یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا
اٰمِنُوْا
بِاللّٰهِ
وَرَسُوْلِهٖ
وَالْكِتٰبِ
الَّذِیْ
نَزَّلَ
عَلٰی
رَسُوْلِهٖ
وَالْكِتٰبِ
الَّذِیْۤ
اَنْزَلَ
مِنْ
قَبْلُ ؕ
وَمَنْ
یَّكْفُرْ
بِاللّٰهِ
وَمَلٰٓىِٕكَتِهٖ
وَكُتُبِهٖ
وَرُسُلِهٖ
وَالْیَوْمِ
الْاٰخِرِ
فَقَدْ
ضَلَّ
ضَلٰلًا
بَعِیْدًا
۟
3

آیت 136 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اٰمِنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط ایمان والوں سے یہ کہنا کہ ایمان لاؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ اے ایمان والو ‘ ایمان لاؤ ! چہ معنی دارد ؟ اس کا مطلب ہے کہ اقرار باللّسان والا ایمان تو تمہیں موروثی طور پر حاصل ہوچکا ہے۔ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوگئے تو وراثت میں ایمان بھی مل گیا ‘ یا یہ کہ جب پورا قبیلہ اسلام لے آیا تو اس میں پکے مسلمانوں کے ساتھ کچھ کچے مسلمان بھی شامل ہوگئے۔ انہوں نے بھی کہا : اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ اس طرح ایمان ایک درجے اقرار با للّسان میں تو حاصل ہوگیا۔ یہ ایمان کا قانونی درجہ ہے۔ پیچھے اسی سورة آیت 94 میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ اگر کوئی شخص راستے میں ملے اور وہ اپنا اسلام ظاہر کرے تو تم اس کو یہ نہیں کہہ سکتے ہو کہ تم مؤمن نہیں ہو ‘ کیونکہ جس نے زبان سے کلمۂ شہادت ادا کرلیا تو قانونی طور پر وہ مؤمن ہے۔ لیکن کیا حقیقی ایمان یہی ہے ؟ نہیں ‘ بلکہ حقیقی ایمان ہے یقین قلبی۔ اس لیے فرمایا : اے ایمان والو ! ایمان لاؤ اللہ پر۔۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے ہم اس آیت کا ترجمہ اس طرح کریں گے کہ اے اہل ایمان ! ایمان لاؤ اللہ پر جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے ‘ مانو رسول ﷺ کو جیسا کہ ماننے کا حق ہے۔۔ اور یہ حق اسی وقت ادا ہوگا جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان دل میں گھر کر گیا ہو۔ جیسے صحابہ کرام رض کے بارے میں سورة الحجرات آیت 7 میں فرمایا گیا : وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ اللہ نے ایمان کو تمہارے نزدیک محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزینّ کردیا ہے۔ آگے چل کر اسی سورة آیت 14 میں کچھ لوگوں کے بارے میں یوں فرمایا : قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط یہ بدّ و لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اے نبی ﷺ ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ ہاں یوں کہہ سکتے ہو کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں ‘ لیکن ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ چناچہ اصل ایمان وہ ہے جو دل میں داخل ہوجائے۔ یہ درجہ تصدیق بالقلب کا ہے۔ یاد رہے کہ آیت زیر مطالعہ میں دراصل روئے سخن منافقین کی طرف ہے۔ وہ زبانی ایمان تو لائے تھے لیکن وہ ایمان اصل ایمان نہیں تھا ‘ اس میں دل کی تصدیق شامل نہیں تھی۔ عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے حضرات یہ نکتہ بھی نوٹ کریں کہ قرآن کے لیے اس آیت میں لفظ نَزَّلَاور تورات کے لیے اَنْزَلَ استعمال ہوا ہے۔ وَمَنْ یَّکْفُرْ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا یہ تمام آیات بہت اہم ہیں اور مفہوم کے لحاظ سے ان میں بڑی گہرائی ہے۔