ان الله لا يغفر ان يشرك به ويغفر ما دون ذالك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد افترى اثما عظيما ٤٨
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱفْتَرَىٰٓ إِثْمًا عَظِيمًا ٤٨
اِنَّ
اللّٰهَ
لَا
یَغْفِرُ
اَنْ
یُّشْرَكَ
بِهٖ
وَیَغْفِرُ
مَا
دُوْنَ
ذٰلِكَ
لِمَنْ
یَّشَآءُ ۚ
وَمَنْ
یُّشْرِكْ
بِاللّٰهِ
فَقَدِ
افْتَرٰۤی
اِثْمًا
عَظِیْمًا
۟
3

(آیت) ” نمبر : 47 تا 48۔

اہل کتاب کو ان کی صفت اہل کتاب سے پکارا گیا ‘ اس لئے کہ اس صفت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے دعوت اسلامی کو قبول کرتے اور سب سے پہلے مسلمان بن جاتے ۔

(آیت) ” یایھا الذین اوتوالکتب امنوا بما نزلنا مصدقالما معکم “۔ (4 : 47)

” اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی ‘ مان لو اس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق وتائید کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی “۔

چونکہ ان کو کتاب دی گئی ہے ‘ اس لئے انکے لئے ہدایت قبول کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے اس لئے کہ جس اللہ نے انہیں کتاب دی ہے وہی اب انہیں دعوت ایمان دے رہا ہے کہ اس کتاب پر بھی ایمان لاؤ جو تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کر رہی ہے ۔ یہ ان کے لئے تو کوئی انوکھی بات نہیں ‘ جبکہ یہ کتاب ان کی کتابوں کی مصدق بھی ہے ۔

اگر ایمان دلائل پر موقوف ہوتا ‘ یا ظاہری اسباب پر موقوف ہوتا تو یہودی سب سے پہلے مومنین میں سے ہوتے ۔ لیکن یہودی اپنے مخصوص مفادات اور مصلحتوں کا شکار ہوگئے ۔ نیز وہ کینہ اور عناد کی وجہ سے ایمان نہ لا سکے ۔ یہ لوگ اپنے مزاج کے اعتبار سے بھی نہ ماننے والے تھے ۔ مزاج میں اکڑ تھی ۔ تورات نے ان کے لئے ” اکڑی ہوئی گردن رکھنے والی قوم “ کے الفاظ استعمال کئے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ایمان نہ لائے ۔ اللہ کی طرف سے بھی ان کے حق میں سخت اور خوفناک تہدید آئی ۔

(آیت) ” من قبل ان نطمس وجوھا فنردھا علی ادبارھا اونلعنھم کما لعنا اصحب السبت وکان امر اللہ مفعولا “۔ (4 : 47)

” اس پر ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں یا ان کو اسی طرح لعنت زدہ کردیں جس طرح سبت والوں کے ساتھ ہم نے کیا تھا ‘ اور یاد رکھو کہ اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے ۔

طمس الوجوہ ‘ کا مفہوم یہ ہے کہ چہرے کے وہ خدوخال مٹا دیئے جائیں ‘ جن کی وجہ سے انسان انسان بنتا ہے اور چہروں کو بگاڑ کر پیچھے کی طرف موڑ دیا جانا ‘ اس طرح کہ وہ پیچھے کی طرف چلے ۔ اس سے مراد انہیں خوفناک عذاب سے ڈرانا ہے جس میں ان کے چہروں کو پیٹھ کی طرف موڑ کر پیچھے کی طرف چلنے پر مجبور کرنا شامل ہے ۔ اس عذاب میں وہ لعنت بھی شامل ہے جو اصحاب السبت پر وارد ہوئی ۔ (یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سبت کے دن شکار کرنے کی کوشش کی حالانکہ ان کی شریعت کے مطابق ان پر یہ شکار حرام تھا) اس جرم پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عملا بندر اور خنزیر بنادیا تھا ۔ نیز اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تصورات اور دل و دماغ سے ہدایت اور بصیرت کے آثار مٹا دے اور ان کو دوبارہ کفر اور جاہلیت کی طرف لوٹا دے ۔ یعنی اس حالت کی طرف جب ان کے پاس کوئی کتاب ہدایت نہ تھی اور پھر یہ ایمان کے بعد کفر کی حالت میں چلے جائیں ۔ ایمان کے بعد دوبارہ کفر میں چلا جانا ‘ ہدایت کے بعد گمراہی میں چلا جانا ہی دراصل چہروں کا بگاڑ دینا ہے ۔ اور انسان کا الٹے پاؤں پھرنا ہر قسم کے ارتداد سے برا ہے۔

