آپ 5:51 سے 5:52 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
۞ يا ايها الذين امنوا لا تتخذوا اليهود والنصارى اولياء بعضهم اولياء بعض ومن يتولهم منكم فانه منهم ان الله لا يهدي القوم الظالمين ٥١ فترى الذين في قلوبهم مرض يسارعون فيهم يقولون نخشى ان تصيبنا دايرة فعسى الله ان ياتي بالفتح او امر من عنده فيصبحوا على ما اسروا في انفسهم نادمين ٥٢
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ ٥١ فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌۭ يُسَـٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَ ةٌۭ ۚ فَعَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍۢ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَـٰدِمِينَ ٥٢
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
لَا
تَتَّخِذُوا
الْیَهُوْدَ
وَالنَّصٰرٰۤی
اَوْلِیَآءَ ؔۘ
بَعْضُهُمْ
اَوْلِیَآءُ
بَعْضٍ ؕ
وَمَنْ
یَّتَوَلَّهُمْ
مِّنْكُمْ
فَاِنَّهٗ
مِنْهُمْ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
لَا
یَهْدِی
الْقَوْمَ
الظّٰلِمِیْنَ
۟
فَتَرَی
الَّذِیْنَ
فِیْ
قُلُوْبِهِمْ
مَّرَضٌ
یُّسَارِعُوْنَ
فِیْهِمْ
یَقُوْلُوْنَ
نَخْشٰۤی
اَنْ
تُصِیْبَنَا
دَآىِٕرَةٌ ؕ
فَعَسَی
اللّٰهُ
اَنْ
یَّاْتِیَ
بِالْفَتْحِ
اَوْ
اَمْرٍ
مِّنْ
عِنْدِهٖ
فَیُصْبِحُوْا
عَلٰی
مَاۤ
اَسَرُّوْا
فِیْۤ
اَنْفُسِهِمْ
نٰدِمِیْنَ
۟ؕ
3

(آیت) ” نمبر 51 تا 53۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ولایت اور رفاقت کا مفہوم متعین کردیا جائے جس سے اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ سختی سے منع کرتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ رفاقت نہ ہونی چاہئے ۔

اس رفاقت کا مفہوم یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ حلیفانہ اور باہم تعاون اور امداد کا معاہدہ نہ ہونا چاہئے ۔ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ تم ان کے دین کی اتباع کرو اور اس لئے کہ یہ تو سوچنا بھی ممکن نہیں ہے کہ مسلمانوں میں ایسا بھی کوئی ہو سکتا ہے کہ وہ یہودیوں اور نصرانیوں کے دین کی اتباع کرتا ہو۔ یہ درحقیقت باہم تحالف اور معاونت کی دوستی ہوتی تھی ‘ جس کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کا ذہن صاف نہ تھا کہ یہ بھی حرام ہے ۔ مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ ایسے تحالف اور تعاون ابھی تک جائز ہیں ۔ اور یہ التباس اس لئے تھا کہ اسلام سے پہلے ان لوگوں کے درمیان ایسے دوستی کے معاہدے ہوا کرتے تھے اور اسلام کے ابتدائی ایام میں بھی ایسا ہوتا تھا خصوصا مدینہ کے ابتدائی ایام میں ۔ ان نصوص کے ذریعے اللہ نے اس سے منع کردیا اور ایسے معاہدوں کو باطل قرار دے دیا ۔ خصوصا جبکہ میثاق مدینہ کے مطابق مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہونے والے معاہدے پر یہودیوں نے عمل نہ کیا تھا اور اس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ اہل اسلام اور ان کے درمیان اب کوئی معاہدہ ولا ممکن نہیں ہے ۔

یہ مفہوم اور مدلول قرآن کی تعبیرات سے اچھی طرح واضح ہے ۔ (دیکھئے مسلمانان مدینہ اور ان مسلمانوں کے بارے میں جو ابھی تک مکہ میں تھے اور انہوں نے ہجرت نہ کی تھی (آیت) ” مالکم من ولایتھم من شیء حتی یھاجروا “ یعنی تمہارے اور ان کے درمیان کوئی دوستی اور رفاقت نہیں ہے ۔ الا یہ کہ وہ ہجرت کریں ۔ ظاہر ہے کہ اس ولایت سے مراد ولایت فی الدین یعنی اسلامی بھائی چارہ نہیں ہے ۔ یہاں ولایت سے مراد وہ دوستی ہے جس میں از روئے معاہدہ ایک دوسرے کے ساتھ نصرت اور تعاون کا اقرار کیا جاتا ہے ۔ یہ معاہدہ ان لوگوں کے درمیان بھی نہیں ہو سکتا جو اگرچہ مسلمان ہوں لیکن انہوں نے دارالاسلام کی طرف ابھی تک ہجرت نہ کی ہو ۔ یہی قسم ہے جس سے ان آیات میں اہل اسلام کو منع کیا گیا ہے کہ وہ یہود ونصاری کے ساتھ اس قسم کی دوستی نہ کریں جبکہ مدینہ کے ابتدائی دونوں میں یہ عہد قائم تھا ۔

اہل کتاب کے ساتھ رواداری کا رویہ اور بات ہے اور انکے ساتھ دوستی کے معاہدے کرکے ان کو اپنا دوست بنانا اور چیز ہے لیکن اہل اسلام کے دماغ کے اندر ابھی تک دین کی حقیقت نہیں اتری اور ابھی تک انہوں نے دین کے فرائض ووظائف کو نہیں سمجھا کہ دین ایک منظم اور حقیقت پسندانہ منہاج ہے ۔ یہ مسلسل حرکت میں رہتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر ایک واقعی صورت حال پیدا کر دے جو اسلامی تصورحیات کے مطابق ہو ۔ یہ تصورحیات ان تمام تصورات سے مختلف ہے جو انسانیت کے اندر متعارف رہے ہیں۔ اس طرح اس اسلامی صورت حالات کا پھر ان تمام تصورات و حالات کے ساتھ تصادم ہوتا ہے جو اس کے خلاف ہوتے ہیں ۔ نیز اس کا لوگوں کی خواہشات کے ساتھ ‘ لوگوں کے فسق وفجور اور انکے انحرافات کے ساتھ بھی تصادم ہوتا ہے اور یہ نظام بھی ایسی کشمکش میں داخل ہوجاتا ہے کہ اس سے کوئی چھٹکارا نہیں ہوتا ۔ یہ تصادم اس لئے ہوتا ہے کہ اسلامی نظام ایک جدید صورت حال پیدا کرتا ہے اور اپنے اس ہدف کی طرف وہ مسلسل مثبت طور پر حرکت کرتا رہتا ہے ۔

