كَانُوْا
لَا
یَتَنَاهَوْنَ
عَنْ
مُّنْكَرٍ
فَعَلُوْهُ ؕ
لَبِئْسَ
مَا
كَانُوْا
یَفْعَلُوْنَ
۟
3

(آیت) ” کَانُواْ لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَن مُّنکَرٍ فَعَلُوہُ لَبِئْسَ مَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ (79

” انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا ‘ برا طرز عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا تھا۔

سرکشی اور ظلم ہر معاشرے میں ہوتے رہتے ہیں اس لئے کہ ہر معاشرے میں شریر ‘ مفسد اور منحرف لوگ ہوتے ہیں ، یہ زمین کسی بھی وقت شروفساد سے خالی نہیں رہ سکتی ۔ معاشرے کے اندر ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی روش نرالی ہوتی ہے لیکن معاشرے کا اجتماعی مزاج شر اور منکر کو برداشت نہیں کرتا اور سرکشی اور ظلم کو معاشرے کے مسلمات قرار پانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس لئے سرکشی اور ظلم کا ارتکاب کسی بیدار معاشرے کے اندر بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ اسی طرح زندہ معاشروں کے اندر برائی کا ارتکاب مشکل ہوتا ہے اور معاشرہ اجتماعی طور پر شر کے خلاف رد عمل ظاہر کم ہوجاتے ہیں معاشرے کے اجتماعی بندھن مضبوط ہوتے ہیں اور برائی چند افراد کے اندر محدود ہوتی ہے ۔ معاشرہ ان کا پیچھا کر رہا ہوتا ہے اور انہیں جمنے نہیں دیتا ۔ ایسے حالات میں فحاشی اور منکر شائع نہیں ہوتے ۔ پھیلتے نہیں بلکہ سکڑتے ہیں اور یہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر اور مزاج کی وجہ سے ہوتا ہے ۔

بنی اسرائیل کے اس اجتماعی منظر کو یہاں اس مکروہ شکل میں پیش کرکے اور اس پر تنقید کرکے قرآن ‘ اسلامی نظام جماعت کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ اس کا ایک مضبوط اجتماعی وجود ہونا چاہئے اور اس وجود کے اندر اس قدر قوت دفاع ہونی چاہئے کہ وہ سرکشی اور ظلم کو برداشت ہی نہ کرے ‘ چہ جائیکہ وہ معاشرے کی ایک عام روش ہوجائے ۔ اسلامی معاشرے کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اسے بڑی سختی سے سچائی پر قائم ہونا چاہئے اور باطل کے بارے میں سخت حساس ہونا چاہئے ۔ دین کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ اس امانت کی حفاظت کریں جس کے وہ امین اور محافظ ہیں ۔ اور شر فساد سرکشی اور ظلم کی راہ روکیں اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ چاہے یہ شر ایسے حکام کی جانب سے ہو جن کا حکومت پر تسلط ہو یا ایسے سرمایہ داروں کی طرف سے ہو جنہوں نے دولت جمع کر کے اثر ورسوخ حاصل کرلیا ہو یا ایسے شرپسندوں کی طرف سے ہو جن کو معاشرے میں ایذا رسانی کی قوت حاصل ہو یا ایسے عوام کی جانب سے ہو جو بےراہ رو ہیں ۔ اسلامی نظام بہرحال خدائی نظام ہے اور اس کے خلاف اٹھنے والے بااثر ہوں یا بےاثر ہوں وہ سب باغی تصور ہوں گے ۔

اسلام اس فرض کی ادائیگی پر بہت ہی زور دیتا ہے ۔ اگر معاشرے کا اجتماعی وجود کسی شر کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا تو اسلام پورے معاشرے کو مجرم گردانتا ہے ۔ جس طرح ایک ایک فرد ذمہ دار ہے اسی طرح برائی کے خلاف اٹھنے کی ذمہ داری بھی پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے ۔

امام احمد (رح) نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی یہ روایت نقل فرمائی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” جب بنی اسرائیل نے برائیوں کا ارتکاب شروع کیا تو انکے علماء نے انہیں منع کیا ۔ وہ منع نہ ہوئے ‘ ان علماء نے بھی ان معصیت پیشہ لوگوں کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا اور انکے ساتھ کھانا پینا شروع کردیا ۔ اللہ نے سب کو باہم ملا دیا ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ ان پر لعنت کی اس لئے کہ یہ لوگ سرکشی کرتے تھے اور ظلم کرتے تھے ۔ یہ بات کرتے وقت رسول ﷺ جو تکیہ سے ٹیک لگا کر لیٹے ہوئے تھے ‘ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :” نہیں ‘ خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ان کو حق پر سختی سے مجبور کرو گے ۔ “

