تعرج الملايكة والروح اليه في يوم كان مقداره خمسين الف سنة ٤
تَعْرُجُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍۢ ٤
تَعْرُجُ
الْمَلٰٓىِٕكَةُ
وَالرُّوْحُ
اِلَیْهِ
فِیْ
یَوْمٍ
كَانَ
مِقْدَارُهٗ
خَمْسِیْنَ
اَلْفَ
سَنَةٍ
۟ۚ
3

تعرج الملئکة ........................ قریبا (7) (08 : 4 تا 7) ” اور روح اس کے حضور ﷺ چڑھ کر جاتے ہیں۔ ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ پس اے نبی صبر کرو ، شائستہ صبر۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں “۔ راجح بات یہ ہے کہ جس دن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، وہ قیامت کا دن ہے کیونکہ سیاق کلام میں یہ معنی متعین نہیں ہیں۔ اس دن ملائکہ اور روح اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور روح سے مراد راجح روایت کے مطابق حضرت جبرئیل ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقامات پر ان کو اسی نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ملائکہ کے بعد خصوصاً ان کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اہم مرتبہ ہے اور اس دن کے حوالے سے یہ ذکر کو ملائکہ اور روح الامین اس دن اوپر جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت ہی اہم دن ہوگا۔ اور اس کی یہ خصوصیت ہوگی۔ اور وہ اس دن اس کے انتظامات اور معاملات کے بارے میں اوپر جائیں گے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اللہ نے اس کا مکلف بنایا ہے کہ ہم جانیں کہ ان کی یہ دوڑ دھوپ کن معاملات کے لئے ہوگی اور نہ یہ کہ یہ فرشتے کس طرح چڑھیں گے اور کہاں جائیں گے چڑھ کر ؟ یہ عالم غیب سے متعلق امور ہیں اور اس آیت کے مفہوم میں ان سے کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اور کوئی دلیل بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ بس یہ کہ وہ بہت ہی اہم دن ہوگا ، جس میں اس قدر اہم لوگ بہت ہی زیادہ مشغول ہوں گے۔

رہی یہ تعبیر۔

کان مقدارہ ................ سنة (08 : 4) تو اس سے مراد طویل زمانہ بھی ہوسکتا ہے اور عربی اسالیب میں یہ استعمال عام ہے ، اور اس سے مراد کوئی متعین وقت بھی ہوسکتا ہے او یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فی الواقعہ دنیا کے سالوں کی طرح یہ پچاس ہزار سال کا ایک طویل دن ہو۔ ہمارے زمانے میں یہ حقیقت قریب الفہم ہوگئی ہے کیونکہ ہمارا دن تو زمین کی گردش محوری سے بنتا ہے اور یہ گردش چوبیس گھنٹوں میں مکمل ہوجاتی ہے اور ایسے ستارے بھی ہیں جن کی گردش محور ہمارے اس ستارے زمین کی گردش سے کئی ہزار گنا زیادہ وقت میں مکمل ہوتی ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ گویا ستر ہزار سالوں یا پچاس ہزار سالوں سے مراد کوئی متعین زمانہ ہے بلکہ اس سے مراد ایک معیار ہے اللہ کے معیاروں میں ہے۔

اور اللہ کے ایام میں سے ایک دن اگر پچاس ہزار سال کے برابر ہے تو قیامت کے عذاب کو یہ لوگ جو دور دیکھتے ہیں ، وہ اللہ کے نزدیک قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ آپ صبر جمیل سے کام لیں اور ان کی تکذیب اور عذاب آخرت کے بارے میں شتابی سے پریشان نہ ہوں۔