ایسے لوگ جن کے شعور واحساس کے اندر اسلامی نظریہ حیات کا یہ پہلو واضح نہیں ہوتا اور جن کے شعور کے اندر اسلا اور دوسرے ملل ونحل کے اندر برپا معرکے کا اچھی طرح ادراک نہیں ہوتا اور جو اس قسم کی واضح قرآنی ہدایات سے غافل ہیں تو وہ ان ہدایات جن کے اندر اسلامی معاشرے میں رہنے والے اہل کتاب کے ساتھ رواداری کا حکم دیا گیا ہے اور ان کے تمام حقوق محفوظ کئے گئے ہیں اور ان ہدایات کے درمیان جو معاہدات تحالف اور باہم نصرت کے بارے میں ہوتے ہیں اور جن کے مطابق ولایت اور دوستی صرف اللہ اور رسول اللہ اور جماعت مسلمہ کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے وہ ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کرتے ۔ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جب اسلام اور اہل کتاب کے درمیان کوئی معرکہ درپیش ہو تو اس میں اہل کتاب اور تمام دوسرے اہل کفر ایک دوسرے کے حلیف ہوتے ہیں اور یہ ان کی ایک مستقل پالیسی اور صفت ہے ۔ ان کو مسلمانوں کے ساتھ محض ان کے اسلام کی وجہ سے دشمنی ہوتی ہے اور یہ کہ وہ کسی مسلمان سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے دین کو چھوڑ کر ان کے دین کی اطاعت اختیار نہیں کرلیتا یہی وجہ ہے کہ تمام اہل کتاب اسلام اور اسلامی جماعتوں کے خلاف مسلسل برسرپیکار ہیں ۔ تاہم انکے منہ سے بھی کبھی کبھی یہ بات نکل جاتی ہے اور ان کے دلوں میں جو کچھ چھپا ہوا ہے وہ تو بہت ہی بڑا ہے ۔ یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں ۔

ایک مسلمان کو بہرحال یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ رواداری کا رویہ اختیار کرے ۔ لیکن اسے اس بات سے روکا گیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرے ۔ یعنی باہم نصرت اور حلیفانہ دوستی ۔ اس کی راہ جس پر چل کر اس نے دین کو قائم کرنا ہے اور اسے دنیا پہ غالب کرنا ہے اہل کتاب کی راہ سے بہت دور ہے اگرچہ وہ بہت بڑی رواداری اور محبت کا اظہار کیوں نہ کریں ۔ اس لئے کہ یہ لوگ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوسکتے کہ مسلمان اپنے دین پر قائم رہیں اور اسلامی نظام کو روبعمل لائیں اور یہ رواداری انہیں اس بات سے نہیں روک سکتی کہ وہ اسلام کے خلاف یکجا ہو کر نہ لڑیں۔ وہ ہمیشہ ایسا کرتے ہیں۔

یہ ایک عظیم سادہ لوحی ہوگی اور یہ ایک عظیم غفلت ہوگی کہ ہم یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہمارے لئے دین کے غلبے کی راہ وہی ہے جس پر اہل کتاب یہودونصاری چل رہے ہیں اور اس راہ پر چل کر ہم کفار اور ملحدین کا مقابلہ کریں گے جب کہ کفار اور ملحد تو آج کل سب سے زیادہ یہی اہل کتاب ہیں ۔ چناچہ اب معرکہ بھی مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان ہے ۔

ہم میں سے جو سادہ لوح لوگ ہیں وہ اس ساری حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے اور ہر دور میں ایسے مسلمان رہے ہیں کہ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان اور اہل کتاب مل کر الحاد اور مادیت کے خلاف جنگ کرسکتے ہیں اس لئے کہ اہل کتاب بھی اہل دین ہیں اور ہم بھی اہل دین ہیں ۔ لیکن یہ سادہ لوح لوگ قرآن کریم کی ان تمام تعلیمات کو بھول جاتے ہیں بلکہ پوری اسلامی تاریخ کو بھول جاتے ہیں ۔ اہل کتاب تو وہی لوگ ہیں جو ملحد اور مشرک لوگوں سے کہتے تھے ۔ (آیت) ” ھولاء اھدی من الذین امنوا سبیلا “۔ (یہ مشرک ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہدایت پر ہیں جو ایمان لائے ہیں ) اور یہ اہل کتاب ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف احزاب کو جمع کیا تھا اور مدینہ پرچڑھ دوڑے تھے ۔ یہ تمام احزاب کو پروٹیکشن دیتے تھے ۔ یہ اہل کتاب ہی تھے جنہوں نے دو صد سال تک اسلام کے خلاف صلیبی جنگیں لڑیں اور یہی اہل کتاب ہی تو تھے جنہوں نے اندلس میں مسلمانوں کے خلاف ناقابل تصور جرائم کا ارتکاب کیا ۔ یہی اہل کتاب ہیں جنہوں نے حال ہی میں فلسطین سے عرب مسلمانوں کو نکالا اور انکی جگہ یہودیوں کو بسایا اور اس سلسلے میں وہ تمام ملحدوں اور زندیقوں سے تعاون کرتے رہے ۔ یہ اہل کتاب ہی ہیں جو ہر جگہ سے مسلمانوں کو خانہ بدر کر رہے ہیں ‘ حبشہ میں ‘ صومالیہ میں ‘ اریٹریا میں اور الجزائر میں غرض ہر جگہ وہ اس مالک بدری اور اس ظلم میں وہ ملحدین ‘ مشرکین اور بت پرستوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ۔ یوگو سلاویہ ‘ چین ‘ ترکستان اور ہندوستان اور ہر جگہ وہ دشمنان اسلام کے ساتھ معاون ہیں۔

قرآن کریم کی ان مکمل اور جامع ہدایات اور فیصلوں کے بعد بھی ہم میں ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور ان اہل کتاب کے درمیان ملحدانہ مادہ پرستی کے خلاف تعاون اور دوستی ہو سکتی ہے ۔ ایسے لوگوں نے درحقیقت قرآن کریم کا مطالعہ اچھی طرح نہیں کیا اور اگر کیا ہے تو پھر ان کے ذہنوں میں اسلام کے نظریہ مذہبی رواداری اور نظریہ ولایت اور دوستی کے درمیان خلط واقعہ ہوگیا ہے ۔

یہ اس قسم کے لوگ ہیں کہ ان کے شعور میں اسلام کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اسلام ایک نظریہ حیات ہے جو لوگوں سے کوئی دوسرا نظریہ قبول نہیں کرتا ۔ نہ ان کے ذہن میں یہ بات ہے کہ اسلام ایک مثبت تحریک ہے جو اس دنیا کی صورت حال کو یکسر بدلنا چاہتا ہے اور یہ کہ اہل کتاب نے ہمیشہ اسلام کی راہ روکی ہے ‘ جس طرح وہ آج بھی اسلام کی راہ روکے کھڑے ہیں اور یہ اہل کتاب کا وہ موقف ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ یہی ان کے لئے واحد طبعی موقف ہے ۔

ہم ان لوگوں کو ان کی اسی پوزیشن میں چھوڑے ہوئے ہیں کہ وہ غافل رہیں اور یا متغافل رہیں اور ہم خود اللہ کی ان ہدایات پر غور کریں جو بالکل واضح اور صریح ہیں۔

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ (51)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہیں میں ہے یقینا اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔ ‘