ابو داؤد نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی روایت نقل کی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بنی اسرائیل میں جو پہلا نقص داخل ہوا وہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے ملتا تو کہتا : اے فلاں اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تم کر رہے ہو ‘ اسے چھوڑ دو اس لئے کہ یہ جائز نہیں ہے ۔ پھر دوسرے دن اسے ملتا تو اس کی یہ بری بات اسے اس بات سے نہ روکتی کہ وہ اس کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ بنے اور اس کا ہمنشین ہو ‘ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے سب کو باہم ملا دیا۔ “ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ” ملعون کردیا اللہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے ۔ “ لعن سے فاسقون تک ۔

اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ” ہرگز نہیں تمہیں امر بالمعروف کرنا ہوگا اور نہی عن المنکر کرنا ہوگا اور تمہیں ظالم کا ہاتھ پکڑنا ہوگا اور تمہیں ان کو حق پر کھڑا کرنا ہوگا یا تمہیں انہیں سچائی پر مجبور کرنا ہوگا ۔ “ ‘

صرف امر اور نہی سے مسئلہ ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اصرار کرنا ہوگا کہ ظالم باز آجائیں ۔ ان کے ساتھ مقاطعہ کرنا ہوگا اور شر کو قوت سے مٹانا ہوگا ۔ فساد معصیت اور زیاتیوں کی راہ روکنی ہوگی ۔

امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ ابو سعید خدری ؓ کی حدیث نقل کی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” تم میں سے جس نے بھی منکر کو دیکھا ‘ اسے چاہئے کہ وہ ہاتھ سے اسے روکے ‘ اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر طاقت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔ “

امام احمد (رح) نے اپنی سند کے ساتھ عدی ابن عمیرہ سے نقل کیا ہے ۔ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ” اللہ خاص گناہگاروں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا ۔ ہاں جب وہ اپنے درمیان برائی کو دیکھیں اور وہ اس کے خلاف اجتجاج کرسکتے ہوں مگر نہ کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ خاص مجرموں کی وجہ سے عام لوگوں کو بھی مبتلائے عذاب کرتے ہیں ۔ “

امام ترمذی نے ابو سعید سے نقل کیا ہے :” حضور ﷺ نے فرمایا ! بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق ہے ۔ ‘

قرآن وسنت کی نصوص اس مفہوم میں بکثرت وارد ہیں ۔ اسلامی معاشرہ ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں صورت یہ نہ ہو کہ ایک شخص برائی دیکھے اور کہے مجھے اس سے کیا واسطہ ؟ بلکہ اسلامی معاشرے کے اندر برائی کے خلاف اٹھ کھڑا ہو ۔ وہ حدود شریعت کے حق میں اٹھ کھڑا ہو اور یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جس پر ایک اسلامی جماعت کی اساس ہے ‘ اس کے سوا ایک مسلم معاشرے کے وجود کا تصور ہی نہ ہوگا ۔

یہ حمیت اور جذبہ قلب میں تب پیدا ہوگا جب انسان میں اللہ کے اوپر پختہ یقین پیدا ہوجائے اور اسے یہ شعور ہو کہ اس ایمان کے تقاضے کیا ہیں ۔ پھر اسے اسلامی نظام زندگی کا صحیح فہم حاصل ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ اسلامی نظام زندگی ایک مکمل نظام ہے وہ اس نظریے کو سنجیدگی کے ساتھ لے اور اس کے قیام کے لئے جدوجہد شروع کردے ۔ اسلامی معاشرہ ہوتا ہی وہ ہے جس میں قانون کا ماخذ شریعت الہی ہو ۔ اس کی اٹھان اسلامی منہاج پر ہو ‘ اور یہ معاشرہ ایک مسلمان کو اس بات کا موقع دیتا ہو کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرسکے ۔ یہ اس کا انفرادی علم نہ ہو کہ وہ اصلاح کی لہریں اٹھائے اور سمندر کے اندر گم ہوجائیں ۔ حالات ایسے نہ ہوں کہ ایک مسلمان سرے سے اصلاح کر ہی نہ سکے ‘ جیسا کہ آج کل عالم اسلام کے اکثر اوطان میں صورت حال ایسی ہے کہ انفرادی طور پر بھی کوئی امر بالعروف کا فریضہ ادا نہیں کرسکتا کیونکہ عالم اسلام کا اجتماعی نظام اس اصول پر قائم ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے معاملات میں دخل ہی نہیں دے سکتا اور اسامی معاشروں میں فسق وفجور اور اللہ کی معصیت کو لوگوں کے شخصی معاملات سمجھتا ہے ۔ کوئی کسی کے کام میں دخل نہیں دے سکتا بلکہ اسلامی معاشروں میں ظلم ‘ مار دھاڑ ‘ سرکشی اور زیادتی اور اس قدر طاقتور ہیں کہ ڈر کے مارے لوگوں کے منہ بالکل بند ہیں۔ زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں اور جو شخص بھی برائی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں ۔ حقیقی جدوجہد اور بھاری قربانیاں اس امر کے لئے دینی چاہئیں کہ ایک فلاحی اور خیر پسند معاشرہ قائم ہو اور فلاح اور خیر پر مشتمل معاشرہ صرف اسلامی نظام کے زیر سایہ ہی قائم ہو سکتا ہے اور یہ نیک معاشرہ دوسری جزوی اصلاحات اور شخصی بھلائی کے معاملات سے بھی پہلے بذریعہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قائم ہونا چاہئے ۔

