بَلْ
بَدَا
لَهُمْ
مَّا
كَانُوْا
یُخْفُوْنَ
مِنْ
قَبْلُ ؕ
وَلَوْ
رُدُّوْا
لَعَادُوْا
لِمَا
نُهُوْا
عَنْهُ
وَاِنَّهُمْ
لَكٰذِبُوْنَ
۟
3

(آیت) ” بَلْ بَدَا لَہُم مَّا کَانُواْ یُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّواْ لَعَادُواْ لِمَا نُہُواْ عَنْہُ وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ (28) ۔

درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بےنقاب ہو کر ان کے سامنے آچکی ہوگی ‘ ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے ‘ وہ تو ہیں ہی جھوٹے ۔ یہاں اب ان کے بارے میں بات ختم ہوجاتی ہے اور وہ اس بری حالت میں ایک جھوٹے انسان کے طور پر حقارت کے ساتھ پس منظر میں چلے جاتے ہیں ۔

اب ایسے لوگوں کے بارے میں ان کے کچھ مزید رخ سامنے آتے ہیں اور ان کے اس آخروی منظر کے مقابلے میں دو مزید منظر پیش کئے جاتے ہیں ۔ ایک تو دنیا کا منظر ہے جس میں وہ عزم بالجزم کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے اور اللہ کسی کو دوبارہ نہ اٹھائے گا اور کوئی حساب و کتاب نہیں ہے ۔ اور دوسرا منظر آخرت سے متعلق ہے ۔ ایک جھلکی جس میں وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے دکھائے جاتے ہیں اور اللہ رب العالمین ان سے باز پرس فرماتے ہیں ۔ (الیس ھذا بالحق) (6 : 30) کیا یہ قیامت حق نہ تھی اور حقیقت نہیں ہے ؟ یہا یک ایسا سوال ہے جس سے وہ ٹوٹ جاتے ہیں بلکہ پگھل جاتے ہیں اور ایک نہایت ہی بدحال اور ذلیل آدمی کی طرح جواب دیتے ہیں ۔ (آیت) ” بلی وربنا “۔ (6 : 30) ” ہمارے رب تیری قسم یہ حقیقت ہے ۔ “ اور اب وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب الیم سے دوچار ہوتے ہیں ۔ ایک دوسری جھلکی بھی سامنے آتی ہے ۔ اچانک وہ گھڑی آپہنچتی ہے جس کے بارے میں وہ اللہ کے اس ” آمنے سامنے “ سے بالکل منکر تھے ۔ اب وہ یاس و حسرت میں ڈوب جاتے ہیں ۔ اپنے کاندھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور آخرت میں یہ بتایا جاتا ہے ۔ کہ اللہ کے ترازو میں دنیا کی حقیقت کیا ہے اور آخرت کا مقام کیا ہے ؟

اپنے Quran.com کے تجربے کو زیادہ سے زیادہ بنائیں!
ابھی اپنا دورہ شروع کریں:

0%