اس پکار کا رخ مدینہ طیبہ کے اندر کام کرنے والی جماعت مسلمہ کی طرف ہے لیکن یہی ہدایات ان تمام جماعتوں کے لئے بھی ہیں جو اس کرہ ارض پر کسی بھی جگہ کام کرتی ہیں ۔ اور یہی ہدایات قیامت تک رہیں گی ۔ ان تمام لوگوں پر جن پر یہ لقب درست طور پر استعمال ہو۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ نزول قرآن کے وقت ان ہدایات کی ضرورت اس لئے پیش آگئی تھیں اور اہل ایمان کو یہ ہدایات اس لئے دی گئی تھی کہ اس وقت مسلمانوں اور مدینہ کے اردگرد بسنے والے یہودیوں کے درمیان مکمل قطع تعلق نہ تھا ۔ ان کے درمیان ولایت کے اور حلیفانہ تعلقات ابھی تک باقی تھے ۔ اقتصادی اور دوسرے معاملات ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے تھے اور پڑوس اور ہم نشینی کے تعلقات بھی دونوں کے درمیان موجود تھے ، مدینہ کے جو تاریخی اور اقتصادی حالات تھے یہ صورت حالات ان کا طبعی نتیجہ تھی کیونکہ وہاں عربوں اور یہودیوں کے درمیان تعلقات قائم تھے ، ان حالات کی وجہ سے یہودیوں کو یہ موقع مل رہا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف سازش کرسکیں ۔ اور دین اسلام کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں ۔ ان کی یہ سازشیں مختلف نوعیت کی ہیں اور گزشتہ پانچ پاروں کی تفسیر میں ان کی پوری تفصیلات دے دی گئی ہیں اور اس سبق میں بھی اس سازش کے بعض پہلو لئے گئے ہیں۔

قرآن کریم کا نزول صرف اس غرض کے لئے ہوتا رہا کہ مسلمان کو اس دنیا میں اپنے عقیدے اور نظریہ حیات کے حوالے سے ‘ جو معرکہ درپیش ہے ‘ اور اس کے پیش نظر جو مقصد اقامت دین ہے ‘ اس بارے میں اس کی سوچ اور لازمی حد تک اس کا شعور پختہ ہوجائے ۔ نیز ایک مسلم شعور اور ان تمام لوگوں اور قوتوں کے درمیان مکمل خلیج ہوجائے جو اس دین اور اس کے نظام کی راہ روکے ہوئے ہیں اور جو کسی صورت میں بھی اسلامی جھنڈے کے نیچے نہیں آنا چاہتے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اس مکمل بائیکاٹ کے دائرے میں اخلاقی رواداری یا سماجی بائیکاٹ نہیں آتا ۔ اخلاقی برتاؤ اور سماجی روابط بہرحال ایک اچھے مسلمان کی صفات ہیں جو کسی بھی وقت اس سے جدا نہیں ہوتیں۔ ہاں ان ہدایات میں ان کے ساتھ دوستی اور حلیفانہ تعلقات سے منع کیا گیا جو صرف اللہ ‘ رسول اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ ہی ہو سکتے ہیں اور علیحدگی کا یہ وہ شعور ہے جو ایک مسلمان کے اندر ہر جگہ ‘ ہر زمانے اور ہر نسل کے اندر ہونا چاہئے ۔ قرآن کے الفاظ پر ذرا غور کیجئے ۔

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہیں میں ہے یقینا اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔ ‘

یہ لوگ خود ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو زمان ومکان کی قید سے باہر ہے اس لئے کہ یہ حقیقت ایک طبعی حقیقت ہے اور یہ ان کے مزاج کا تقاضا ہے ۔ یہ لوگ کسی جگہ اور کسی دور میں بھی اہل ایمان کے دوست نہیں بنے صدیاں بیت گئیں اور ایک مثال بھی ان کی دوستی کے سامنے نہیں آئی اور اللہ کی یہ بات سچی رہی ہے ۔ حضرت محمد ﷺ کے خلاف جنگ میں بھی اہل کتاب باہم متحد تھے ۔ آپ کے بعد ہر اسلامی جماعت کی دشمنی میں یہ متحد رہے ہیں اور تاریخ کی طویل کڑیوں میں پورے کرہ ارض پر یہ اسلام کے خلاف متحد رہے ہیں ۔ ایک بار بھی اس قاعدے کے اندر کبھی استثناء نہیں ہوا اور دنیا میں ہمیشہ وہی ہوتا رہا جو قرآن کریم نے بطور صفت یہاں اہل کتاب کے لئے استعمال کیا قرآن کریم نے ان کی یہ صفت متفرق حادثات کے حوالے سے بیان نہیں کی ہے ۔ قرآن نے جس انداز میں یہ جملہ اسمیہ یہاں استعمال کیا ہے ۔ (آیت) ” بعضھم اولیآء بعض “۔ (5 : 51) یہ محض انداز تعبیر نہیں ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ یہ باہم ولایت اور دوستی ان کا دائمی وصف ہے ۔

اس کے بعد قرآن کریم اس حقیقت کے فطرتی نتائج مرتب کرتا ہے ۔ جب یہود ونصاری صرف ایک دوسرے کے دوست ہیں تو ان کے ساتھ جو مسلمان بھی دوستی کرے گا وہ ان میں سے تصور ہوگا ۔ اسلامی صفوں کا جو شخص ان کا دوست ہوگا وہ اسلامی صف میں رہے گا ۔ وہ عملا اپنے آپ سے صفت ” اسلامی “ کی نفی کرتا ہے ۔ وہ عملا اپنے اوپر صفت یہودیت اور نصرانیت کا لباس اوڑھتا ہے ۔ حالانکہ یہ ایک فطری نتیجہ ہے ۔ (آیت) ” ومن یتولھم منکم فانہ منھم “۔ (5 : 51) (اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے)

ایسا شخص اپنے اوپر ظلم کرتا ہے ‘ اپنے دین پر ظلم کرتا ہے ۔ اس لئے کہ اس نے اپنی محبت ان کو دے دی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نہ ہدایت دیتا ہے اور نہ اس کو واپس اسلامی صفوں میں قبول کرتا ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ لا یھدی القوم الظلمین “۔ (5 : 51) (یقینا اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کردیتا ہے)

مدینہ کی اسلامی جماعت کے لئے یہ ایک نہایت ہی خوفناک دھمکی تھی ۔ یہ دھمکی اگرچہ سخت ہے لیکن بالکل قدرتی ہے اور اس کے اندر کوئی مصنوعی تشدد نہیں ہے ۔ اس لئے جو شخص بھی یہ ممنوع حرکت کرتا ہے وہ ان میں سے ہے اگر وہ ان میں سے نہ ہوتا تو ایک مسلمان کسی صورت میں بھی یہود ونصاری کا ولی اور دوست نہیں ہوتا سکتا ۔ نہ ہی اسلامی صفوں میں ایسے شخص کی ممبر شپ رہ سکتی ہے اس لئے کہ کسی اسلامی جماعت کے افراد کی دوستی اور ان کا حلیفانہ تعلق صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یہ ہے ایک دوراہا اور فیصلہ طلب یونٹ ۔

ایک مسلمان اور اسلامی نظام کے مخالفوں اور دوسرے نظاموں کے داعیوں کے درمیان مکمل علیحدگی کے معاملے میں کوئی نرمی اختیار نہیں کی جاسکتی ۔ ایک نے اسلامی جھنڈا اٹھا رکھا ہے اور دوسرے نے مخالف اسلام جھنڈا اٹھا رکھا ہے ۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کرہ ارض پر وہ اسلام کا منفرد نظام قائم نہ کرسکے گا نہ اس سلسلے میں کوئی قابل ذکر سرگرمی دکھا سکے گا ‘

