وان امراة خافت من بعلها نشوزا او اعراضا فلا جناح عليهما ان يصلحا بينهما صلحا والصلح خير واحضرت الانفس الشح وان تحسنوا وتتقوا فان الله كان بما تعملون خبيرا ١٢٨
وَإِنِ ٱمْرَأَةٌ خَافَتْ مِنۢ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًۭا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًۭا ۚ وَٱلصُّلْحُ خَيْرٌۭ ۗ وَأُحْضِرَتِ ٱلْأَنفُسُ ٱلشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا۟ وَتَتَّقُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًۭا ١٢٨
وَاِنِ
امْرَاَةٌ
خَافَتْ
مِنْ
بَعْلِهَا
نُشُوْزًا
اَوْ
اِعْرَاضًا
فَلَا
جُنَاحَ
عَلَیْهِمَاۤ
اَنْ
یُّصْلِحَا
بَیْنَهُمَا
صُلْحًا ؕ
وَالصُّلْحُ
خَیْرٌ ؕ
وَاُحْضِرَتِ
الْاَنْفُسُ
الشُّحَّ ؕ
وَاِنْ
تُحْسِنُوْا
وَتَتَّقُوْا
فَاِنَّ
اللّٰهَ
كَانَ
بِمَا
تَعْمَلُوْنَ
خَبِیْرًا
۟
3

(آیت) ” نمبر 128 تا 130۔

اسلامی نظام نے اس سے قبل عورت کی طرف سے بدسلوکی اور نافرمانی کے بارے میں قانون سازی کردی تھی ۔ اور وہ تمام انتظامات کردیئے تھے کہ اس پہلو میں نقصان پیدا ہونے کے خلاف تدابیر اختیار کی جائیں گی ۔ (ملاحظہ ہو اس پارہ کی ابتدائی آیات) ۔ یہاں سے بےرخی اور نافرمانی کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ جو خاوند کی طرف سے ہو ‘ اور جس کی وجہ سے عورت کے احترام اور عزت نفس کو خطرہ ہو اور اس کے نتیجے میں خاندان کے تباہ ہونے کا خدشہ ہو اس لئے کہ دل بدل سکتے ہیں اور میلانات اور رجحانات کے اندر تبدیلی آسکتی ہے ۔ اسلام ایک ایسا نظام ہے جو معاشرتی معاملات کے اندر زندگی کے تمام اجزاء کا احاطہ کرتا ہے اور جو مشکلات اور خطرات پیش آسکتے ہیں ان کو حل کرتا ہے ۔ اسلام ان تمام مسائل کو اپنے رجحانات اور اصول کے مطابق حل کرتا ہے اور اپنی اسکیم کے مطابق تمام اقدامات کرتا ہے ۔

اگر عورت اور مرد کے اند باہم تعلقات میں کشیدگی سی پیدا ہوجائے اور طلاق کا خطرہ ہو ‘ یا یہ خطرہ ہو کہ خاوند بیوی کو معطل اور معلق چھوڑ دے گا ۔ نہ وہ بیوی ہوگی اور نہ وہ مطلقہ ہوگی تو اس صورت میں دونوں کے لئے اس امر میں ممانعت نہیں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف مالی اور دوسرے حقوق کے اندر کچھ دو کی پالیسی اختیار کرلیں ۔ مثلا یہ کہ عورت اپنے مالی اخراجات میں سے کچھ معاف کر دے یا سب معاف کر دے ۔ یا یہ کہ اگر زیادہ عورتیں ہوں تو بیوی اپنی باری وغیرہ سے دست بردار ہوجائے ۔ مثلا اگر کوئی دوسری بیوی مرد کو زیادہ پسند ہو تو اس کے حق میں کوئی بیوی دست بردار ہوجائے یا مثلا اس صورت میں کہ معاف کرنے والی بیوی کو بعض حقوق کے اندر زیادہ دلچسپی نہ رہی ہو ۔ یہ اس صورت میں کہ عورت تمام احوال اور معاملات کو دیکھ کر ‘ سوچ کر کامل آزادی کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ اس کے لئے یہ حالت طلاق سے بہتر ہے ۔

(آیت) ” وان امراۃ خافت من بعلھا نشوزا اواعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحا “۔ (4 : 127)

(اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بےرخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کرلیں)

