آپ 60:7 سے 60:9 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
۞ عسى الله ان يجعل بينكم وبين الذين عاديتم منهم مودة والله قدير والله غفور رحيم ٧ لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين ولم يخرجوكم من دياركم ان تبروهم وتقسطوا اليهم ان الله يحب المقسطين ٨ انما ينهاكم الله عن الذين قاتلوكم في الدين واخرجوكم من دياركم وظاهروا على اخراجكم ان تولوهم ومن يتولهم فاولايك هم الظالمون ٩
۞ عَسَى ٱللَّهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ ٱلَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةًۭ ۚ وَٱللَّهُ قَدِيرٌۭ ۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ٧ لَّا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَـٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَـٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓا۟ إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ ٨ إِنَّمَا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ قَـٰتَلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَـٰرِكُمْ وَظَـٰهَرُوا۟ عَلَىٰٓ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ٩
عَسَی
اللّٰهُ
اَنْ
یَّجْعَلَ
بَیْنَكُمْ
وَبَیْنَ
الَّذِیْنَ
عَادَیْتُمْ
مِّنْهُمْ
مَّوَدَّةً ؕ
وَاللّٰهُ
قَدِیْرٌ ؕ
وَاللّٰهُ
غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ
۟
لَا
یَنْهٰىكُمُ
اللّٰهُ
عَنِ
الَّذِیْنَ
لَمْ
یُقَاتِلُوْكُمْ
فِی
الدِّیْنِ
وَلَمْ
یُخْرِجُوْكُمْ
مِّنْ
دِیَارِكُمْ
اَنْ
تَبَرُّوْهُمْ
وَتُقْسِطُوْۤا
اِلَیْهِمْ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
یُحِبُّ
الْمُقْسِطِیْنَ
۟
اِنَّمَا
یَنْهٰىكُمُ
اللّٰهُ
عَنِ
الَّذِیْنَ
قٰتَلُوْكُمْ
فِی
الدِّیْنِ
وَاَخْرَجُوْكُمْ
مِّنْ
دِیَارِكُمْ
وَظٰهَرُوْا
عَلٰۤی
اِخْرَاجِكُمْ
اَنْ
تَوَلَّوْهُمْ ۚ
وَمَنْ
یَّتَوَلَّهُمْ
فَاُولٰٓىِٕكَ
هُمُ
الظّٰلِمُوْنَ
۟
3

اسلام سلامتی کا دین ہے ، محبت کا عقیدہ ہے۔ وہ ایک ایسا نظام ہے جو پوری دنیا کو اپنے سایہ عاطفت میں لینا چاہتا ہے۔ اور پوری دنیا اپنا منہاج قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ لوگوں کو اللہ کے جھنڈوں کے نیچے جمع کرتا ہے اور ان کو باہم متعارف بھائی بناتا ہے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ یہ ہے کہ اسلام کے دشمن اپنی معاندانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ وہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں۔ اگر مخالفین اسلام ، اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ دشمنی ترک کردیں تو اسلام کو کسی کے ساتھ دشمنی میں دلچسپی نہیں ہے۔ اسلام از خود کوئی دشمنی پیدا نہیں کرتا۔ وہ دشمنی اور جنگی حالت میں بھی انسانی نفوس کے اندر انس و محبت کے اسباب قطع نہیں کرتا۔ وہ منصفانہ معاملہ کرتا ہے اور ہر وقت اس امید میں رہتا ہے کہ تمام لوگ اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوجائیں۔ اسلام کبھی بھی کسی کو ہدایت اور راہ راست پر آجانے سے مایوس نہیں کرتا۔

اس قطعے کی پہلی آیت میں اس امید کا ذکر ہے ، جو کبھی بھی ناامیدی سے مغلوب نہیں ہوتی۔ یہ آیت ان لوگوں کے دلوں کے لئے مرہم ہے جن پر اسلام اور کفر اس جنگ کو مسلط کیا گیا تھا اور مجبوراً ان کو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ بائیکاٹ کرنا پڑ رہا تھا۔

عسی .................... مودة (06 : 7) ” بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے “۔ اللہ کی طرف سے امید کا اظہار گویا قطعی اشارہ ہے کہ جلد ہی یہ دشمنی ختم ہوجائے گی۔ جن مومنین نے اسے سنا ہوگا ان کو یقین ہوگیا ہوگا۔ اس کے بعد جلد ہی مکہ فتح ہوگیا تھا اور سب اہل مکہ مسلمان ہوگئے تھے اور سب ایک جھنڈے کے نیچے آگئے تھے۔ اور ان تمام ، دشمنیوں اور عنادوں کے دفاتر لپیٹ لئے گئے تھے اور اہل مکہ اور اہل مدینہ بھائی بھائی بن گئے تھے۔

