اب آرہی ہے وہ آیت جو اس پوری سورة مبارکہ کا نقطہ عروج یاذروئہ سنام climax ہے۔ اس آیت کا مضمون خصوصی طور پر آج کے مسلمانوں کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے کہ آج ہمارے ہاں دین کا اصل تصور مسخ ہوچکا ہے اور یہ آیت دین کے درست تصور کو اجاگر کرتی ہے۔ دراصل انگریزوں کی غلامی کے دور میں ہم مسلمانوں کے ذہنوں میں دین کا عام تصور یہی تھا کہ حکومت انگریز کی ہے تو ہوتی رہے ‘ ہمیں کیا ! ہم نے تو نمازیں پڑھنی ہیں اور روزے رکھنے ہیں۔ اس دور میں برصغیر کے ایک بہت بڑے عالم نے کہا تھا کہ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے انگریزوں کو ہماری طرف سے کوئی تشویش لاحق ہو ‘ اس لیے کہ انہوں نے ہمیں مذہبی آزادی دے رکھی ہے۔ یعنی انگریز ہمیں نمازیں پڑھنے ‘ روزے رکھنے ‘ حج ادا کرنے اور داڑھیاں رکھنے سے نہیں روکتا۔ مذہبی آزادی کی اسی وکالت پر علامہ اقبال نے یہ پھبتی چست کی تھی : ؎ملاّ کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد ! ظاہر ہے انگریز مسلمانوں کو مراسم عبودیت ادا کرنے اور داڑھیاں بڑھانے سے کیوں منع کرتے ؟ اس سے انہیں بھلا کیا خطرہ ہوسکتا تھا۔ ملک میں قانون تو تاجِ برطانیہ کا نافذ تھا ‘ دیوانی اور فوجداری عدالتیں اسی قانون کے مطابق فیصلے کر رہی تھیں۔ اس ماحول میں اسلام کہاں تھا اور قرآنی قوانین کی کیا حیثیت تھی ؟ عام مسلمانوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ وہ تو بس اسی پر مسرور و مطمئن تھے کہ انہیں ”مکمل“ مذہبی آزادی حاصل ہے۔ بہرحال انگریز کی غلامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا تصوردین سکڑتے سکڑتے صرف چند عبادات اور رسومات rituals تک محدود ہوگیا۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں آج بھی تصور دین یہی ہے کہ نماز پڑھو ‘ روزے رکھو ‘ ہو سکے تو حج کرو ‘ قرآن خوانی کی محفلیں سجائو اور بس ! اور جہاں تک سودی کاروبار اور حرام خوریوں کا تعلق ہے یہ دنیوی معاملات ہیں ‘ اسلام کا ان سے کیا لینا دینا ؟ ہاں سال بہ سال عمرہ کر کے پچھلے گناہوں سے پاک ہوجایا کرو ‘ جیسے ہندو گنگا میں نہا کر اپنے زعم میں اپنے سارے پاپ دھو ڈالتے ہیں۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر جب آپ اس آیت کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو دین کا روایتی تصور لڑکھڑاتا ہوا محسوس ہوگا۔ اس آیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں ڈنکے کی چوٹ انقلاب کی بات کی گئی ہے ‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ایسی بےباک اور عریاں انقلابی عبارت پوری انسانی تاریخ کے کسی انقلابی لٹریچر میں موجود نہیں ہے۔ اس تمہید کے بعد آیئے اب اس آیت کا مطالعہ کریں اور اس کے ایک ایک لفظ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔آیت 25{ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ } ”ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ“ { وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ } ”اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری“ یہاں تین چیزوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے جو رسولوں کے ساتھ بھیجی گئیں : 1 بینات 2 کتاب ‘ اور 3 میزان۔۔۔۔ ان میں سب سے پہلی چیز ”بینات“ ہے۔ ”بیِّن“ اس شے کو کہتے ہیں جو اَز خود ظاہر اور نمایاں ہو اور اسے کسی دلیل اور وضاحت کی حاجت نہ ہو۔ ع ”آفتاب آمد دلیل ِآفتاب !“ یہ لفظ عام طور پر رسولوں کے تذکرے میں معجزات کے لیے آتا ہے۔ ”کتاب“ کا لفظ عام فہم اور بالکل واضح ہے ‘ جبکہ ”میزان“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نظام ہے جس میں حقوق و فرائض کا توازن موجود ہے۔ کسی معاشرے میں اگر حقوق و فرائض کے مابین توازن ہوگا تو وہ معاشرہ صحیح رہے گا ‘ اور اگر اس کے اندر عدم توازن راہ پا گیا تو اسی کا نام ظلم ‘ عدوان ‘ زیادتی اور ناانصافی ہے۔ { لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ } ”تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔“ یہ ہے اس کتاب یعنی قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد۔ اب اس کے مقابلے میں اپنی موجودہ صورت کا بھی جائزہ لیں کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں سے قرآن کو کسی حد تک ”بےدخل“ کرچکے ہیں۔ کیا قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کہ قرآن خوانی کی مجالس سجا لی جائیں ؟ یا حسن ِقراءت کی محافل کا اہتمام کرلیا جائے ‘ یا اس کی آیات کی خطاطی کی نمائشیں لگائی جائیں ‘ یا چالیس من وزنی قرآن سونے کی تاروں سے لکھ کر لوگوں کی زیارت کے لیے رکھ دیا جائے۔۔۔۔ اور زندگی باطل نظام کے تحت ہی بسر کی جائے ؟ اس حوالے سے مولانا ماہر القادری کی زبان سے قرآن کا یہ شکوہ کس قدر حقیقت پر مبنی ہے : ؎یہ میری عقیدت کے دعوے ‘ قانون پہ راضی غیروں کے یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ‘ ایسے بھی ستایا جاتا ہوں !ظاہر ہے قرآن تو ایک ضابطہ زندگی اور ایک نظام حکومت لے کر آیا ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے نظام کو عملی طور پر اپنے ملک اور معاشرے میں قائم کریں ‘ اس کی لائی ہوئی میزان کو نصب کریں اور اس کی دی ہوئی شریعت کے مطابق اپنے فیصلے کریں ع ”گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں !“ اس آیت کا مطالعہ کرتے ہوئے یہاں درج ذیل آیات کو بھی دہرانے کی ضرورت ہے۔ سورة آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں فرمایا : { قَائِمًام بِالْقِسْطِط } آیت 18 کہ میں عدل و قسط کو قائم کرنے والا ہوں۔ سورة النساء میں اہل ایمان کو باقاعدہ حکم دیا گیا : { یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنِ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ } آیت 135 ”اے اہل ایمان ! کھڑے ہو جائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر“۔ سورة المائدۃ میں الفاظ کی ترتیب بدل کر یہی حکم پھر سے دہرایا گیا : { یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنِ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز } آیت 8 ”اے اہل ایمان ! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بن جائو“۔ پھر سورة الشوریٰ میں حضور ﷺ سے اعلان کروایا گیا : { وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَـکُمْط } آیت 15 ”مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے مابین عدل قائم کروں“۔ پھر سورة الشوریٰ ہی میں فرمایا گیا : { اَللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَط } آیت 17 ”اللہ وہ ہستی ہے جس نے نازل فرمائی کتاب حق کے ساتھ اور میزان بھی“۔ یعنی سورة الشوریٰ کی اس آیت میں بھی کتاب اور میزان نازل کرنے کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے۔ اس حوالے سے سورة المائدۃ کی یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے : { قُلْ یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَـیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْط } آیت 68 ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب ! تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قائم نہیں کرتے تورات کو اور انجیل کو اور اس کو جو کچھ تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے تمہارے رب کی طرف سے“۔ سورة المائدۃ کی اس آیت کے مطالعہ کے دوران میں نے کہا تھا کہ مسلمان ”تورات و انجیل“ کی جگہ لفظ ”قرآن“ رکھ کر اس آیت کو اس طرح پڑھ کر دیکھیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے خود ہی اپنی حیثیت کا تعین کریں : ”قُلْ یٰٓـاَھْلَ الْقُرآنِِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا الْقُرْآنَ وَمَا اُنْزِلَ اِلَـیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ“ کہ اے قرآن والو ! تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قائم نہیں کرتے قرآن کو اور اس کو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔۔۔ تم قرآن کی تلاوت کر کے سمجھ لیتے ہو کہ تم نے قرآن کا حق ادا کردیا ‘ یا تراویح میں قرآن ختم کر کے فخر محسوس کرتے ہو کہ تم نے بڑا تیر مار لیا ‘ چاہے تم نے اس کا ایک حرف بھی نہ سمجھا ہو۔ یاد رکھو ! جب تک تم قرآن کے احکام کو عملی طور پر خود پر نافذ نہیں کرتے ہو اور قرآن کے نظام عدل کو اپنے ملک و معاشرہ میں قائم نہیں کرتے ہو ‘ قرآن پر ایمان کے تمہارے زبانی دعوے کی کوئی حیثیت نہیں۔ قرآن کے نظام عدل و قسط کے حوالے سے یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ معاشرے کے مراعات یافتہ طبقات کے لیے یہ نظام کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس لیے جونہی اس کے قیام کے لیے ٹھوس کوششوں کا آغاز ہوگا یہ طبقات ان کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے آموجود ہوں گے۔ ظاہر ہے جن سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات vested interests پرانے نظام کے ساتھ وابستہ ہیں ‘ وہ کب چاہیں گے کہ معاشرے میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔ اگرچہ اس حوالے سے بھی تاریخ میں استثنائی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عثمان غنی اپنے معاشرے کے اونچے طبقے سے تعلق رکھتے تھے ‘ اس کے باوجود ان دونوں حضرات رض نے اپنے مفادات ‘ کاروبار اور سٹیٹس کی پروا کیے بغیر حق کی آواز پر بلاتاخیر لبیک کہا۔ لیکن مجموعی طور پر اشرافیہ اور دولت مند طبقہ ہمیشہ نظام عدل کے قیام کی کوشش میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ مراعات یافتہ طبقات کی سرتوڑ کوشش ہوتی ہے کہ موجودہ نظام کے اندر کوئی تبدیلی نہ آئے۔ چناچہ باطل نظام کی بیخ کنی اور نظام عدل و قسط کے قیام کی جدوجہد کے لیے اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو راستے سے ہٹانا بھی ضروری ہے۔ چناچہ آیت کے اگلے حصے میں ایسے عناصر کی سرکوبی کا نسخہ بتایا جا رہا ہے : { وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ”اور ہم نے لوہا بھی اتارا ہے ‘ اس میں شدید جنگی صلاحیت ہے اور لوگوں کے لیے دوسری منفعتیں بھی ہیں۔“ نوٹ کیجیے ! نہ کوئی لگی لپٹی بات کی گئی ہے اور نہ ہی معذرت خواہانہ اسلوب اپنایا گیا ہے۔ جو بات کہنا مقصود تھی وہ دو ٹوک انداز میں ڈنکے کی چوٹ کہی گئی ہے۔ اسی لیے میں نے کہا تھا کہ یہ ”عریاں ترین“ انقلابی عبارت ہے۔ ظاہر ہے جب انقلاب اپنا راستہ بنائے گا اور جب ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مرحلہ آئے گا تو خون بھی ضرور بہے گا اور کچھ سر بھی کچلنے پڑیں گے۔ یہ انقلاب کا ناگزیر مرحلہ ہے ‘ اس کے بغیر انقلاب کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے نظام عدل کے لیے انقلاب کی بات ہو رہی ہے جو ساری کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ یہاں تو ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ دنیا میں خود انسان عدل انسانی کے اپنے تصور کی ترویج و تنفیذ کے لیے طاقت کا بےدریغ استعمال کرتے ہیں ‘ مخالف ممالک کا گھیرائو کرتے ہیں ‘ ان پر بےرحمانہ پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ ”امن کے لیے جنگ“ War for Peace کا نعرہ لگا کر کمزوروں پر چڑھائی کرتے ہیں اور پھر ملکوں کے ملک برباد کر کے رکھ دیتے ہیں ‘ اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس قتل و غارت اور بربریت کو وہ وقت کی اہم ضرورت اور عین انصاف سمجھتے ہیں۔ اس کائنات کا خالق اور مالک بھی اللہ ہے اور زمین پر حکمرانی کا حق بھی اسی کا ہے۔ اسی نے اپنی تمام مخلوق کو اپنا تابع فرمان بنایا ہے اور اسی نے انسان کو ایک حد تک اختیار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اسی اختیار کی وجہ سے انسان اکثر من مانی کرتے ہوئے اس کی حکمرانی کے مقابلے میں اپنی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی وجہ سے زمین میں فساد برپا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ وہ زمین میں عدل و انصاف کی ترویج اور اپنے قانون کی حکمرانی چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس کی مشیت یہی ہے کہ اس کے حق حکمرانی کو چیلنج کرنے والے باغیوں کو حق کی طاقت کے ذریعے سے کچل دیا جائے : { بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَـیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ} الانبیائ : 18 ”بلکہ ہم حق کو دے مارتے ہیں باطل پر تو وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے ‘ تو جبھی وہ نابود ہوجاتا ہے“۔ بہرحال اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کا یہ کام اس کے نام لیوا کریں۔ اس کے نام لیوا حق کے علمبردار بن کر اللہ کے باغیوں کا مقابلہ کریں ‘ باطل نظام کو بزور بازو اکھاڑ پھینکیں اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی کو یقینی بنائیں۔ آیت زیر مطالعہ میں لوہے کا ذکر اسی حوالے سے آیا ہے کہ اہل حق حالات و زمانہ کی ضرورت کے مطابق اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سامانِ حرب تیار کریں ‘ رائج الوقت ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں اور باطل کے مقابلے کے لیے مطلوبہ طاقت فراہم کریں۔ لیکن اس انقلابی عمل میں سب سے اہم سوال افرادی قوت کی فراہمی کا ہے ‘ اور اس عمل کی ابتدا دعوت و تبلیغ سے ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں بارہ سال تک مسلسل دعوت و تبلیغ کا کام کیا۔ حق کو قبول کرنے والے افراد کی تربیت کی ‘ انہیں منظم کیا اور جب مطلوبہ افرادی قوت فراہم ہوگئی تو آپ ﷺ نے اللہ کی مشیت کے عین مطابق طاقت کے اس ”کوڑے“ کو باطل کے سر پر یوں دے مارا کہ اس کا بھیجا نکال کے رکھ دیا۔ آج بھی یہ کام اگر ہوگا تو اسی طریقے سے ہوگا جس طریقے سے حضور ﷺ نے اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے کیا۔ آج بھی اہل حق کو اسی طرح جانیں قربان کرنا ہوں گی ‘ تکلیفیں جھیلنا پڑیں گی ‘ گھر بار چھوڑنے پڑیں گے اور جان و مال کے نقصانات برداشت کرنا پڑیں گے۔ گویا یہ انتہائی مشکل کام ہے اور اہل حق کی بےدریغ قربانیوں کے بغیر اس کا پایہ تکمیل تک پہنچنا ممکن نہیں۔ { وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ } ”اور تاکہ اللہ جان لے کہ کون مدد کرتا ہے اس کی اور اس کے رسولوں کی غیب میں ہونے کے باوجود۔ یقینا اللہ بہت قوت والا ‘ بہت زبردست ہے۔“ ”تاکہ اللہ جان لے“ کا مفہوم یہ ہے تاکہ اللہ تعالیٰ دکھادے ‘ ظاہر کر دے ‘ ممیز کر دے کہ کون ہے وہ جو غیب کے باوجود اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ گویا حق و باطل کی جنگ کے دوران جو مردانِ حق لوہے کی طاقت کو ہاتھ میں لے کر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے میدان میں آئیں گے وہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مددگار ہوں گے۔ دراصل اللہ کے دین کو غالب کرنا بنیادی طور پر حضور ﷺ کا فرضِ منصبی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اسی مقصد کے لیے مبعوث فرمایا : { ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } الصف : 9 ”وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول محمد ﷺ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ ‘ تاکہ وہ غالب کر دے اس کو کل ُ کے کل دین پر“۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ حضور ﷺ کے اس مشن میں تمام اہل ِ ایمان آپ ﷺ کے دست وبازو بنیں ‘ بلکہ سورة الصف میں تو اس کے لیے براہ راست حکم آیا ہے : { یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ } آیت 14 ”اے اہل ایمان ! اللہ کے مددگار بن جائو۔“ یہ مضمون سورة الصف میں مزید وضاحت کے ساتھ آئے گا۔ لیکن اس حوالے سے یہاں یہ اہم نکتہ سمجھ لیجیے کہ آیت زیر مطالعہ میں غلبہ دین کی تکمیل اور نظام عدل و قسط کی تنفیذ کے لیے تین چیزوں کا ذکر ہوا ہے : بینات ‘ کتاب اور میزان : { لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ } یعنی حضور ﷺ سے پہلے رسولوں کو اس مشن کے لیے بینات معجزات ‘ کتاب اور میزان کے ساتھ بھیجا جاتا رہا ‘ جبکہ حضور ﷺ کو اس مشن کے لیے صرف دو چیزیں الہدیٰ اور دین الحق عطا کی گئیں : { ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ } التوبۃ : 33 ‘ الفتح : 28 اور الصف : 9۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کے لیے بینات معجزات اور الکتاب ایک ہوگئے۔ یعنی الہدیٰ قرآن آپ ﷺ کی کتاب بھی ہے ‘ اسی میں قانون ہے اور یہی آپ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ بھی ہے ‘ جبکہ آپ ﷺ کی رسالت میں میزان شریعت مکمل ہو کر ”دین الحق“ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