ھوالذی ................ الصدور (6) (75 : 4 تا 6)
” وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ وہی زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لئے اس کی طرف رجوع کئے جاتے ہیں۔ وہی رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ “
زمین و آسمان کی تخلیق کی حقیقت ، عرش پر استوا کی حقیقت اور پوری مخلوقات کا احاطہ اور کنٹرول اور ان تمام اشیاء کا علم اور یہ حقیقت کہ اللہ ہر چیز کے ساتھ موجود ہے جہاں بھی وہ ہو۔ اور یہ کہ تمام امور کا مرجع اللہ کی طرف ہے ، اور یہ کہ وہ اس پوری کائنات میں متصرف ہے۔ اور یہ کہ وہ دلوں کے رازوں اور سوچوں کو بھی جاننے والا ہے۔ یہ سب حقائق اسی بڑی حقیقت سے نکلے ہوئے ہیں جس کا اوپر ذکر ہوا۔ لیکن ان چیزوں کو دوبارہ اس کائناتی جزئیات کے ساتھ متعلق کرکے ذکر کرنے کا قلب پر اثر ہوتا ہے اور اس پر قدرت الٰہیہ کا پر تو پڑتا ہے۔ یہ آسمان اور یہ زمین اور یہ عظیم کائنات جب انسانی سوچ کا مرکز بنتے ہیں تو اپنی عظمت اور جلالت کے باعث ، اپنی خوبصورتی اور نظام کے باعث ، اپنے پیچیدہ نظم ونسق کے باعث ، اپنی منظم حرکات کے باعث ، اپنے تسلسل کی وجہ سے یہ انسانی قلب ونظر کو بےحد متاثر کرتے ہیں۔ پھر یہ مخلوقات بھی انسانوں جیسی مخلوق ہیں لہٰذا انسانی دل ان کے ساتھ ایک قسم کا انس اور محبت رکھتا ہے ، جب انسان کا دل و دماغ اس عظیم کائنات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہیں تو فکر ونظر کی تاروں پہ ضربات پڑتی ہیں اور ان سے نئے نئے فکری زمزمے نکلتے ہیں۔ انسان ان کی طرف کان دھرتا ہے ، بڑے غور سے سنتا ہے ، مسحور ہوجاتا ہے۔ یہ نغمے اسے کیا پیغام دیتے ہیں کہ اللہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے ، اس نے اس کو بھی پیدا کیا ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور انسان بھی اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ ہم نے بھی اپنا وجود خالق کائنات سے لیا ہے اور تم نے بھی۔ لہٰذا اس کائنات میں صرف وہی ایک حقیقت ہے جو اہم ہے۔
یہ چھ دن کیا ہیں ؟ ان کی حقیقت بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمارے دنوں کی حقیقت ہی کیا ہے ؟ یہ تو سورج کے سامنے زمین کی گردش محوری کا نتیجہ ہیں۔ اور یہ سورج اور یہ زمین تو اللہ کے ایام کے بعد وجود میں آئے ہیں۔ لہٰذا یہ وہ ایام نہیں ہیں جن میں اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ لہٰذا اس کو بھی اللہ پر چھوڑ دیں جب چاہے گا ہمیں بتا دے گا۔
اور یہ عرش الٰہی ، ہم اس پر اس طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح اللہ نے اس کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ رہی یہ بات کہ اللہ نے عرش پر استوا حاصل کیا تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے مراد اس کائنات پر مکمل کنٹرول ہے۔ کیونکہ قرآن مجید نے یہ بات واضح طور پر کہہ دی ہے کہ اللہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔ اس لئے کبھی ایسا نہ تھا کہ وہ کسی وقت عرش پر نہ ہو اور بعد میں متمکن ہوا ہو۔ اور یہ بات کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہمیں اس کی کیفیت معلوم نہیں ہے ، یہ ایک ایسی بات ہے جو۔
ثم استوی ............ العرش (75 : 4) ” پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا “ کی تشریح نہیں کرتا۔ لہٰذا اسے اس کائنات کے اقتدار اعلیٰ اور کنٹرول سے کنایہ کہنا چاہئے اور اس قسم کی تفسیر سے اس اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوتی جو ہم نے ابھی بیان کی ہے۔ کیونکہ اس کنایہ میں ہم نے اپنا کوئی خیال پیش نہیں کیا بلکہ قرآن کی ایک طے شدہ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مبین ہے۔ اور اس تصور کی طرف اشاہ کیا ہے جو ذات باری خود دیتا ہے۔
تخلیق اور کنٹرول اور مکمل علم کے ساتھ ، یہ آیت اس حقیقت کو ایک ایسی تصویری انداز میں پیش کرتی ہے کہ قلب ونظر اس میں گم ہوجاتے ہیں ، یہ تصویر بہت وسیع ہے ، بلکہ یہ تصویر مسلسل حرکت میں ہے ، بہ حرکت کسی بھی وقت رکتی نہیں ہے۔ یہ محض تصوراتی تصویر نہیں ہے اور نہ شعلہ خیال ہے بلکہ ایک موثر اشاراتی رنگ ہے جو انسانی دل و دماغ کے ہر پہلو کو بھردیتا ہے ، اس سے انسان کے دل دھڑکتے ہیں ، خیال کی لہریں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور فکرکے سوتے پھوٹتے رہتے ہیں۔ ذرا غور سے پڑھئے :