واللہ قدیر (06 : 7) ” اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے “۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

واللہ ............ رحیم (06 : 7) ” اور وہ غفور ورحیم ہے “۔ جو سابقہ زمانے میں اور حالت کفر میں کسی سے شرک ہوگیا ، اس کو بخشنے والا ہے۔ سابقہ زمانے کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔

جب تک اللہ کا وعدہ پورا نہیں ہوجاتا ، جس کے بارے میں اوپر کی آیت میں امید دلائی گئی تھی ، اللہ نے ان لوگوں کے ساتھ تعلقات مودت قائم کرنے کی اجازت دے دی ، جو دین کے معاملے میں مسلمانوں سے برسر جنگ نہیں تھے ، جنہوں نے مسلمانوں کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا تھا ایسے لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے پر جو پابندی سمجھی جاتی تھی اسے رفع کردیا گیا کہ ایسے کفار کے ساتھ بھی عدل کرو اور ان کا کوئی حق اگر تمہارے دائرہ اختیار میں ہے تو اسے ادا کرو ، لیکن جو لوگ دین کے معاملے میں تم سے لڑ رہے ہیں ، انہوں نے تمہیں گھروں سے نکالا ہے ، یا تمہارے نکالنے میں معاونت کی ہے ، تو ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی موالات نہیں ہے ، اور جو لوگ ایسے لوگوں سے موالات کرتے ہیں وہ شالم ہیں۔ ظلم کے معانی میں سے ایک معنی شرک بھی ہے۔ آیت۔

ان الشرک لظلم عظیم پیش نظر ہونی چاہئے۔ مومنین کے لئے یہ شدید تہدید ہے۔ اس لئے انہیں اس قسم کے تعلقات قائم کرتے ہوئے بہت محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں سب کچھ نہ گنوادیں۔

یہ اصول جو غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں وضع کیا گیا ہے ، یہ اس دین کے مزاج کے مطابق ہے اور نہایت ہی منصفانہ الاقوامی قانون ہے۔ یہ خالص انسانی نقطہ نظر سے ہے بلکہ اس کو اس پوری کائنات کے نظام کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ کیونکہ یہ پوری کائنات ایک ہی الٰہ واحد کی بنائی ہوئی ہے۔ یہ پوری کائنات رب واحد کی طرف متوجہ ہے اور پوری کائنات اللہ کے منصوبے اور نظام اور نقشے کے مطابق چل رہی ہے۔ اگرچہ اس میں لوگوں کے درمیان اختلافات ہیں اور وہ باہم منقسم ہیں۔

یہ اصول اسلام کے بین الاقوامی قانون کا اساسی اصول ہے جس کے مطابق لوگوں کے درمیان امن وسلامتی کی حالت اصلی اور مستقل حالت ہے ، اور اس حالت کے اندر تغیر جارحیت اور دفاع جارحیت کی وجہ سے آجاتا ہے۔ یا اس وجہ سے آتا ہے کہ دو اقوام کے درمیان معاہدہ ہو ، اور ان میں سے ایک معاہدے کو توڑ دے یا خیانت کے امکانات پیدا ہوجائیں یا کوئی قوت آزادی اعتقاد یا آزادی اظہار رائے اور دعوت اسلامی کی راہ میں مزاحم ہوجائے۔ اور یہ بھی دراصل ایک جارحیت ہے۔ ان حالات کے علاوہ اسلام امن وسلامتی ، محبت ، نیکی اور عدل کے احکام دیتا ہے۔

یہ قاعدہ اسلامی نظریہ حیات کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ اسلام انسان اور انسان کے درمیان فرق و امتیاز صرف عقیدے کی بنیاد پر کرتا ہے۔ ایک مومن اگر کسی دوسری قوم کے ساتھ جنگ کرتا ہے تو محض اپنے عقیدے کی وجہ سے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگ کی کوئی اور وجہ نہیں ہے۔ الام صرف دعوت کی آزادی اور رائے کی آزادی کے لئے لڑتا ہے۔ اس کے علاوہ فقط وہ اسلامی نظام کے قیام اور اعلائے کلمة اللہ کے لئے لڑتا ہے۔