چاہے یہ مفہوم ہو یا وہ مفہوم ہو بہرحال یہ ایک خوفناک تہدید اور ڈراوا ہے جو یہودیوں کے کرخت اور متکبرانہ مزاج کے لئے مناسب سزا ہے ۔ اسی طرح ان کے برے اور خبیث اعمال کے لئے بھی یہی مناسب سزا ہے ۔

اس تہدید سے ڈر کر کعب الاحبار مسلمان ہوگئے تھے ۔ ابن ابی حاتم نے روایت نقل کی ہے اپنے والد ‘ ابن نفیل ‘ عمر ابن واقد ‘ یونس ابن جلیس ‘ ابو ادریس ‘ عائذ الخولانی کی سند سے ۔ انہوں نے کہا کہ ابو مسلم خلیلی کعب کے استاد تھے اور وہ انہیں رسول خدا ﷺ سے ملنے میں دیر کرنے پر ملامت کرتے تھے ۔ کہتے ہیں ابو مسلم نے کعب کو بھیجا کہ وہ حضور کو دیکھیں کہ آیا حضرت محمد ﷺ وہی ہیں “ کعب کہتے ہیں میں نے سواری کی اور مدینہ پہنچ گیا ۔ اچانک میں نے ایک تلاوت کرنے والے کو یہ تلاوت کرتے سنا ۔

(آیت) ” یایھا الذین اوتوالکتب امنوا بما نزلنا مصدقالما معکم من قبل ان نطمس وجوھا فنردھا علی ادبارھا “۔ (4 : 47)

” اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی ‘ مان لو اس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق وتائید کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی اس پر ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں “۔

میں بھاگا اور پانی سے غسل کیا اور میں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر دیکھا کہ کہیں میرا چہرہ مسخ تو نہیں ہوگیا ہے ‘ اس کے بعد میں مسلمان ہوگیا ۔

اور اس تہدید پر آخری وعید (آیت) ” وکان امر اللہ مفعولا “۔ (اور یاد رکھو کہ اللہ کا حکم نافذ ہوکر رہتا ہے) ہے ۔ یہ مکرر تہدید اور ڈراوا ہے اور یہودیوں کے مزاج کے عین مطابق ہے۔

اس کے بعد ایک اور تہدید آمیز اختتامیہ آتا ہے اور یہ آخرت کے متعلق ہے اور تنبیہ اور ڈراوا اس مقصد کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کے جرم کو کبھی معاف نہیں کرتا ‘ جبکہ اس کے سوا جس قدر اور جس قسم کے جرائم ہیں ان کی مغفرت کا دروازہ کھلا ہے ‘ بشرطیکہ اللہ کی مشیت ہو ،

(آیت) ” ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء ومن یشرک باللہ فقد افتری اثما عظیما “۔ (48)

” اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا ‘ اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے ‘ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا ‘ اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی ۔ “

سیاق کلام سے یہ بات ضمنا ثابت ہوتی ہے کہ یہودی بھی شرک میں مبتلا تھے اس لئے ان کو بھی دعوت دی جاتی ہے ۔ کہ وہ توحید خالص کو اپنائیں اور شرک کا ارتکاب نہ کریں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے کسی شرکیہ قول یافعل کا ذکر نہیں کیا ۔ البتہ قرآن کریم کے دوسرے مواقع پر بعض تفصیلات موجود ہیں ۔ قرآن کریم نے ان کے اس عقیدے کا ذکر کیا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں جیسا کہ نصاری مسیح کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ شرک ہے ۔ اسی طرح قرآن کریم نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ دونوں طبقے یہود ونصاری ” کہ انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا رکھا ہے “ یہ لوگ احبار اور رہبان کو قانون سازی کا حق دیتے تھے ۔ انکو حلال و حرام کے اختیارات بھی دیتے تھے ‘ حالانکہ یہ حقوق ایسے ہیں کہ یہ اللہ کے مخصوص حقوق ہیں اور یہ اللہ کی حاکمیت کا مخصوص ترین دائرہ ہے یہ وجہ ہے کہ اہل کتاب کو بھی قرآن نے مشرکین تصور کیا ۔ اس نقطہ نظر کو اسلامی تصور حیات میں بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ ایمان کی تعریف اور اس کی شرائط کی اس سے وضاحت ہوتی ہے جیسا کہ اس سورة میں اس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں ۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ حضور ﷺ کے دور میں جو یہودی جزیرۃ العرب میں رہتے تھے ‘ ان کے نظریات میں کئی پہلوؤں سے بت پرستی داخل ہوچکی تھی اور ان کے اعمال بت پرستی سے بھرے پڑے تھے ۔ یہ لوگ توحید سے منحرف ہوگئے تھے اس لئے یہاں ان کو سختی سے ڈرایا جاتا ہے کہ اللہ شرک کو ہر گز معاف نہیں کرتا اگرچہ شرک سے کم تردرجے کے ہر قسم کے گناہ وہ معاف کرتا ہے ۔ ایسے شخص کے لئے معافی کی کوئی صورت نہیں ہے جس نے دنیا میں شرک کیا ہو اور پھر توبہ کے بغیر مر گیا ہو ۔