جب ایک مسلمان کو یہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ اس کا دین ہی وہ واحد دین ہے جسے اللہ لوگوں کی جانب سے قبول کرے گا تو اس یقین کے اندر کوئی جھول اور کوئی نرمی نہیں رہتی ۔ اسے یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی رسالت کے بعد اب کوئی رسالت نہیں ہے اور یہ کہ یہ اسلامی نظام زندگی ہی وہ منفرد نظام ہے جسے اس نے لوگوں کی زندگیوں میں قائم کرنا ہے اور اس کے مقابلے میں دنیا کا کوئی نظام قابل عمل نہیں ہے ۔ اس کرہ ارض پر انسان کی زندگی اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک مسلمان اس نظام کو قائم نہ کردیں اور یہ کہ اللہ اسے معاف نہ کرے گا اگر وہ اپنی پوری قوت اس دین کیا قامت اور غلبے کی راہ میں پوری سعی نہیں کرتا ‘ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسن نظام کے بدلے میں کوئی دوسرا نظام بطور متبادل قبول نہیں کرتا ‘ بلکہ اسلامی نظام کے کسی جزء کیلئے بھی کوئی متبادل اسے قبول نہیں ہے ۔ اور یہ کہ جب تک وہ اسلامی عقائد و تصورات کو خالص کرکے ان کے درمیان میں سے ہر غلط اور ملاوٹ کو پاک نہیں کرتا ‘ جب تک وہ تفصیلی نظام اور قانون امور سے تمام ملاوٹوں کو ختم نہیں کرتا ‘ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ شرائع میں سے کسی چیز کو باقی رکھا ہو اس وقت تک اسلام غلبہ نہیں حاصل کرسکتا ۔ غرض ان تمام امور میں جب تک ایک مومن مکمل طور پر یکسو اور یقین محکم کا حامل نہیں ہوتا وہ اس بوجھ کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور نہ عملا اس منہاج حیات کو قائم کرسکتا ہے جس کا بھاری فریضہ اللہ تعالیٰ نے اس کے کاندھوں پر ڈالا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ فریضہ اقامت دین ایک مشکل فریضہ ہے ۔ اس کی راہ میں سخت مشکلات ہیں اور اس راہ کی ذمہ داریاں کمر توڑ ہیں۔ اس راستے میں کینہ پرور دشمن بیٹھے ہیں ، خفیہ پھندے نصب ہیں اور رنج والم کے وہ مقامات ہیں جو بعض اوقات ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں ۔ اگر ایسی صورت نہ ہو تو پھر اس وقت جو جاہلیت قائم ہے اس میں کیا تکلیف ہے ۔ چاہے بت پرستانہ جاہلیت ہو ‘ اہل کتاب کی مخلوط جاہلیت ہو یا الحاد وزندقہ کی جدید جاہلیت ہو ۔ نیز اگر اسلامی نظام کے اندر کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار کرکے اس کے اور اہل کتاب اور دوسروں کے قائم شدہ نظاموں کے درمیان فرق ہی کو ختم کردیا جائے یا اسلام اور دور جدید یا قدیم کی جاہلیت کی درمیان امتزاج اور اتحاد کرکے کوئی نظام لایا جائے اور اس پر مصالحت کرلی جائے تو یقینا پھر اس راہ میں کوئی مشکلات نہیں ہیں ۔

یہ ایک فیصلہ کن جدائی اور امتیاز ہے اور جو لوگ ان حدوں کو مٹانا چاہتے ہیں اور اپنی کوششیں رواداری اور ” تقریب بین الادیان السماویہ “ کے دل لگتے عنوان کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں وہ نہایت ہی غلط راستے پر چل رہے ہیں یہ لوگ نہ ” ادیان “ کے مفہوم کو سمجھے ہیں اور نہ ہی ” تسامح “ اور رواداری کے مفہوم کو سمجھے ہیں ۔ یاد رہے کہ رواداری محض شخصی اور ذاتی معاملات میں ہوتی ہے ۔ اسلامی عقائد و تصورات اور اسلام کے اجتماعی نظام کے ڈھانچے کے اندر کوئی رواداری ممکن نہیں ہے ۔ یہ لوگ دراصل مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے اس یقین کو متزلزل کرنا چاہتے ہیں جو ان کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ اللہ اسلام کے سوا کسی اور دین کو قبول نہیں کرتا اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اقامت دین کے لئے جدوجہد کرے اور اسلام کے مقابلے میں کوئی اور متبادل دین قبول نہ کرے نہ اس کے اندر کوئی تبدیلی اور ترمیم قبول کرے اگرچہ یہ ترمیم نہایت ہی معمولی ہو ۔ اس یقین کو قرآن کریم بار بار ایک مومن کے دل و دماغ میں بٹھانا چاہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” ان الدین عند اللہ الاسلام) (اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی دین ہے) (آیت) ” ومن یتبع غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ) (اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا تو اس سے وہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا) (آیت) ” واحذرھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک (5 : 49) (ان سے ہوشیار رہو کہ وہ تم کو فتنے میں نہ ڈال دین ان میں سے بعض چیزوں کی نسبت جو اللہ نے تیری طرف نازل کیں) (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصری اولیاء بعضھم اولیآء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم “۔ (5 : 51) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ یہود ونصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ اور تم میں جو شخص بھی انکو دوست بنائے گا ‘ اس کا شمار بھی ان میں ہوگا)

قرآن کریم اس صورت حال کی ایک جھلکی دکھاتا ہے جو اس موجود تھی اور جس کی وجہ سے قرآن کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔

(آیت) ” فتری الذین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم یقولون نخشی ان تصیبنا دآئرۃ “۔ (5 : 52) (تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں ” ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں ۔ “

ابن جریر نے اپنی سند سے ابن سعد کی یہ روایت نقل کی ہے ۔ فرماتے ہیں عبادہ ابن صامت جو حارث ابن الخزرج کی اولاد سے تھے حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! میرے یہودیوں میں بیشمار لوگ دوست ہیں اور میں یہودیوں کی دوستی سے برات اختیار کرکے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی دوستی اختیار کرتا ہوں ۔ اس پر عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین نے کہا میں تو ایک آیسا آدمی ہوں کہ میں مختلف چکروں سے ڈرتا ہوں ۔ میں تو اپنے حلیفوں اور دوستوں سے برات کا اعلان نہیں کرتا ۔

رسول اللہ نے عبداللہ ابن ابی مذکور سے کہا : ابو الحباب ‘ یہودیوں کی دوستی کے بارے میں آپ کو عبادہ ابن صامت کے ساتھ چشمک تھی تو اب وہ دوستی بھی تم قبول کرلو ‘ اس پر رئیس المنافقین نے کہا مجھے قبول ہے ۔ اس موقعہ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

(آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصری اولیآء “۔ (5 : 51) ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ زہری کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ جب بدر والوں کو شکست ہوئی تو مسلمانوں نے یہودیوں میں سے اپنے دوستوں سے کہا ‘ مناسب ہے کہ تم اسلام قبول کرلو ‘ اس سے پہلے کہ تم پر بھی بدر والوں کا دن آئے اس پر مالک بن الصیف نے کہا : تمہیں اس بات نے بہت ہی غرے میں ڈال دیا ہے کہ تم نے قریش کے کچھ لوگوں کو شکست دے دی ہے جن کو جنگ کے بارے میں کچھ علم ہی نہ تھا ۔ اگر ہم ہمت باندھتے اور تمہارے خلاف جمع ہوجاتے تو تمہارے اندر اتنی سکت نہ ہوتی کہ تم ہم سب کے خلاف لڑتے ۔ اس پر عبادہ ابن الصامت نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ یہودیوں میں میرے دوست ہیں وہ نہایت ہی مضبوط لوگ ہیں ۔ انکے پاس اسلحہ بھی بہت تھا ۔ وہ نہایت بارعب ہیں لیکن میں انکی دوستی اور معاہدہ وحلیفانہ ربط سے برات کا اعلان کرتا ہوں ۔ اب میرا اللہ اور رسول کے سوا کوئی اور دوست اور حلیف نہیں ہے ۔ اس پر عبداللہ ابن ابی نے کہا میں تو یہودیوں کی دوستی سے برات کا اعلان نہیں کرسکتا ۔ میں ایک ایسا آمدی ہوں کہ میرے نئے وہ بہت ہی ضروری ہیں ۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا :” اے ابو الحباب تمہیں معلوم ہے کہ تم عبادہ ابن صامت کے ساتھ مناقت رکھتے تھے کہ یہودیوں میں ان کے دوست زیادہ تھے ۔ اب یہ دوستیاں تمہارے ۔ ‘ تو اس پر اس نے بھی کہا : ” اچھا تو میں پھر قبول کرتا ہوں ۔ “

محمد ابن اسحاق لکھتا ہیں کہ پہلا یہودی قبیلہ جس نے رسول اللہ ﷺ اور اس کے درمیان پائے جانے والے عہد ومیثاق کو توڑا وہ بنو قینقاع تھے ۔ مجھے عاصم ابن عمر ابن قتادہ نے بتایا کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ان پر محاصرہ کرلیا ہے ۔ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دیئے ۔ اس پر عبداللہ ابی ابن السلول اٹھا : (جب یہ لوگ حضور ﷺ کے قابو آگئے تھے) تو اس نے کہا : اے محمد ﷺ میرے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ یہ لوگ خزرج کے حلیف تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اس نے دوبارہ کہا : اے محمد ! میرے دوستوں کے ساتھ نرمی کرو۔ اس پر پھر حضور ﷺ نے اس روگردانی کرلی۔ اس نے حضور ﷺ کی زرہ کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا ۔ اس پر حضور ﷺ نے اسے کہا ‘ چھوڑو مجھے ‘ اور حضور ﷺ کو بہت ہی غصہ آیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے چہرے پر اس کا پرتو آگیا ۔ اب کے بعد حضور ﷺ نے پھر کہا کہ تمہارا بیڑا غرق ہو مجھے چھوڑو۔ اس کے بعد اس نے کہا خدا کی قسم میں تمہیں ہر گز نہ چھوڑوں گا جب تک تم میرے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرو۔ چار سو سادہ اور تین سو زرہ پوش دوستوں نے میری تفاظت سرخ اور سیاہ اقوام کے مقابلے میں کی ہے اور میں چھوڑ دوں کہ آپ ایک ہی صبح میں انکی فصل کو کاٹ دیں ۔ میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میں مختلف چکروں سے ڈرتا ہوں ۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا :” اچھا وہ سب تیرے ہوئے “۔

محمد ابن اسحاق نے عبادہ ابن صامت کی ایک روایت نقل کی ہے کہ جب بنو قینقاع نے حضور ﷺ کے ساتھ جنگ کی تو عبداللہ ابن ابی ابن السلول ان کے معاملے میں بڑھ گئے اور ان کے سامنے کھڑے ہوگئے اور عبادہ ابن صامت حضور ﷺ کے پاس گئے اور یہ بھی بنو عوف ابن الخزرج میں سے تھے ۔ اور بنو قینقاع میں ان کے بھی اسی قدر حلیف تھے ‘ جس قدر عبداللہ ابن ابی کے تھے۔ عبادہ ابن الصامت نے ان کا اختیار حضور ﷺ کو دے دیا اور کہا کہ میں ان کی دوستی سے برات کا اظہار کرتا ہوں اور اب میرا دوست اور حلیف صرف اللہ اور رسول اللہ ہیں اب میں صرف اللہ اور رسول اللہ ہی کو دوست رکھتا ہوں اور کفار کے حلیفانہ تعلقات کے خاتمہ کا اعلان کرتا ہوں ۔ تب اللہ نے عبادہ ابن الصامت اور عبداللہ ابن ابی کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ۔

(آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصری اولیاء بعضھم اولیآء بعض ۔۔۔۔ تا۔۔۔۔ ومن یتول اللہ ورسولہ والذین امنوا فان حزب اللہ ھم الغلبون “۔ امام احمد نے اپنی سند سے ‘ اسامہ ابن زید کی روایت نقل کی ہے ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عبداللہ ابن ابی کے پاس گیا ۔ آپ اس کی عبادت کے لئے جارہے تھے ۔ اسکو رسول خدا ﷺ نے کہا ” میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ یہودیوں سے محبت نہ رکھو ۔ اس پر عبداللہ نے کہا : ” اسعد ابن زرارہ ان سے بغض رکھتے تھے اور وہ مرگئے۔ “

یہ روایات ان حالات کی اچھی طرح وضاحت کرتی ہیں جو اس وقت اسلامی معاشرے کے اندر عملا موجود تھے یہ معاشرہ ان روایات کے خلاف تھا جو اسلام سے پہلے مدینہ کے اندر موجود تھیں نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک یہ سوچ فیصلہ کن مرحلے تک نہ پہنچی تھی کہ مدینہ کے اردگرد موجود تھیں ۔ نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک یہ سوچ فیصلہ کن مرحلے تک نہ پہنچی تھی کہ مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے یہودیوں کے ساتھ کیسے تعلقات رکھے جائیں اور کیسے نہ رکھے جائیں ۔ ہاں ایک بات ظاہر ہے کہ ان تمام روایات کا تعلق یہودیوں سے ہے اور عیسائیوں کے بارے میں کوئی ایسی روایت مذکور نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں اور تمام دوسری جماعتوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیلئے ایک دائمی ضابطہ ‘ معیار اور ایک مستقل سوچ دینا چاہتا تھا ۔ چاہے اس کا تعلق اہل کتاب سے ہو یا مشرکین سے ہو جیسا کہ اس درس پر تفصیلی بات کرتے وقت بتایا جائے گا ۔ ہاں یہ اپنی جگہ درست ہے کہ مسلمانوں کی نسبت یہودیوں کے موقف اور طرز عمل اور عیسائیوں کے موقف اور طرز عمل کے درمیان کافی فرق تھا اور یہ فرق عہد نبوی میں تھا ۔ اور اس سورة میں ایک دوسری جگہ قرآن کریم نے اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

(آیت) ” لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی (5 : 82)

تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور ایمان والوں سے قریب ترین لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں۔ )