یہ توجیہہ اور تفسیر اس پوری سورت کے رخ کے ساتھ بھی موافق ہے جس کے اندر عقائد ونظریات کی اہمیت سے بحث ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اہل ایمان صرف نظریاتی جھنڈے کے نیچے لڑ سکتے ہیں۔ اس لئے جو شخص اس محاذ میں ان کے ساتھ کھڑا ہوا تو وہ ان میں سے ہے۔ اور جس نے اس نکتے پر ان سے جنگ کی تو وہ ان کا دشمن ہے۔ جس شخص نے ان کے ساتھ امن کی حالت کو برقرار رکھا اور ان کو ان کے عقائد پر چھوڑ دیا کہ وہ اپنے عقائد کی طرف لوگوں کو بلائیں اور ان کی راہ روکنے کی کوشش نہ کی اور لوگوں کو زبردستی اسلامی عقائد قبول کرنے سے روکا تو وہ مسالم ہے اور اسلام ان کے ساتھ نیکی اور سماجی تعلق قائم کرنے سے نہیں روکتا۔

اصل بات یہ ہے کہ ایک مسلم اس کرہ ارض پر اپنے عقیدے کی خاطر زندہ ہوتا ہے۔ اس کا مسئلہ اس کا نظریہ اور اس کے ماحول کے ساتھ اس مسئلہ بھی یہی نظریہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے مصلحت اور مفادات پر کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا۔ وہ کسی عصبیت کے لئے جہاد نہیں کرتا مثلاً رنگ ، نسل ، زبان اور علاقے کی عصبیت۔ اسلام میں جنگ اگر ہے تو صرف نظریات کے لئے ہے۔ اس لئے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو ، اور اسلامی نظام کے لئے جنگ ہے۔

اس کے بعد سورة توبہ نازل ہوئی۔ جس میں ہے۔

براءة من اللہ ................ المشرکین (9 : 1) ” اللہ اور رسول کی طرف سے مشرکین سے بیزاری کا اعلان ہوتا ہے “۔ اس کے ذریعہ جزیرة العرب میں مشرکین کے ساتھ معاہدات ختم کردیئے گئے۔ جن لوگوں کے معاہدے میں میعاد مقرر نہ تھی ان کو چار ماہ کی مہلت دے دی گئی اور جن کے ساتھ میعاد مقرر تھی ان کے ساتھ معاہدے کی مدت طے کی گئی۔ لیکن امن کے وہ معاہدات جو جزیرة العرب کے مشرکین کے ساتھ تھے اور جنہیں منسوخ کیا گیا وہ اس لئے کہ مشرکین عرب بار بار معاہدے توڑ رہے تھے۔ جب انہیں فائدہ ہوتا تو معاہدے پر عمل کرتے ، اور جب نقصان ہوتا تو توڑ دیتے۔ اس لئے ایسے لوگوں کے لئے اسلام نے ایک دوسرابین الاقوامی قاعدہ بنایا۔

واما تخافن ........................ الخاء نین ” اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت کا خطرہ ہو تو اعلانیہ ان کا معاہدہ ان کے سامنے پھینک دو ، بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتا “۔ اور یہ ضرورت اس وقت اس لئے بھی پیش آئی تھی تاکہ اسلام کے پایہ تخت اور مرکز کو محفوظ کردیا جائے۔ اس وقت مرکز اسلام جزیرة العرب تھا۔ اور اس کو ان لوگوں سے پاک کرنا ضروری تھا ، جو مسلمانوں کے بارے میں ہر وقت انتظار میں رہتے تھے ، کہ کوئی موقعہ ملے اور وہ حملہ آور ہوں۔ مشرکین اور اہل کتاب معاہدین بار بار عہد توڑے تھے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ چونکہ دشمنی کی حالت ہوا کرتی ہے ، اس لئے ایسے حالات میں اگر فریقین حالت جنگ پر ہوں تو دونوں کے لئے مفید ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ قیصر وکسریٰ عظیم مملکتوں نے اسلامی مملکت کے خلاف افواج جمع کرنا شروع کردی تھیں۔ اور دونوں نے اسلام کو اپنے لئے خطرہ سمجھ لیا تھا۔ دونوں نے جزیرة العرب کے ساتھ ساتھ عربی ریاستوں کا رخ جزیرة العرب کی طرف پھیر دیا تھا۔ لہٰذا اسلامی بلاک کی اندرونی تطہیر ضروری ہوگئی تھی تاکہ متوقع بیرونی جارحیت کا موثر مقابلہ کیا جاسکے۔ یہ نوٹ یہاں کافی ہے۔