اگر پورا معاشرہ گندہ ہو تو کسی فرد کو ستھرا نہیں کہا جاسکتا ۔ جبکہ جاہلیت کی سرکشی غالب ہو اور معاشرے کا اجتماعی ڈھانچہ جاہلیت پر قائم ہو ۔ اس میں قانون شریعت نافذ نہ ہو ‘ تو ایسے حالات میں ابتدائی کام شروع کرنا چاہئے اور نیکی کو جڑوں سے اٹھنا چاہئے اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ کسی خطے میں اسلامی سلطنت قائم ہو اور جب یہ اقتدار قائم ہوجائے تو پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام بنیاد سے شروع ہوگا۔

یہ تمام امور پختہ ایمان کے متقاضی ہیں اور اس بات کے محتاج ہیں کہ نظام زندگی کی تبدیلی میں عزم ویقین کا کام شروع کیا جائے ۔ جب ایمان کامل ہوگا تو اللہ پر اعتماد ہوگا ۔ اور جب اللہ پر اعتماد ہوگا تو راستہ جس قدر طویل ہو ‘ پروانہ ہوگا اور انسان اپنے اجر کا امیدوار اللہ سے ہوگا ۔ پھر یہ مومن اس شخص کا انتظار نہیں کرتا جو اس دنیا میں بھی کچھ چاہتا ہے ۔ نہ مومن گمراہ معاشرے کو خاطر میں لاتا ہوگا ۔ پھر یہ مومن اس شخص کا انتظار نہیں کرتا جو اس دنیا میں بھی کچھ چاہتا ہے ۔ نہ مومن گمراہ معاشرے کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ وہ اہل جاہلیت سے کوئی نصرت طلب کرتا ہے ۔

وہ تمام نصوص قرآنی اور احادیث نبوی جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں وارد ہیں وہ ایک اسلامی معاشرے میں ایک مسلم کے فرائض کا تعین کرتی ہیں ۔ وہ معاشرہ جس نے اللہ کے اقتدار اعلی کے اصول کو تسلیم کر لیا ہوتا ہے جس میں اللہ کی شریعت نافذ ہوچکی ہوتی ہے اگرچہ اس میں حکومت ظالمانہ ہو ‘ اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گناہ پھیل جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” افضل جہاد ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق ہے ۔ امام جائز بہرحال امام ہوتا ہے اور جب تک یہ ظالم بادشاہ بھی اللہ کی حاکمیت کو تسلیم نہ کرے وہ امام بن ہی نہیں سکتا ۔ جب تک وہ شریعت قائم نہ کرے وہ امام نہیں ہے ۔ وہ تو کچھ اور ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ۔ (آیت) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون) ” جس نے اس قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں ۔ جاہلی معاشروں کے اندر ہونے والا بڑا منکر ‘ جس سے تمام منکرات پیدا ہوتے ہیں وہ یہی منکر ہے جس کی رو سے اللہ کے حق حاکمیت کو مسترد کیا ہوا ہوتا ہے اور اللہ کی شریعت کے قانون کو نافذ نہیں کیا جاتا ۔ اب اگر ایسے معاشرے سے واسطہ ہے تو اہل ایمان کو سب سے پہلے اس عظیم منکر کا قلع قمع کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک بنیادی منکر ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ اس کے خلاف نکیر کریں اور دوسرے جزوی منکرات میں وقت ضائع نہ کریں جو اس بڑے منکر کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں ۔ وہ تو اس کے فروعات ہیں اور ان کا وجود ہی اس بڑے منکر کا مرہون منت ہے ۔

