) سے بھی پہلے۔ لیکن کتب سابقہ کے مندرجات ہمارے لئے حجت نہیں ہیں ، اس لئے کہ ان کے اندر باربار تحریف ہوتی رہی ہے اور ان میں بار بار حذف واضافہ ہوتا رہا ہے۔

قرآن کریم کے قصص کے مطالعے سے یہی تاثر ملتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سب سے پہلے نبی ہیں اور ان کو بالکل انسانیت کے ابتدائی دور میں بھیجا گیا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی۔ اس دور کے لوگوں کی یہ طویل عمر بھی یہ بتاتی ہے کہ یہ لوگ بہت ہی ابتدائی دور کے لوگ تھے اور پھر اس دور میں انسانوں کی تعداد بھی بہت کم تھی اور انسانوں کی نسل ابھی تک اس طرح نہ پھیلی تھی جس طرح زمانہ مابعد میں پھیل گئی۔ حیاتیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اشیاء کی تعداد کم ہو تو عمر زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ ہی حقیقت سے واقف ہے۔ یہ سنن الٰہی کے مطالعہ پر مبنی ہمارا قیاس ہے۔

اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی رسالت کے مشن اور ہدف کی طرف مختصراشارہ آتا ہے۔ یہ کہ اے نوح (علیہ السلام) تم اپنی قوم کو ڈراﺅ:

ان انذر .................... الیم (17 : 1) ” کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کردے قبل اس کے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آئے “۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم جس حالت تک پہنچ چکی تھی اور جس طرح وہ آپ کی ہدایات اور تبلیغ سے منہ موڑ رہی تھی ، تکبر کررہی تھی اور نہایت ہی ہٹ دھرمی اور عناد میں مبتلا تھی ، اس کے لئے یہاں یہ کہنا مناسب ہے کہ بس تم ان کو انجام بد سے ڈراﺅ، چناچہ انہوں نے اپنی تقریر کا آغازیوں کیا کہ لوگو ، دنیا وآخرت کے عذاب سے ڈرو ، تم اپنے آپ کو اس عذاب کا مستحق بنا رہے ہو۔

فریضہ رسالت کے تعین کے بعد فوراً یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) تبلیغ شروع کرچکے ہیں۔ آپ کا خطاب یوں ہے کہ لوگوں تم اگرچہ نہایت گھناﺅنے جرائم کا ارتکاب کرچکے ہو لیکن باز آجاﺅ، توبہ کرو ، تمہارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور تمہارا حساب قیامت تک کے لئے ملتوی کردیا جائے گا۔ ورنہ تم تو فوری ہلاکت اور پکڑ کے مستحق ہو۔ ساتھ ساتھ اصول دعوت کا ذکر بھی کردیا گیا کہ اللہ وحدہ کی بندگی کرو ، تمام معاملات میں میری سنت کی پیروی کرو۔