شرک اس لئے جرم عظیم ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ اور بندے کے درمیان ربط ٹوٹ جاتا ہے ۔ اور مشرک کو یہ امید نہیں ہوتی کہ اللہ اسے معاف کر دے گا ۔ اگر ایسے لوگ اس دنیا سے اس حال میں جائیں کہ وہ مشرک ہوں اور ان کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے کوئی رابطہ نہ ہو ۔ ان کی مغفرت نہیں ہوسکتی ۔ جو شخص بھی شرک کرے اور اسی شرکیہ حالت میں دنیا سے چلا جائے ‘ جبکہ اس کے سامنے دلائل توحید مظاہر کائنات اور رسولوں کی تعلیمات میں موجود ہوں تو وہ جہنمی ہوگا ۔ اگر اس میں بھلائی کا ذرہ برابر عنصر بھی موجود ہوتا تو وہ ایسا ہر گز نہ کرتا ۔ اس جرم کی وہ فطرت سلیمہ تلف ہوچکی ہوتی ہے جو اللہ نے اسے دی تھی ۔ اور وہ شخص سب سے نچلے درجے میں چلا گیا ہے اور اس نے اپنے آپ کو گویا جہنم کی آگ کے لئے تیار کرلیا ہے ۔

رہے وہ جرائم جو اس واضح ‘ ظاہر ‘ عظیم ‘ گندے اور کھلے ظلم سے کم درجے کے ہیں تو یہ تمام گناہ اگرچہ وہ کبائر ہی کیوں نہ ہوں ان کی مغفرت کا دروازہ اللہ کے ہاں کھلا ہے بشرطیکہ اللہ کی مشیت ہو ۔ یہ جرائم حدود مغفرت کے اندر داخل ہیں۔ چاہے اس نے توبہ کی ہو اور اللہ معاف کر دے یا بغیر توبہ کے قیامت میں معاف ہوں ۔ جس طرح بعض روایات میں آیا ہے ‘ بشرطیکہ بندہ اللہ کے فضل کا شعور اپنے اندر پاتا ہو۔ وہ اللہ کی مغفرت کا امیدوار ہو اور اسے یقین ہو کہ اللہ مغفرت کرسکتا ہے اور یہ کہ اللہ کی مغفرت اس کے گناہوں سے بہت زیادہ ہے ۔ یہ ہے کہ امیدواری اللہ کی رحمت کے بارے میں ‘ جو ختم نہیں ہوتی اور نہ محدود ہوتی ہے ۔ وہ ایسی رحمت ہے جس کے آگے دروازے بند نہیں ہوتے اور نہ ہی ان دروازوں پر دربان ہوتے ہیں ۔

امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے قتیبہ ‘ جریر ابن عبدالحمید ‘ عبدالعزیز ابن رفیع ‘ زید ابن وہب کی سند کے ذریعے حضرت ابوذر ؓ سے نقل کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں : میں ایک رات نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور ﷺ اکیلے جارہے ہیں اور آپ کے ساتھ کوئی انسان نہیں ہے ۔ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سوچا کہ شاید حضور ﷺ یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ کوئی جائے ۔ تاہم میں چاند کے سائے میں چلتا رہا ۔ آپ نے میری طرف مڑ کر دیکھا اور مجھے دیکھ لیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” کون ہو تم “ میں نے عرض کیا ” ابوذر۔ “ مجھے اللہ آپ پر فدا کرے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” ابوذر آؤ ۔ “ کہتے ہیں میں آپ کے ساتھ کچھ دیر کے لئے دیا اور وہ اسے دائیں بائیں ‘ سامنے اور پیچھے پھیلاتے رہے اور اس میں اچھا تصرف کیا ۔ “ اس کے بعد مزید کچھ دیر میں ان کے ساتھ چلا ۔ اس کے بعد آپ ﷺ مجھ سے کہا ! ادھر بیٹھ جاؤ ۔ “ مجھے اس کھلی جگہ بٹھایا جس کے اردگرد پتھر تھے ۔ مجھ سے کہا ” تم ادھر بیٹھ جاؤ یہاں تک کہ میں لوٹ آؤں ۔ “ اس کے بعد آپ وادی میں آگے چلے گئے یہاں تک کہ آپ مجھے نظر نہ آرہے تھے ۔ آپ کافی دیر تک نہ آئے یہاں تک کہ انتظار طویل ہوگیا ۔ اس کے بعد مجھے آپ کے آنے کی آواز آئی اور آپ یہ فرما رہے تھے ! ” اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو ۔ “ جب آپ ﷺ واپس آگئے تو میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا : ” اے رسول ﷺ مجھے اللہ آپ پر قربان کردے ‘ آپ اس وادی میں کس کے ساتھ باتیں کر رہے تھے ؟ “ میں نے تو کسی کو سنا کہ وہ آپ کے ساتھ بات کر رہا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ! یہ جبریل تھے ‘ یہ وادی کی طرف مجھے ملے اور مجھ سے کہا ” آپ اپنی امت کو خوشخبری دے دیں کہ اس میں سے کوئی بھی اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر رہا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ میں نے کہا کہ ” اے جبریل اگرچہ اس نے زنا کیا اور چوری کی ہو ۔ تو انہوں نے کہا (ہاں) میں نے پھر کہا کہ اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو ؟ “ تو انہوں نے کہا : ” اگرچہ اس نے چوری کی ہو ‘ زنا کیا ہو اور شراب پی ہو۔ “

ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر ابن عبداللہ ؓ سے روایت کی ہے : حضور نے فرمایا : جو شخص بھی مر جائے اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک نہ کر رہا ہو تو اس کے لئے مغفرت جائز ہوجائے گی ‘ اگر اللہ نے چاہا تو اسے عذاب دے گا اور اگر اللہ نے چاہا تو اسے بخش دے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر ہرگز مغفرت نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے ۔ اس کے سوا جسے چاہے گا بخش دے گا ۔

ابن ابو حاتم (رح) نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں : ” ہم اصحاب رسول ﷺ زندہ جان کے قاتل ‘ یتیم کا مال کھانے والے ‘ بےگناہ عورتوں پر تہمت لگانے والے ‘ جھوٹی شہادت دینے والے میں شک نہ کرتے تھے (کہ وہ جہنمی ہیں) یہاں تکہ یہ آیت نازل ہوئی ۔ ” اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سوا وہ جس کی چاہے مغفرت کر دے گا “۔ اس کے بعد اصحاب رسول ﷺ نے شہادت دینا چھوڑ دیا ۔

طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عکرمہ ؓ ‘ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے کہا ہے ‘ جو شخص یہ جانتا ہو کہ میں گناہوں کی مغفرت کرنے پر قادر ہوں تو میں اس کے گناہ معاف کر دوں گا ۔ اور میں کوئی پرواہ نہیں کرتا جب تک وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر دے ۔ “

اور اس آخری حدیث میں ہمارے لئے ایک بصیرت افروز لمحہ فکریہ ہے ۔ اصل اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ بھلائی ‘ امید ‘ خوف اور حیا کے پاس پردہ دل کے اندر اللہ کا حقیقی شعور ہونا چاہئے ۔ اگر انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے اتو اس کا یہ شعور اور اس پر مبنی بھلائی کا جذبہ ‘ امید ‘ خوف اور حیاء انسان کے اندر خدا ترسی پیدا کرتے ہیں اور انسان مغفرت کا اہل ہوجاتا ہے ۔

اب قرآن مجید ذرا آگے بڑھتا ہے اور جماعت مسلمہ کو یہودیوں پر مزید آگے بڑھا کر حملہ آور کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کا ایک اور تعجب خیز پہلو سامنے لاتا ہے ۔ یہ کہ یہ یہودی لوگ اپنے آپ کو اب بھی اللہ کی برگزیدہ قوم سمجھتے ہیں ‘ اپنی تعریفیں کرتے ہیں اپنی پاکی واماں کی حکایتیں سناتے ہیں ‘ جبکہ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ بات کو اپنے اصل مفہوم و مراد سے بدل دیتے ہیں اور اللہ اور رسول کے مقابلے میں گستاخی کرتے ہیں ‘ جبکہ وہ خود جبت (ہر قسم کے وہمیات) اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں جیسا کہ آگے آتا ہے اور اپنی پاکی بیان کرکے اور اپنے آپ کو اللہ کا مقرب کہہ کر اگرچہ وہ بدعمل ہوں ‘ اللہ پر افتراء باندھتے ہیں ۔