اس میں کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ ہم اپنی قوتیں ان جزوی منکرات کے خلاف جدوجہد میں ضائع کریں ۔ بہت سے نیک فطرت اور صالح لوگ ان جزوی منکرات کے خلاف جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ یہ منکرات اس منکر اکبر کی پیداوار ہیں ۔ وہ منکر یہ ہے کہ لوگ اللہ کے حقوق پر دست درازی کرکے اللہ کے حق حاکمیت کو سلب کرتے ہیں ‘ اور اللہ کی شریعت کا انکار کرتے ہیں ۔ اس لئے ہمیں اپنی قوتیں ان جزوی منکرات کے ازالے میں ضائع نہیں کرنا چاہئیں ‘ جو اس منکراول یعنی طاغوتی اقتدار اعلی کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک اور بحث نہیں ہے کہ یہ اسی کا نتیجہ ہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک طاغوتی معاشرے میں جب ہم لوگوں کو نہی عن المنکر کرتے ہوئے کہیں کہ یہ برا کام ہے ایسا مت کرو ‘ تو ہمارے سامنے معیار اور پیمانہ کیا ہوگا ۔ مثلا ایک اسلامی آدمی کہے کہ یہ منکر ہے اور ادھر ادھر سے دس افراد اٹھ کھڑے ہوجائیں گے اور کہیں گے ہر گز نہیں ‘ یہ تو برا کام نہیں ہے ۔ ہاں پرانے زمانے کی باتیں کرتے ہوئے ‘ یہ بات کبھی ایسی تھی ۔ اب دنیا بدل گئی ہے ۔ معاشرہ ترقی کر گیا ہے اور اب اقدار بدل گئی ہیں ۔

لہذا یہ ضروری ہے کہ ایک پیمانہ ہو اور تمام لوگ اچھائی اور برائی کو اس کے مطابق جانچیں ۔ اب یہ پیمانہ اور یہ اقدار ہم کہاں سے اخذ کریں ۔ یہ میزان اور معیار کہاں سے لائیں ؟ کیا لوگوں کے اندازے ‘ لوگ کے رواج ‘ ان کی خواہشات پیمانہ حسن وقبح قرار پائیں ۔ یہ چیزیں تو بدلتی رہتی ہیں ۔ اس طرح تو ہم ایک ایسے صحرا میں داخل ہوجائیں گے جس میں کوئی راہنما نہ ہوگا اور ایسے سمندر میں داخل ہوں گے جو بےکنار ہوگا ۔

لہذا میزان عدل کا قیام پہلے ضروری ہے ۔ اس میزان اور پیمانے کو مستقل ہونا چاہئے جو لوگوں کی خواہشات کے مطابق بدلتا ہوا نہ ہو ۔ اور یہ ہے اللہ کا ترازو ‘ مستقل اور دائمی ۔

اب اگر کوئی معاشرہ سرے سے اللہ کے میزان ہی کو تسلیم نہیں کرتا تو ۔۔۔۔۔ جب لوگ اپنے فیصلے شریعت کے مطابق ہی نہیں کرتے تو ۔۔۔۔ بلکہ صورت یہ ہو کہ جو شخص اسلامی نظام کا داعی ہو ‘ اس پر ظلم ہو رہا ہو ‘ اس سے انتقام لیا جا رہا ہو ‘ اس کے ساتھ تمسخر اور مزاح ہو رہا ہو تو ۔۔۔۔۔ کیا ایسے حالات میں جزوی اصلاح کی جدوجہد ضائع نہ ہوگی محض مذاق ہو کر نہ رہ جائے گی ‘ کیا فائدہ ہوگا کہ تم ایسے معاشرے میں اٹھو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو اور بعض جزئیات کی اصلاح کے لئے انجمن بنا کر جدوجہد شروع کر دو جن کے تولنے کے بارے میں لوگوں کے پیمانے اور میزان مختلف ہوں جن کے اندر مختلف الرائے ہوں ‘ ہر شخص اپنی خواہشات کے مطابق رہ لینے میں آزاد ہو ۔