اس اختلاف کے باوجود جو اس وقت موجود تھا ‘ اس آیت میں یہود ونصاری ایک ہی سطح پر رکھا گیا ہے جس طرح اگلی آیت میں اہل کتاب اور کفار کو بھی ایک ہی سطح پر رکھا گیا ۔ یہ مساوات دوستی اور ولایت کی حد تک ہے اور یہ بات اسلام کے ایک دوسرے اصول پر مبنی ہے ۔ وہ اصول یہ ہے کوئی مسلم دوستی کا عہد اور حلیفانہ تعلقات صرف ایک مسلم ہی سے قائم کرسکتا ہے اس لئے کہ ہر مسلم صرف اللہ ‘ رسول اللہ اور اسلامی جماعت کے ساتھ دوستی کے تعلقات قائم کرسکتا ہے اور اس اصول کے تحت تمام گروہ اور فرقے برابر ہیں ‘ اگرچہ دوسرے ظروف واحوال میں ان کا موقف مسلمانوں کے مقابلے میں باہم مختلف ہو۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ یہ قاعدہ کلیہ اور دوٹوک اصول وضع کرتے ہوئے ‘ اللہ تعالیٰ کو تو تمام ادوار اور از منہ کا علم تھا اور یہ قاعدہ صرف حضرت نبی کریم ﷺ کے زمانے کے لئے نہ تھا اور نہ ان حالات کے لئے تھا جو اس وقت موجود تھے بعد کے حالات نے اس بات کو ثابت کردیا کہ دین اسلام اور جماعت مسلمہ کے ساتھ عیسائیوں کی عداوت ‘ دنیا کے مختلف علاقوں میں یہودیوں سے کم نہ تھی ، اگر ہم عرب کے عیسائیوں کے موقف کو مستثنی کردیں ‘ جنہوں نے اسلام کا خوب استقبال کیا تو باقی دنیا میں ‘ خصوصا یورپ میں عیسائیوں نے اہل اسلام اور دین اسلام کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ یہودیوں کے مقابلے میں بہت خراب تھا یا ان سے کم نہ تھا ۔ انہوں نے اسلام کے ساتھ سخت کینہ پروری کی ‘ اسلام کے خلاف سازشیں کیں اور اس کے خلاف جنگیں برپا کیں ۔ حبشہ جیسے ملک کو لیجئے کہ اس کے اسی زمانے کے بادشاہ نے مسلم مہاجرین کو پناہ دی اور اسلام کو خوش آمدید کہا ۔ وہاں بھی اہل اسلام کے خلاف سخت مظالم کئے گئے جو یہودیوں سے بھی زیادہ تھے ۔

اللہ تعالیٰ کو تو تمام ادوار کا علم تھا ۔ اس لئے اللہ نے اہل اسلام کے لئے یہ قاعدہ کلیہ وضع کردیا ۔ اس میں ان حالات کو نظر انداز کیا جو اس وقت دور اول میں موجود تھے اس لئے کہ وہ حالات مستقل اور دائمی نہ تھے اس قاعدہ کلیہ پر عمل کرتے وقت اسلام بعض ممالک کی پالیسی کو نظر انداز بھی کرسکتے ہیں جن کا رویہ اسلام کے خلاف نہیں ہے یا نہ ہوگا ‘ آخر الزمان تک ۔

آج تک اسلام کے خلاف اور ان لوگوں کے خلاف جو اپنا نام مسلمانوں جیسا رکھتے ہیں اور جن کو صفت اسلام کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے اگرچہ اسلام کے ساتھ ان کا کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے ‘ یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے ایک عظیم معرکہ آرائی جاری ہے ۔ یہ معرکہ آرائی ان کی ذات اور ان کے دین کے خلاف ہے اور دنیا کے ہر حصے میں جاری ہے ۔ اور یہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے ۔ (آیت) ” بعضھم اولیاء بعض) ان میں سے بعض ، بعض دوسروں کے دوست ہیں اور یہ بات ہر عقلمند انسان پر لازم کردیتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس نصیحت کو پلے باندھ لے کہ نصیحت نہیں بلکہ اللہ کی جانب سے اس قطعی ممانعت پر عمل کرنا ہے کہ اللہ کے صحیح بندوں کی دوستی صرف اللہ کے دوستوں اور رسول اللہ سے ہوگی اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جس قدر کیمپ بھی ہوں ‘ جو اسلام کا علم بلند نہ کررہے ہوں ان سے کوئی دوستانہ تعلق نہ ہوگا اور نہ حلیفانہ تعلق ہوگا ۔ یہ اللہ کا دوٹوک فیصلہ اور قطعی حکم ہے ۔

اسلام مسلمانوں کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے اپنے تعلقات صرف عقیدے اور نظریے کے اساس پر قائم کریں اور ایک مسلمان کے تصور حیات کے اندر دوستی کا عہد اور حلیفانہ عہد یا دشمنی کا تعلق صرف نظریات کے زاویے سے ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم اور غیر مسلم کے درمیان باہم امداد اور نصرت کا معاہدہ (یعنی ولایت) کا قیام جائز نہ ہوگا اس لئے کہ ایک مسلمان اور ایک کافر کے درمیان عقائد و تصورات کے میدان میں کوئی تعاون اور نصرت نہیں ہوسکتی ۔ الحاد کے مقابلے میں بھی وہ اکٹھے نہیں ہوسکتے جیسا کہ ہم میں سے بعض سادہ لوح سوچتے ہیں ۔ بعض ایسے مسلمان اس لائن پر سوچتے ہیں جو قرآن کریم کو پڑھتے ہی نہیں اس لئے کہ دونوں کے درمیان کوئی مشترکہ بنیاد ہی نہیں ہے ۔ لہذا وہ کس بنیاد پر حلیف بن سکتے ہیں ؟

بعض لوگ جو قرآن مجید کا مطالعہ نہیں کرتے ‘ اور جن کو اسلام کی حقیقت کا ادراک بھی حاصل نہیں ہے اور بعض وہ لوگ جو فریب خوردہ ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام ادیان دین ہیں جس طرح الحاد الحاد ہیں ۔ یہ ممکن ہے کہ تمام اہل دین مل کر الحاد کے مقابلے میں کھڑے ہوں کیونکہ الحاد جنس دین کا منکر ہے اور وہ مطلق دینداری کے خلاف ہے ۔

لیکن اسلامی تصور حیات کے مطابق معاملہ اس طرح نہیں ہے اور نہ ایک ایسے مسلمان کا شعور اسے قبول کرتا ہے جس نے اسلام کا مزہ صحیح طرح چکھا ہے ۔ اسلام کا مزہ صرف وہی شخص چکھ سکتا ہے جو اسلام کو بطور نظریہ حیات قبول کرتا ہے ۔ اس کے بعد وہ اس نظریہ حیات کے لئے ہر وقت متحرک رہتا ہے اور اس کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ نظام اسلامی کو قائم کیا جائے ۔

ایک صحیح الفکر مسلمان کے ہاں یہ بات بالکل واضح اور متعین ہے کہ اللہ کے ہاں دین صرف اسلامی نظام حیات ہے ۔ اسلام کے بغیر کسی سوچ یا نظام کو اللہ دین نہیں مانتا کیونکہ اللہ نے جو فقرہ استعمال کیا ہے وہ یہ ہے ۔ (آیت) ” ان الدین عند اللہ الاسلام “ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی دین ہے۔ اسلام کے علاوہ اگر کوئی کسی اور عقیدہ وعمل کا اتباع کرتا ہے تو اللہ اسے قبول نہ کرے گا ۔ (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “۔ حضور اکرم ﷺ کے بعد تو کوئی دین میں ایسا نہیں رہا ہے جو اللہ کو مقبول ہو۔ اب تو تمام دنیا کو اسلام ہی قبول کرنا ہوگا اور اس صورت میں اسے قبول کرنا ہوگا جس صورت میں اسے حضرت محمد ﷺ نے ہم تک پہنچایا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ سے قبل نصاری کا جو دین صحیح مانا جاتا تھا وہ اب مقبول نہ ہوگا جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد یہودیوں کا دین غیر مقبول قرار پایا تھا ۔

