ایک دوسرا ٹچ جو اس کائنات کے صفحات کے ساتھ مربوط ہے۔ یعنی صبر کرو ، تسبیح کرو اور سجدے کرو اس حال میں کہ آپ ﷺ ایک عظیم حادثہ اور ایک عظیم واقعہ کے انتظار میں ہوں۔ جو گردش لیل و نہار کے کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ اور اس سے غافل وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کے دل غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور یہ وہ بات ہے جو اس سورت کا عمود اور محور ہے اور اصلی موضوع۔
واستمع یوم ۔۔۔۔۔ قریب (41) یوم یسمعون ۔۔۔۔ الخروج (42) انا نحن ۔۔۔۔ المصیر (43) یوم تشقق ۔۔۔۔ علینا یسیر (50 : 41 تا 44) ” اور سنو ، جس دن منادی کرنے والا (ہر شخص کے) قریب ہی سے پکارے گا ، جس دن سب لوگ آوازۂ حشر کو ٹھیک ٹھیک سن رہے ہوں گے ، وہ زمین کے مردوں کے نکلنے کا دن ہوگا۔ ہم ہی زندگی بخشتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں اور ہماری طرف ہی اس دن سب کو پلٹنا ہے جب زمین پھٹے گی اور لوگ اس کے اندر سے نکل کر تیز تیز بھاگے جا رہے ہوں گے۔ یہ حشر ہمارے لیے بہت آسان ہے “۔
یہ ایک نیا اور پر تاثیر منظر ہے۔ اس دن کا منظر جو بہت ہی مشکل دن ہوگا۔ ایک دوسری جگہ اس منظر کی تعبیر ایک دوسرے انداز میں کی گئی۔
ونفخ فی الصور ذلک یوم الوعید (50 : 20) وجاءت کل نفس معھا سائق وشھید (50 : 21) ” اور پھر صور پھونکا گیا یہ ہے وہ دن جس کا تجھے خوف دلایا جاتا تھا۔ ہر شخص اس حال میں آگیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا اور ایک گواہی دینے والا ہے “
اور یہاں نفخ صور کے ساتھ ایک چیخ کا ذکر بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی خروج کا منظر سامنے آتا ہے۔ اور پھر زمین پھٹ رہی ہے اور لوگ اس سے نکلے چلے آرہے ہیں۔ یہ تمام مخلوقات جو آغاز حیات سے اس سفر کے انتہا تک اس زمین میں دفن ہوئے تھے۔ یہ سب قبریں پھٹ پڑیں گی اور جن میں جو بھی جس قدر لوگ بھی دفن ہوئے تھے ، نکلے چلے آئیں گے۔ معری کہتا ہے :
رب قبر صار قبرا مرارا
ضاحک من تزاحم الاضداد
دفین علی بقایا دفین
فی طویل الاجال والاماد
(کتنی ہی قبریں ہیں ، جو بار بار قبریں بنی ہیں ان کے اندر جو متضاد قسم کے لوگ دفن ہوتے چلے آرہے ہیں ان پر وہ مسکرا رہی ہیں۔ ایک مردے کو دوسرے کے جسم کے بقایا جات پر دفن کیا جاتا ہے ، طویل زمانوں سے اور قدیم زمانوں سے “۔
تمام چیزیں زمین کے پھٹنے کے بعد خود بخود نکلتی چلی آئیں گی۔ ٹوٹے ہوئے جسم ، ہڈیاں ، ذرات جو زمین کی فضاؤ میں ہوں یا زمین کی وادیوں میں بہہ کر جہاں بھی ٹھہرے ہوں جن کی جگہ اللہ ہی جانتا ہے ، جمع ہوتے چلے آئیں گے ، یہ ایک ایسا منظر ہے کہ ہمارے خیال کی گرفت سے برتر ہے۔
اس پر تاثیر منظر کے سایہ ہی میں اس حقیقت کو سامنے لایا جا رہا ہے جس کا وہ انکار کرتے تھے۔