لہذا ضروری ہے کہ اصولا ایک جج پر اتفاق ہو ‘ ایک پیمانے پر اتفاق ہو ‘ ایک مقتدر اعلی اور حاکم پر اتفاق ہو ‘ اس فورم پر اتفاق ہو جو فیصلہ کرے گا اور اختلاف رائے کی صورت میں اس کا جو فیصلہ ہو اور اسے تسلیم کیا جائے ۔

یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے معروف اکبر کو قائم کیا جائے اور معروف اکبر یہ ہے کہ اللہ کے حق حاکمیت کو تسلیم کرایا جائے اور اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی جدوجہد کی جائے ، سب سے پہلے نہی عن المنکر الاکبر کیا جائے اور منکر اکبر یہ ہے کہ اللہ کے اقتدار اعلی کا انکار ہو رہا ہو ۔ اللہ کی شریعت متروک ہو ۔ اس اساس کو استوار کر کے ہی صالح معاشرے کی تعمیر ممکن ہے ۔ اس کے بعد پھر ہر طرف سے اصلاح معاشرہ کی کوششیں شروع کی جاسکتی ہیں ۔ لیکن اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام کوششوں کو مجتمع کرلیا جائے ‘ ان ایک سمت میں لگا دیا جائے اور اس اساس کو قائم کیا جائے یعنی اسلامی نظام حکومت ۔

بعض اوقات انسان دیکھتا ہے کہ بہت ہی اچھے لوگ ‘ نہایت ہی عظیم جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اور وہ امر بالعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں ۔ لیکن فروعی منکرات میں ۔ جبکہ وہ اساس جس پر اسلامی معاشرہ کی تعمیر ہوتی ہے اور جس کے اوپر امر بالمعروف ونہی عن المنکر قائم ہوتا ہے وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ۔

کیا فائدہ ہوگا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں لوگوں کو زنا سے روکیں جو زنا کو سرے سے جرم ہی تصور نہیں کرتا ۔ صرف جبری مباشرت کو جرم تصور کرتا ہے ‘ اور جبری مباشرت میں بھی شریعت کے مطابق سزا نہیں دیتا اس لئے کہ وہ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم ہی نہیں کرتا ۔ نہ وہ شریعت کو نظام زندگی تسلیم کرتا ہے ۔

کیا فائدہ ہے کہ ہم لوگوں کو اسلام کے خلاف لعن طعن کرنے سے روکیں ایک ایسے معاشرے میں جس میں اللہ کی حکومت کا اعتراف نہ ہو ‘ جس میں اللہ کی بندگی نہ ہوتی ہو ‘ بلکہ اس میں انسانوں کو رب بنایا گیا ہو ۔ انسان لوگوں کے لئے پارلیمنٹ سے قانون نازل کرتے ہوں ‘ لوگوں کے لئے نظام زندگی اور زندگی کے طور طریقے وضع کرتے ہوں ‘ ان کے لئے اقدار حیات اور حسن وقبیح کے پیمانے وضع کرتے ہوں اور گالیاں دینے والا جسے گالیاں دی جارہی ہیں وہ دونوں اللہ کے دین سے خارج ہوں ۔

حالات میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فائدہ کیا ہوگا ؟ صغائر تو صغائر میں کہتا ہوں ان کبائر سے روکنے کا فائدہ کیا ہوگا ؟ جبکہ اکبر الکبائر سے کوئی کسی کو نہ روکتا ہو ‘ کفر عام ہو اور اللہ کی شریعت اور نظام زندگی متروک ہو ۔

یہ معاملہ اس سے بہت برا اور بہت اہم ہے ۔ یہ نیک لوگ جو سعی اور جہد کر رہے ہیں اس سے یہ بہت ہی بڑا ہے ۔ یہ ایسا مرحلہ نہیں ہے جس کے اندر ہم فروعی معاملات اور جزوی اصلاحات کے اندر اپنی قوتیں ضائع کریں ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر جزوی معاملات نہ ہوں بڑے معاملات نہ ہوں اور جزوی اصلاحات کے اندر اپنی قوتیں ضائع کریں ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر جزوی معاملات نہ ہوں بڑے معاملات ہوں بلکہ حدود اللہ کیوں نہ ہوں لیکن حدود اللہ بھی تب قائم ہوں گی کہ ہم اللہ کی حاکمیت اور اقتدار اعلی کا اعتراف کرلیں اور یہ مسئلہ طے ہوجائے کہ اقتدار اعلی اللہ کا ہوگا ۔ اللہ کے سوا کسی کو حق حاکمیت حاصل نہ ہوگا ۔ جب تک یہ اعتراف حقیقت واقعیہ نہیں بن جاتا ‘ جب تک شریعت کو ماخذ قانون قرار نہیں دے دیا جاتا ‘ جب تک اللہ کی ربوبیت اور اللہ کی حاکمیت حکومت اور قوت کے ماخذ نہ بن جائیں تو فروعات کے اندر تمام کوششیں اور تمام انفرادی مساعی ضائع ہوں گی اور ہوتی رہیں گی ۔ مناسب یہی ہے کہ ہم سب سے پہلے منکراکبر کے خلاف جہدوجہد شروع کردیں اور تمام دوسرے منکرات کو بعد میں لیں۔

