فلا اقسم برب المشارق والمغارب انا لقادرون ٤٠
فَلَآ أُقْسِمُ بِرَبِّ ٱلْمَشَـٰرِقِ وَٱلْمَغَـٰرِبِ إِنَّا لَقَـٰدِرُونَ ٤٠
فَلَاۤ
اُقْسِمُ
بِرَبِّ
الْمَشٰرِقِ
وَالْمَغٰرِبِ
اِنَّا
لَقٰدِرُوْنَ
۟ۙ
3

فلا اقسم .................... بمسبوقین

اس معاملے پر قسم اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ مشرقوں اور مغربوں کے رب کی طرف اشارہ کرکے اللہ کی عظمت کو بتایا گیا۔ مشارق ومغارب سے کبھی تو ستاروں کے مقامات طلوع مراد ہوتے ہیں جو بہت زیادہ ہیں جو اس طویل و عریض کائنات میں بہت زیادہ ہیں اور اس سے یہ مفہوم بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ وہ مشرق جو مختلف علاقوں میں مسلسل آتے رہتے ہیں اور یہ مشرق بروقت رہتے ہیں کیونکہ جب زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہے تو دنیا کی کوئی نہ کوئی جگہ مشرق ہوتی ہے اور کوئی نہ کوئی جگہ مغرب ہوتی ہے۔

بہرحال مشارق ومغارب کا جو مفہوم بھی ہو ، اس سے اس کائنات کی ضخامت معلوم ہوتی ہے۔ اور خالق کائنات کی عظمت کا تصور ابھرتا ہے۔ کیا ان بےوقعت وبے قیمت لوگوں کا معاملہ ، جن کو ہم نے جس چیز سے پیدا کیا ہے اسے یہ جانتے ہیں ، اس بات کا محتاج ہے کہ رب المشارق اور رب المغارب کے نام کی قسم اٹھائی جائے۔ جبکہ وہ ان جیسے دوسرے لوگوں اٹھانے پر قادر ہے۔ اور وہ اس کے مقابلے میں نہیں آسکتے ، اس سے بچ نہیں سکتے۔ اس سے کہیں بھاگ نہیں سکتے۔

جب سیاق کلام اس مقطع تک پہنچتا ہے او یہ بتادیا جاتا ہے کہ قیامت کا عذاب کس قدر ہولناک ہے اور اس دن کافروں کی کیا ذلت ہوگی اور مومنین کی کیا عزت ہوگی ، تو اب رسول اللہ ﷺ کی طرف روئے سخن پھرجاتی ہے کہ آپ پریشان نہ ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیں کہ وہ اسی دن کے عذاب کے لئے آگے بڑھیں۔ اس موقعہ پر پھر اس عذاب کے منظر کو یہاں بیان کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کس قدر کربناک منظر ہے یہ۔