اِنَّمَا
یَسْتَجِیْبُ
الَّذِیْنَ
یَسْمَعُوْنَ ؔؕ
وَالْمَوْتٰی
یَبْعَثُهُمُ
اللّٰهُ
ثُمَّ
اِلَیْهِ
یُرْجَعُوْنَ
۟
3

(آیت) ” إِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَی یَبْعَثُہُمُ اللّہُ ثُمَّ إِلَیْْہِ یُرْجَعُونَ (36) عوت حق پر لبیک وہی کہتے ہیں جو سننے والے ہیں ‘ رہے مردے تو انہیں تو بس اللہ قبروں سے اٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لئے) واپس لائے جائیں گے ۔ “

جب کوئی رسول دعوت حق لے کر لوگوں کے پاس آتا ہے تو اس دعوت کے مقابلے میں لوگ دو گروہ بن جاتے ہیں ۔ ایک فریق تو زندہ اور بیدار لوگوں کا ہوتا ہے ‘ جن کے اندر قبولیت حق کی استعداد ہوتی ہے ‘ یہ استعداد کام کر رہی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے دل کے دریچے کھلے ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہدایت قبول کرلیتے ہیں اس لئے کہ ہدایت اور سچائی کے اندر ذاتی قوت ‘ نکھار اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہوتی ہے اور ایسے لوگ اسے پاتے ہی قبول کرلیتے ہیں ۔ (آیت) ” انما یستجیب الذین یسمعون “۔ (6 : 36) ” یعنی جن لوگوں کی قوت شنوائی کام کر رہی ہوتی ہے وہ حق کو قبول کرلیتے ہیں ۔ ایک دوسرافریق وہ ہوتا ہے جو دراصل مردہ ہوتا ہے ۔ اس کی فطرت معطل ہوجاتی ہے ۔ وہ نہ سنتا ہے اور نہ قبول کرتا ہے ۔ وہ نہ متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی لبیک کہتا ہے ۔ یہ بات نہیں ہوتی کہ اس سچائی کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہوتی سچائی تو خود دلیل ہوتی ہے ‘ آفتاب آمد ولیل آفتاب ‘ اور جب بصیرت رکھنے والی فطرت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو وہ اس کے اندر سچائی دیکھ لیتی ہے ۔ فورا وہ آخری فیصلہ کرکے تسلیم کرلیتی ہے ۔ دوسری قسم کے لوگوں کے اندر جو کمی ہوتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ان کی فطرت مر چکی ہوتی ہے اور ان کی استعداد قبولیت حق جاتی رہتی ہے لہذا ان کے اندر محض دعوت سنتے ہی قبولیت حق کی استعداد پیدا نہیں ہوتی ۔ ایسے لوگوں کا کوئی علاج خود رسول وقت کے پاس بھی نہیں ہوتا ۔ ان پر کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی ۔ ان کا معاملہ اللہ کی مشیت کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ اگر اللہ چاہے تو ایسے لوگوں کو زندہ کردیتا ہے اور اگر نہ چاہے تو یہ لوگ زندہ ہوں یا مردہ قیامت تک مردہ رہیں گے ۔ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں اٹھائے گا ۔

(آیت) ” والموتی یبعثھم اللہ ثم الیہ یرجعون “ (6 : 36) ” مردوں کو تو اللہ قبروں ہی سے اٹھائے گا اور وہ اس کی عدالت میں پیش ہوں گے ۔ یہ ہے کہانی قبولیت حق اور محرومیت کی ۔ اس سے ہدایت وضلالت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔ رسول کے فرائض متعین ہوجاتے ہیں اور تمام امور کا آخری فیصلہ اللہ کے سپرد ہوتا ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے ۔

نبی کریم ﷺ پر اس حقیقت کو آشکارا کرنے کے بعد ‘ اب روئے سخن اہل کفار اور مشرکین کے اس غلط مطالبے کی طرف پھرجاتا ہے جس میں وہ خوارق ومعجزات کے مطابلے کرتے تھے ۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا یہ مطالبہ جہالت پر مبنی ہے اور یہ لوگ اس معاملے میں سنت الہیہ سے بالکل بیخبر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی معجزہ صادر ہوتا ہے تو اس کے بعد نہ ماننے والوں بلکہ ماننے والوں کو بھی ایک عظیم بربادی سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ جو ان لوگوں کے مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا تو اس لئے نہیں کرتا کہ وہ ان پر رحم کرکے انہیں اس عظیم تباہی سے بچانا چاہتا ہے ۔ اس موقعہ پر تمام زندہ مخلوقات کے بارے میں اللہ کی حکیمانہ تدابیر کو بھی بیان کردیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ سنت تمام زندہ مخلوقات تک وسعت پزیر ہے ۔ یہاں وہ حکمت بتائی جاتی ہے جو ہدایت وضلالت کے فیصلوں کے پیچھے کام کرتی ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی بےقید مشیت کام کرتی ہے ۔

اپنے Quran.com کے تجربے کو زیادہ سے زیادہ بنائیں!
ابھی اپنا دورہ شروع کریں:

0%