حضور ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ جو بھی تم میں سے کسی منکر کو پائے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے ہاتھ سے روکے اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اس کی بھی طاقت نہ ہو ‘ دل سے برا جانے اور یہ ضعیف الایمان کا درجہ ہے ۔

اہل دین پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ منکر کو ہاتھ سے نہیں روک سکتے ۔ وہ زبان وقلم سے بھی منکر کے خلاف کوئی کام نہیں کرسکتے ۔ اس کے بعد اضعف الایمان کا درجہ ہی رہ جاتا ہے ۔ دل سے برا جاننا ۔ دل کی دنیا میں تو کوئی مداخلت کر ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے دل کی دنیا والے ہمیشہ اضعف الایمان کے درجے میں ہوئے ہیں ‘ یعنی برائی کو دل سے برا جاننا ۔ اگر وہ سچے مسلمان ہوں اور دل سے برائی کو برا سمجھتے ہیں۔

یہ کوئی منفی موقف نہیں ہے جو کوئی برائی کے خلاف اختیار کرے گا ۔ جیسا کہ بظاہر نظر آتا ہے ۔ حضور ﷺ نے جو انداز بیان اختیار کیا ہے وہ مثبت انداز ہے ۔ مثلا دل سے برائی کو برا سمجھتا ہی دل کی جانب سے ایک مثبت کام ہے ۔ مثلا دل اسے برا سمجھتا ہے ‘ اس سے نفرت کرتا ہے اور منکر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا ۔ اور دل و دماغ ایسی صورت حال کو جائز قانونی صورت نہیں سمجھتے ۔ اور جب دل و دماغ کسی صورت حال کو تسلیم نہیں کرتے تو یہ بھی درحقیقت اس صورت حالات کو ختم کرنے کی طرف ایک مثبت اقدام ہوتا ہے ۔ دل میں یہ عزم ہوتا ہے کہ جب بھی فرص ملے گی اس منکر صورت حال کی جگہ معروف صورت حال کو قائم کردیا جائے اور ایسا شخص انتظار میں بیٹھا ہوگا کہ کس وقت وہ منکر پر حملہ آور ہو اور یہ تمام کام ایجابی اور مثبت کام ہیں اگرچہ یہ ایک ضعیف درجہ ہے ۔ کسی برے وقت میں ایک مسلمان کے لئے یہ بھی کیا کم ہے کہ وہ اس درجے پر قائم رہے ۔ کم ازکم وہ منکر کے سامنے ہتھیار تو نہیں ڈالتا کہ منکر ایک واقعہ ہے اسے مان ہی لو۔ اور بعض اوقات جب احساس زیاں ختم ہوجاتا ہے تو انسا اضعف الایمان کے مقام سے بھی گر جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر کیا ہوتا ہے ؟ یہ کہ بنی اسرائیل کی طرح پورا معاشرہ لعنت کا مستحق ہوجاتا ہے اور اللہ کا یہ قول ان پر صادق آتا ہے ۔

” بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے ۔ انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا ۔

اب اس سے آگے بھی بات بنی اسرائیل ہی کی چلتی ہے اور اس پر ہمارے اس پارے کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ حضور ﷺ کے دور میں ان کے جو شب وروز تھے وہ بتائے جاتے ہیں ۔ کم وبیش ہر دور میں ان کے حالات ایسے ہی رہے ہیں ۔ ان لوگوں نے ہمیشہ اہل اسلام اور جماعت مسلمہ کے خلاف کفار اور بت پرستوں کے ساتھ ایکا کیا اور اس کا سبب یہ ہے ‘ باوجود اس کے کہ وہ اہل کتاب ہیں ‘ وہ اللہ اور نبی ﷺ پر ایمان نہیں لائے ۔ چونکہ وہ اس آخری دین میں داخل نہیں ہوئے وہ مومن نہیں ہیں ۔ اگر یہ مومن ہوتے تو کافروں کے ساتھ تعلق موالات قائم نہ کرتے ۔