یلعم ............ فیھا (75 : 4) ” اس کے علم میں ہے جو زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے ، اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے “۔ ہر لمحہ زمین کے اندر جاندار اور بےجان چیزوں کی بیشمار تعداد داخل ہوتی ہے۔ اور اسی طرح ہر لحظہ زمین سے۔ لاتعدولا نقص زندہ اور غیر زندہ اشیاء نکلتی ہیں۔ آسمان سے جو بارشیں برستی ہیں جو شعاعیں یہاں مختلف ستاروں سے پہنچتی ہیں ، شہاب ثاقب جو گرتے ہیں ، فرشتے جو اترتے ہیں راز اور اقدار جو اترتی ہیں اور جو چیزیں آسمانوں میں چڑھتی ہیں ، جو نظر آتی ہیں اور جو نظر نہیں آتیں جن کی تعداد کا علم صرف اللہ کو ہے۔ غرض یہ مختصر سی آیت ایک مسلسل حرکت کی طرف خیال کو پھیرتی ہے جو کبھی منقطع نہیں ہے اور ان بڑے بڑے واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کی تعداد معلوم نہیں ہے۔ اور انسان کا خیال مسلسل اس حرکت کے ساتھ چپک جاتا ہے کیونکہ زمین میں ہر وقت چیزیں داخل ہورہی ہیں۔ اور آسمان کی طرف ہر وقت چیزیں چڑھ رہی ہیں۔ اس طرح انسان اللہ کے علم کی وسعت سے متاثر رہتا ہے۔ جب انسان ان لاتعداد چیزوں کو دیکھتا ہے اور شمار نہیں کرسکتا۔
اگر کوئی دل اس حقیقت کی طرف دائما التفات رکھے تو وہ اللہ کی معیت میں زندگی بسر کرسکتا ہے۔ وہ اس کی مملکت میں سیر کرسکتا ہے ، جبکہ اس کا جسم اپنی جگہ برقرار ہوگا ، وہ اس کائنات کی وادیوں کی سیر کرسکتا ہے اور وہ نہایت حساسیت اور صاف و شفاف سوچ کے ساتھ نہایت خوف وتقویٰ کی حالت میں ملکوت سماوات میں گھوم پھر سکتا ہے۔
ابھی پڑھنے والا ان خیالات کے ساتھ زمین و آسمان کی وادیوں میں گھوم رہا تھا کہ قرآن نے اس کا دامن پکڑ لیا کہ ذرا اپنی ذات کی وادی میں بھی سیر کرو ، جب وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ اپنی ذات کی وادیوں میں گھومتا ہے تو باری تعالیٰ کو وہاں بھی موجودپاتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے وہ جانتا ہے اور وہ بہت قریب ہے شہ رگ سے بھی زیادہ !
وھو معکم ............ بصیر (75 : 4) ” وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ “ یہ کوئی مجاز نہیں ہے ، یہ ایک حقیقت ہے ۔ اللہ ہر کسی کے ساتھ موجود ہے۔ ہر چیز کے ساتھ موجود ہے۔ ہر وقت موجود ہے۔ ہر مکان میں موجود ہے۔ وہ بندوں کے ہر عمل سے خبردار ہے اور دیکھتا ہے اگر کوئی صرف اس حقیقت کو دل میں بٹھا لے تو یہ ایک عظیم حقیقت ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ایک پہلو سے انسان کو سراسیمہ کردیتی ہے اور ایک پہلو سے انسان کو امید اور محبت عطا کرتی ہے۔ بس یہی ایک حقیقت اگر کسی انسان کے قلب میں بیٹھ جائے تو اسے بلند کرنے اور پاک وصاف کرنے کے لئے یہ کافی ہے۔ انسان اس دنیا کی تمام دلچسپیوں اور مطلب پرستیوں سے دامن چھڑا کر اللہ کا ہوجاتا ہے اور پھر وہ ہر معاملے میں بہت محتاط ، خشیت اور خوف خدان سے سرشار اور ہر گندگی میں پڑنے سے رک جاتا ہے کیونکہ اس کو اللہ سے حیا آتی ہے۔ اب وادی ملکوت السموات والارض کی سیر ایک دوسرے زاویہ سے۔ یہ سیر ذرا اس سیر سے مختلف قسم کی ہے جو پہلے مذکور ہوئی۔
لہ ملک ............ الامور (75 : 5) ” وہی زمین و آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لئے اس کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں۔ “ سماوات اور ارض کا ذکر پہلے تخلیق کے سلسلے میں ہوا اور حیات وممات کے نقطہ نظر سے ہوا۔ اور قضا وقدر کے زاویہ سے ہوا۔ یہاں اس زاویہ سے کہ ان کے فیصلے اللہ بادشاہ کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ جب اللہ ہی مالک ہے تو فیصلے کرنا بھی اس کے اختیار میں ہے۔
جب انسان میں یہ شعور پختہ ہوجائے تو پھر وہ ہر معاملے میں اللہ کی رضا دیکھتا ہے۔ اپنے کاموں کے آغاز میں بھی اور انتہا میں بھی وہ دیکھتا ہے کہ اللہ کی مرضی کیا ہے۔ یہ شعور انسان کو غیر اللہ سے بےنیاز کردیتا ہے۔ اور ہر معاملے میں اللہ کا نیاز مند کردیتا ہے اور اسے تنہائی میں اور سوسائٹی میں ہر جگہ اللہ کی راہ پر گامزن کردیتا ہے۔ اس کی حرکت اور سکون ، اس کا مشورہ اور اس کی سوچ سب اللہ کی نگرانی میں ہوتی ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ اسے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں اور اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔
اس سورة کا یہ پہلا پیراگراف ایک ایسی حرکت پر ختم ہوتا ہے جو اس کائنات میں دست قدرت کا مظہر ہے ، جو انسانی ضمیر کی گہرائیوں تک اترتی ہے۔