حضور اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد یہود ونصاری کا وجود یہ معنی نہیں رکھتا کہ جس دین پر وہ عمل کر رہے ہیں وہ اللہ کو مقبول ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ بھی الہی دین پر ہیں ۔ بیشک ان کا دین الہی تھا مگر حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے اور حضور ﷺ کی بعثت کے بعد صورت حال یہ ہے اور اس کا تمام مسلمان اعتراف کرتے ہیں کہ اب صرف اسلام ہی دین کی حیثیت رکھتا ہے اور مذکورہ بالا آیت اس سلسلے میں نص قطعی ہے جس میں کسی قسم کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی ۔

ہاں یہ بات مسلمہ اصولوں میں سے ہے کہ اسلام یہودونصاری پر جبر کر کے ان کو دین اسلام کے اعتراف پر مجبور نہیں کرتا ۔ اس لئے کہ اصول یہ ہے کہ (آیت) ” لا اکراہ فی الدین) (دین میں کوئی جبر نہیں ہے) لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ جن امور پر عمل پیرا ہیں وہ دین ہے یا اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحیح دین سمجھتا ہے ۔

اس لئے اسلام کسی ایسے محاذ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا جو دینی محاذ ہو اور اس محاذ کے اندر اسلام بھی شامل ہو اور وہ الحاد کا مقابلہ کررہا ہو۔ دین تو فقط ایک ہے جس کا نام اسلام ہے اور اس کے علاوہ تمام محاذ لادین ہیں ‘ جو اسلام سے علیحدہ ہیں ۔ اب یہ لادینی نظام چاہے اپنی اصل میں الہی دین ہو اور اس کے اندر انحراف ہوگیا ہو یا وہ بت پرستانہ دین ہو اور اپنی بت پرستی قائم ہو یا الحاد ہو اور سرے سے تمام ادیان کا منکر ہو ‘ اور ان کے درمیان حلیفانہ معاہدہ ہوگیا ہو ‘ لیکن یہ تمام لادین دین اسلام سے متضاد ہیں اور ان کے اور اسلام کے درمیان کوئی حلیفانہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے درمیان دوستی ہو سکتی ہے ۔

ایک مسلمان اہل کتاب کے ساتھ معاملات رکھ سکتا ہے اور اسلام اس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ان معاملات کو بر و احسان پر استوار کرے ۔ جب تک وہ اسے دین کے معاملے میں اذیت نہ دین ۔ اسلام ایک مسلمان کو یہ اجازت بھی دیتا ہے کہ وہ ان میں سے پاکدامن عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کرسکتا ہے ۔ ہاں ان میں سے ان لوگوں کے بارے میں فقہی اختلاف ہے ۔ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا تسلیم کرتے ہیں اور جو لوگ تثلیث کے قائل ہیں کہ آیا ایسی عورتوں کتابی قرار پاکر حلال ہوں گی یا انہیں بت پرست قرار دے کر حرام قرار دیا جائے گا ۔ بہرحال اگر ہم یہ اصول ہی لیں کہ نکاح عموما جائز ہے ‘ تو بھی حسن سلوک یا جواز نکاح سے اس بات پر دلیل نہیں دی جاسکتی کہ ان کے ساتھ دین میں حلیفانہ تعلقات قائم ہو سکتے ہیں اور دوستی بھی کی جاسکتی ہے ۔ اور اس کا یہ مفہوم بھی نہیں ہے کہ اہل کتاب کا دین حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے بعد بھی اسلام کے ہاں معتبر ہے اور پھر اس کے ساتھ ایک ہی محاذ پر کھڑے ہو کر اسلام الحاد کا مقابلہ کرسکتا ہے ۔

اسلام تو آیا ہی اس لئے ہے کہ وہ اہل کتاب کے اعتقادات کو درست کرے اور بعینہ وہ اس لئے بھی آیا ہے کہ بت پرستوں کے غلط عقائد کو درست نہیں کرتا ۔ جب یہودیوں نے یہ سمجھا کہ حضرت نبی کریم ﷺ ان کو بھی دین اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں تو ان کو یہ بات نہایت دعوت دیتے ہیں تو ان کو یہ بات نہایت ہی گراں گزری کہ حضور ﷺ ان کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں تو ان کو یہ بات نہایت ہی گراں گزری کہ حضور ﷺ ان کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیں تو قرآن کریم نے ان کو اس غلط فہمی کو دور کیا اور کہا کہ اللہ تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہے اور اگر تم اعراض کرو تو تم بھی کافر ہو۔

ایک مسلمان تو اس بات کا مکلف ہے کہ وہ اہل کتاب کو اسلام کی طرف دعوت دے جس طرح وہ مکلف ہے کہ بت پرستوں اور ملحدوں کو دین اسلام کی دعوت دے ۔ ہاں اگر وہ مکلف نہیں ہے تو اس بات کا نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کو زبردستی اسلام کے اندر داخل کرے اس لئے کہ کسی کے دل و دماغ میں عقائد بذریعہ جبرواکراہ نہیں جمتے ۔ ” دین میں جبر “ صرف یہ نہیں ہے کہ ازروئے قرآن وہ ممنوع ہے ۔ اگر ممنوع نہ ہوتا تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔

یہ بات درست نہ ہوگی کہ ایک مسلمان حضرت نبی ﷺ کی بعثت کے بعد اس بات کا اعتراف کرے کہ جس دین پر اہل کتاب میں وہ مقبول دین ہے اور پھر بھی وہ انہیں دعوت دے کہ وہ اسلام کی طرف آجائیں ۔ ایک مسلمان صرف اس اساس پر اس بات کا مکلف ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی طرف دعوت دے کہ وہ ان کے دین کو دین تسلیم نہ کرے ۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر منطقی بات یہ ہوگی کہ وہ مکلف نہیں ہے ۔ اس لئے کہ یہ بھی دین ہے اور وہ بھی دین ہے ۔ اگر یہ بات بطور اصولی موضوع تسلیم کرلی جائے تو اب ایک مسلمان اور ایک اہل کتاب کے درمیان یہ محاذ کہ وہ دین اسلام کو غالب کریں ایک غیر منطقی محاذ ہوگا ۔ اس لئے کہ وہ تو دین اسلام کو دین تسلیم ہی نہیں کرتے ۔ غرض اسلام میں یہ مسئلہ دین و ایمان کا مسئلہ ہے ۔ اور پھر یہ منطقی اور فطری اتحاد وتنظیم کا بھی مسئلہ ہے ۔

جہاں تک ایمان و اعتقاد کا تعلق ہے تو معاملہ بالکل واضح ہے ۔ ہم نے اس پر بہت طویل بحث کرلی ہے اور اوپر ہم نے قرآنی آیات سے ثابت کردیا ہے کہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان کوئی دوستی یا حلیفانہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا ۔

