قل يا اهل الكتاب لا تغلوا في دينكم غير الحق ولا تتبعوا اهواء قوم قد ضلوا من قبل واضلوا كثيرا وضلوا عن سواء السبيل ٧٧
قُلْ يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ لَا تَغْلُوا۟ فِى دِينِكُمْ غَيْرَ ٱلْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوٓا۟ أَهْوَآءَ قَوْمٍۢ قَدْ ضَلُّوا۟ مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا۟ كَثِيرًۭا وَضَلُّوا۟ عَن سَوَآءِ ٱلسَّبِيلِ ٧٧
قُلْ
یٰۤاَهْلَ
الْكِتٰبِ
لَا
تَغْلُوْا
فِیْ
دِیْنِكُمْ
غَیْرَ
الْحَقِّ
وَلَا
تَتَّبِعُوْۤا
اَهْوَآءَ
قَوْمٍ
قَدْ
ضَلُّوْا
مِنْ
قَبْلُ
وَاَضَلُّوْا
كَثِیْرًا
وَّضَلُّوْا
عَنْ
سَوَآءِ
السَّبِیْلِ
۟۠
3

حضرت مسیح کے ابتدائی شاگردوں کے نزدیک مسیح ’’ایک انسان تھا جو خدا کی طرف سے تھا‘‘۔وہ آپ کو انسان اور اللہ کا رسول سمجھتے تھے۔ مگر آپ کا دین جب شام کے علاقہ سے باہر نکلا تو اس کو مصر ویونان کے فلسفہ سے سابقہ پیش آیا۔ مسیحیت قبول کرکے ایسے لوگ مسیحیت میں داخل ہوئے جو وقت کے فلسفیانہ افکار سے متاثر تھے۔ اس طرح اندرونی اسباب اور بیرونی محرکات کے تحت مسیحیت میں ایک نیا دور شروع ہوا جب کہ مسیحیت کو وقت کے غالب فلسفیانہ اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔

اس زمانہ کی مہذب دنیا میں مصر ویونان کے فلسفیوں کا زور تھا۔ وقت کے ذہین لوگ عام طورپر انھیں کے افکار کی روشنی میں سوچتے تھے۔ یونانی فلاسفہ نے اپنے قیاسات کے ذریعہ عالم کی ایک خیالی تصویر بنا رکھی تھی۔ وہ حقیقت کی تعبیر تین اقنوموں (Hypostases) کی صورت میں کرتے تھے — وجود، حیات اور علم۔ مسیحی علماء جو خود بھی ان افکار سے مرعوب تھے، نیز وقت کے ذہين طبقہ کو مسیحیت کی طرف مائل کرنا چاہتے تھے، انھوں نے اپنے مذہب کو وقت کے غالب فکر پر ڈھالنے کی کوشش کی۔انھوں نے مسیحیت کی ایسی تعبیر کی جس میں خدا کا دین بھی اسی ’’تین‘‘ کے جامہ میں ڈھل جائے اور لوگ اس کو اپنے ذہن کے مطابق پاکر اس کو قبول کرلیں۔ انھوں نے کہا کہ مذہبی حقیقت بھی ایک تثلیث کی صورت گری ہے۔ اقنومِ وجود باپ ہے۔ اقنومِ حیات بیٹا ہے اور اقنومِ علم روح القدس ہے۔ اس کلامی مذہب کو مکمل کرنے کے لیے اور بہت سے خیالات اس میں داخل کیے گئے۔ مثلاً یہ کہ حضرت مسیح ’’کلام‘‘ کا جسدی ظہور ہیں۔ ہبوط آدم کے بعد ہر انسان گنہ گار ہوچکا ہے۔ اور انسان کی نجات کے لیے خدا کے بیٹے کو مصلوب ہو کر اس کا کفارہ دینا پڑا، وغیرہ۔ اس طرح چوتھی صدی عیسوی میں مصری، یونانی اور رومی تخیلات میں ڈھل کر وہ چیز تیار ہوئی جس کو موجودہ مسیحیت کہاجاتاہے۔

خدا کی سواء السبیل سے بھٹکنے کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ لوگ گم راہ قوموں کے خیالات سے مرعوب ہو کر دین کو ان کے خیالات کے سانچہ میں ڈھالنے لگتے ہیں۔ خدا کے دین کو مانتے ہوئے اس کی تعبیر اس ڈھنگ سے کرتے ہیں کہ وہ غالب افکار کے مطابق نظر آنے لگے۔ وہ خدا کے دین کے نام پر غیر خدا کے دین کو اپنا لیتے ہیں۔ نصاریٰ نے اپنے دین کو اپنے زمانہ کی مشرک قوموں کے افکار میں ڈھال لیا اور اسی کو خدا کا مقبول دین کہنے لگے۔ یہی چیز کبھی اس طرح پیش آتی ہے کہ دین کو خود اپنے قومی عزائم کے سانچہ میں ڈھال لیا جاتاہے۔ اس دوسری تحریف کی مثال یہود ہیں۔ انھوں نے خدا کے دین کی ایسی تعبیر کی کہ وہ ان کی دنیوی زندگی کی تصدیق کرنے والا بن جائے۔ مسلمانوں کے لیے کتاب الٰہی کے متن میں اس قسم کی تعبیرات داخل کرنے کا موقع نہیں ہے۔ تاہم متن کے باہر انھیں وہ سب کچھ کرنے کی آزادی ہے جو پچھلی قوموں نے کیا۔