آیت 8{ یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط } ”اے اہل ایمان ! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔“ یہ آیت اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے زیر مطالعہ سورتوں کے گروپ میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں پل صراط کے اس ماحول کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے جس کی تفصیل سورة الحدید میں آئی ہے۔ اس آیت کے ابتدائی حصے میں اہل ایمان کو توبہ سے متعلق جو حکم دیا گیا ہے اس حکم میں بہت جامعیت ہے۔ اس سے مراد صرف کسی ایک برے عمل کی توبہ نہیں کہ کوئی شخص شراب نوشی سے توبہ کرلے یا کوئی رشوت خوری سے باز آجائے ‘ بلکہ اس سے مراد غفلت کی زندگی اور معصیت کی روش سے توبہ ہے۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ زندگی کا رخ بدلنے کا حکم ہے ‘ کہ اے ایمان کے دعوے دارو ! ذرا اپنی زندگی کے شب و روز پر غور تو کرو کہ تمہارا رخ کس طرف ہے ؟ تمہاری زندگی کے سفر کی منزل کیا ہے ؟ تم محمد رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چل رہے ہو یا کسی اور کی پیروی کر رہے ہو ؟ { فَاَیْنَ تَذْھَبُوْنَ۔ } التکویر۔۔۔۔ - تو اے اللہ کے بندو ! اپنی زندگی کے شب و روز اور معمولات کا جائزہ لو ‘ اپنی دوڑ دھوپ اور اپنی ترجیحات پر غور کرو۔ پھر اگر تم محسوس کرو کہ تم غلط رخ پر جا رہے ہو تو اپنے بڑھتے ہوئے قدم فوراً روک لو { فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ } الذاریات : 50 اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے رب کی طرف پلٹ آئو ! تمہارے پلٹنے کے لیے اللہ کی رحمت کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک تمہاری موت کے آثار ظاہر نہیں ہوتے۔ چناچہ ابھی موقع ہے کہ اس کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرو ‘ زندگی کے جو ماہ و سال غفلت کی نذر ہوگئے ہیں ان پر اشک ندامت بہائو ‘ صدقِ دل اور اخلاصِ نیت سے معافی مانگو اور غلط روش کو ترک کرنے کے بعد زندگی کا سفر از سرنو شروع کرو۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ سفر زندگی کی سمت درست کرنے کے لیے فرائض دینی کا درست فہم اور ادراک بھی ضروری ہے۔ ظاہر ہے دین صرف نمازیں پڑھنے اور رمضان کے روزے رکھنے ہی کا نام نہیں ‘ بلکہ ایک بندئہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی معاشرت اور معیشت کو بھی ”مسلمان“ کرے۔ پھر یہ کہ جو ہدایت اسے نصیب ہوئی ہے اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کرے اور کسی جماعت میں شامل ہو کر دین کے سب سے اہم فرض کی ادائیگی یعنی باطل نظام کے خاتمے اور اللہ تعالیٰ کی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوجائے۔ اس کے لیے انقلابِ نبوی ﷺ کے منہج کو سمجھنا اور اس منہج کی پیروی کرنا بہت ضروری ہے۔ آج ہماری جدوجہد میں حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رض کی محنت اور کوشش کی سی کیفیت تو پیدا نہیں ہوسکتی کہ ع ”وہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا !“ لیکن ہمیں آپ ﷺ کے منہج پر چلنے کی کوشش تو کرنی چاہیے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں سہی آپ ﷺ کی تحریک کے ساتھ اپنی جدوجہد کی کچھ نہ کچھ مماثلت اور مشابہت تو پیدا کرنی چاہیے۔ چناچہ ایک ایک گھر اور ایک ایک فرد تک دعوت پہنچانے کا اہتمام ‘ دعوت پر لبیک کہنے والوں کی تنظیم و تربیت کا انتظام ‘ صبر و مصابرت کی حکمت عملی ‘ جیسے ضروری مراحل ہمیں اسی طریقے سے طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس طریقے سے خود حضور ﷺ نے یہ مراحل طے فرمائے تھے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے میری کتاب ”منہجِ انقلابِ نبوی ﷺ“ اور اسی عنوان سے تقاریر کی ریکارڈنگ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ { عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ } ”امید ہے تمہارا رب تم سے تمہاری برائیوں کو دور کردے گا“ تمہارے توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہارے نامہ اعمال سے تمام دھبے دھو ڈالے گا اور تمہارے دامن ِکردار کے تمام داغ صاف کر دے گا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَـہٗ 1 کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے وہ گناہ کبھی کیا ہی نہ ہو۔ { وَیُدْخِلَـکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُلا } ”اور تمہیں داخل کرے گا ایسے باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی“ { یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ } ”جس دن اللہ اپنے نبی ﷺ کو اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔“ { نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ } ”اُس دن ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے سامنے اور ان کے داہنی طرف“ یہ مضمون اس سے پہلے انہی الفاظ میں سورة الحدید کی آیت 12 میں بھی آچکا ہے۔ نورِ ایمان ان کے سامنے ہوگا جبکہ اعمالِ صالحہ کا نور داہنی طرف ہوگا۔ { یَـقُوْلُوْنَ رَبَّـنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا } ”وہ کہتے ہوں گے : اے ہمارے رب ! ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل کر دے“ { وَاغْفِرْلَنَاج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔ } ”اور تو ہمیں بخش دے ‘ یقینا تو ہر شے پر قادر ہے۔“ ہر بندئہ مومن کا نور اس کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی مناسبت سے ہوگا۔ حضرت قتادہ رح سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”کسی کا نور اتنا تیز ہوگا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہوگا اور کسی کا نور مدینہ سے صنعاء تک ‘ اور کسی کا اس سے کم ‘ یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہوگا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا۔“ ابن جریر 1 حضور ﷺ کے اس فرمان کے مطابق تصور کریں حضرت ابوبکر صدیق رض اور دوسرے صحابہ کرام رض کے نور کا کیا عالم ہوگا۔ بہرحال ہم جیسے مسلمانوں کو اس دن اگر ٹارچ کی روشنی جیسا نور بھی مل جائے تو غنیمت ہے۔ لیکن ہمارے لیے یہاں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس دن کچھ لوگوں کا نور کم کیوں ہوگا۔ یقینا وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کے ایمان میں کسی پہلو سے کوئی کمزوری رہ گئی ہوگی اور اعمال میں کوتاہیاں سرزدہوئی ہوں گی۔ یقینا انہوں نے اپنی استعداد کو ‘ اپنے مال کو اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بچا بچا کر رکھا ہوگا اور اللہ کے راستے میں انہیں اس حد تک خرچ نہیں کیا ہوگا جس حد تک خرچ کرنے کے وہ مکلف تھے۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کی یہ نصیحت ہمیں حرزجاں بنا لینی چاہیے : ؎تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں !بہرحال پل صراط کے کٹھن اور نازک راستے پر جن اہل ایمان کا نور کم ہوگا وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ ! تو اپنے فضل اور اپنی شان غفاری سے ہماری کوتاہیوں کو ڈھانپ لے اور ہمارے نور کو بھی مکمل فرمادے۔