رہی یہ بات کہ یہ ایک انتظامی اور تحریکی مسئلہ بھی ہے تو یہ بھی مذکور بالابحث سے واضح ہوگیا ہے ۔ اس لئے ایک مومن کی پوری جدوجہد یہ ہوگی کہ اسلامی نظام حیات کو زندگی کے تمام معاملات کے اندر نافذ کیا جائے اور ان تفصیلات کے ساتھ نافذ کیا جائے جن کا بیان حضرت محمد ﷺ نے کیا ہے ۔ اپنی تمام تفصیلات اور تمام پہلوؤں کے ساتھ اور زندگی کے تمام معاملات میں تو اس میدان میں ایک مسلم اس شخص کے ساتھ متحد اور ہمرکاب کس طرح ہوسکتا ہے جو سرے سے اسلام کو دین ہی نہیں مانتا ۔ نہ اسلامی شریعت کو شریعت مانتا ہے اور جس کے اہداف ومقاصد ہی دوسرے ہیں ۔ اگرچہ یہ اہداف ومقاصد اسلام کے خلاف نہیں ہیں لیکن وہ اسلام کے اہداف بھی نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ اسلام کسی ہدف اور کسی عمل کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ اسلامی عقیدے پر قائم نہ ہو ۔

(آیت) ” مثل الذین کفروا بربھم اعمالھم کرماداشتدت بہ الریح فی یوم عاصف “۔ (14 : 18) (جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو)

اسلام ایک مسلمان پر یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد صرف اسلام کے لئے کرے اور رات اور دن کی جدوجہد میں اپنی زندگی کے کسی بھی حصے کو اسلام تسلیم کرے گا جس نے نہ اسلام کے مزاج کو سمجھا ہو اور نہ دین اسلام کو سمجھا ہو ۔ یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مسلمان کی زندگی کا کوئی حصہ اسلام سے خارج بھی ہو سکتا ہے جس کے اندر ایک مسلمان ان لوگوں کے ساتھ تعاون کرے جو دشمنان اسلام ہوں اور دشمن بھی ایسے ہوں جو مسلمانوں سے تب ہی راضی ہو سکتے ہوں جب وہ اسلام کو خیر باد کہہ دیں ۔ یاد رہے کہ اس بات پر قرآن نے واضح طور پر منصوص ہدایات دی ہیں کہ یہود ونصاری تم سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین وملت کو تسلیم نہ کرلو ۔ غرض یہ اتحاد اعتقادی اور نظریاتی طور پر بھی محال ہے جس طرح یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے ۔

عبداللہ ابن ابی ابن السلول نے جو معذرت کی ‘ (یہ شخص ان لوگوں میں سے تھا جن کی دل میں بیماری تھی ) اور اس سے آگے بڑھ کر یہودیوں کے ساتھ دوستی اور حلیفانہ تعلقات قائم کئے اور اس نے جو یہ کہا کہ وہ یہودیوں کے ساتھ اپنے حلیفانہ معاہدے تو نہیں توڑ سکتا کہ وہ ایک ایسا آدمی ہے جو چکروں سے ڈرتا ہے یعنی اسے ڈر یہ تھا کہ حالات ایسے نہ ہوجائیں کہ خود اس پر سختی ہو ۔ یہ عذر اس بات کا مظہر ہے کہ اس کے دل میں بیماری تھی اور وہ ضعیف الایمان تھا ۔ اس لئے کہ ولی اور مددگار تو صرف اللہ ہوتا ہے ۔ ناصر تو صرف اللہ ہے ۔ اور اللہ کے سوا کسی اور سے نصرت طلب کرنا گمراہی ہے ۔ اگر کوئی طلب کرتا ہے تو اس کا یہ کام ہی عبث ہے اس کا کوئی فائدہ نہ نکلے گا لیکن ابن ابی کی حجت اور اس کا عذر ہر شخص کا عذر ہے جو کسی بھی دور میں ابن ابی ابن السلول کا کردار ادا کرتا ہے ۔ اس کا تصور بھی ہر اس منافق کا تصور ہے جو مریض القلب ہے اور جس نے حقیقت ایمان کو نہیں پایا ہے ۔ دوسری جانب حضرت عبادہ ابن الصامت کا دل یہودیوں کی دوستی سے بھر گیا جب اس نے دیکھا کہ یہ لوگ غدار ہیں اس لئے کہ وہ خود سچے مومن تھے ۔ انہوں نے یہودیوں کی دوستی اور حلیفانہ معاہدوں کو توڑ دیا ۔ جبکہ عبداللہ ابن ابی نے ان معاہدوں کو گرمجوشی سے لیا ‘ ان کو سینے سے لگایا اور انکو اپنے دانتوں میں مضبوط پکڑ لیا اس لئے کہ وہ منافق تھا ۔

یہ دو طریق کار ہیں اور دو طرز ہائے عمل ہیں ‘ یہ دونوں مختلف عقائد و تصورات سے پیدا ہوئے ۔ ان دونوں کی تہ میں دو مختلف شعور کام کر رہے تھے اور یہی اختلاف دو مختلف طرز ہائے عمل کے درمیان قیامت تک رہے گا ۔ ایک قلب مومن ہوگا اور دوسرا قلب ایسا ہوگا جس نے ایمان کو نہ پہچانا ہوگا ۔

جو لوگ دین کے ایسے دشمنوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہیں اور انکے ساتھ اکٹھ کرتے ہیں ‘ جو منافق ہیں کو ہیں اور جن کا نطریہ ‘ جن کی دوستی اور جن کا اعتماد اللہ اور رسول اللہ کے لئے مخلصانہ نہیں ہے ‘ ان کو اللہ تعالیٰ نہایت ہی سختی سے تنبیہ کرتے ہیں کہ اللہ کی جانب سے یا تو اہل اسلام کو فتح نصیب ہوگی یا اور کوئی ایسی بات ظاہر کردی جائے گی جو فیصلہ کن ہوگی اور اس طرح ان کا نفاق ظاہر ہوجائے گا ۔ اور وہ پھر بہت شرمندہ ہوں گے ۔

(آیت) ” فَعَسَی اللّہُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِہِ فَیُصْبِحُواْ عَلَی مَا أَسَرُّواْ فِیْ أَنْفُسِہِمْ نَادِمِیْنَ (52)

” مگر بعید نہی کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔

اس وقت یعنی مکمل فتح کے قریب جیسے فتح مکہ ہوئی یا کسی اور ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کے وقت اور امر الہی کے آجانے کے وقت ‘ وہ لوگ سخت شرمندہ ہوں گے جن کے دل میں نفاق کی بیماری ہے کہ کیوں انہوں نے جلد بازی سے کام لیا اور یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ دوستی اور حلیفانہ معاہدے کر لئے ۔ وہ نفاق کرتے رہے اور اب ان کا راز کھل گیا ۔ ایسے حالات میں پھر اہل ایمان کو منافقین کے حال پر تعجب ہوگا کہ کس طرح یہ لوگ اپنے سینوں میں نفاق لئے ہوئے تھے اور اب یہ لوگ کس قدر گھاٹے میں ہیں۔