یہ وہی صلح ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ۔

اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ مقدمہ بازی سے صلح ہر صورت میں بہتر ہوتی ہے ۔ بےرخی ‘ خشک تعلقات اور طلاق ‘ سب حالات کے مقابلے میں صلح خیر ہے ۔ (والصلح خیر (4 : 127)

(صلح بہرحال بہتر ہے) صلح کی وجہ سے خشک اور جفا پیشہ دلوں کے اوپر بادنسیم کے ٹھنڈے جھونکے چلنے لگتے ہیں ۔ انس و محبت کی شبنم سے باہم تعلقات کو طراوت نصیب ہوتی ہے اور ازدواجی تعلقات کو باقی رکھنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور اگر ختم ہوچکے ہوں تو ازدواجی تعلقات پھر سے استوار ہو سکتے ہیں ۔

اسلام نفس انسانی کے ساتھ حقیقت پسندانہ معاملہ کرتا ہے ۔ وہ تمام ذرائع اور وسائل کو کام میں لا کر نفس انسانی کو ایک ایسی سطح تک سربلند کرتا ہے جس کے لئے اس نے اس کے مزاج اور فطرت کو تیار کیا ہے ۔ لیکن اسلام ان تمام وسائل کو کام میں لاتے ہوئے یہ بھی پیش نظر رکھتا ہے کہ انسانی فطرت کے بھی کچھ حدود وقیود ہوتے ہیں ۔ اسلام فطرت انسانی اور انسانی مزاج کو ایسے کاموں پر مجبور نہیں کرتا جو اس کی قدرت اور وسعت سے باہر ہوں اسلام لوگوں کو یہ حکم نہیں دیتا کہ تم اپنے سروں کو دیواروں سے ٹکڑاؤ اور یہ ہے میرا حکم بس اسلام علیکم ! یہ کرو چاہے قدرت ہے یا نہیں ہے۔

اسلامی نظام نفس انسانی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ضعیفی کی حالت پر رہے یا تقصیرات پر راضی ہو ۔ وہ یہ بھی نہیں کرتا کہ انسانی گندگی کے دلدل میں کانوں تک ڈوبا ہو ‘ اور وہ اس کی تعریف وتمجید کرے اور اس کے لئے جواز یہ ڈھونڈے کہ انسان بطور حقیقت واقعہ اسی طرح ہے ۔ وہ اس طرح بھی نہیں کرتا کہ اسے عالم بالا کے ساتھ بذریعہ رسی باندھ کر لٹکا دے اور پھر وہ جدھر چاہے جھولتا پھرے کیونکہ اس صورت میں اس کے پاؤں بھی زمین پر نہ ہوں گے اور ہم اس صورت حال کو یہ کہیں کہ یہ رفعت اور سربلندی ہے ۔

اسلام ان انتہاؤں کے درمیان دین وسط ہے ۔ یہ ایسا نظام ہے جس کے اندر حقیقت پسندانہ واقعیت پائی جاتی ہے یا سنجیدہ حقیقت پسندی ہے ۔ یہ نظام انسان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اور انسان کو انسان سمجھ کر معاملہ کرتا ہے ۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان ایک عجیب مخلوق ہے ۔ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کے پاؤں زمین پر ہیں لیکن اس کی روح آسمانوں پر ہے ۔ اس کی روح اس کے جسم میں بھی ہوتی ہے اور آسمانوں پر بھی ہوتی ہے ۔ غرض جسم زمین پر اور روح آسمانوں پر ہوتی ہے ۔

یہ حکم دیتے ہوئے اسلامی نظام ایک انسان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اور اس معاملے میں انسان کی ایک عام خصوصیت کا ذکر کرتا ہے ۔ (آیت) ” (واحضرت الانفس الشح (4 : 128) (نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہوجاتے ہیں) مطلب یہ ہے کہ تنگ دلی دائما نفوس کے اندر موجود ہوتی ہے ۔ نفس کے اندر تنگ دلی قائم رہتی ہے ۔ تنگ دلی کی کئی اقسام ہیں ۔ مال میں تنگ دلی ۔ جذبات میں تنگ دلی ‘ زوجین کی زندگی میں بعض اوقات ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے بخل اور تنگدلی ابھر آتی ہے ۔ ایسے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں کہ خاوند عورت کے بارے میں سخت تنگ دل ہوجاتا ہے ۔ اب عورت اگر اپنا بقایا مہر چھوڑ دے یا نفقات معاف کر دے یا مالی تاوان ادا کردے اور نکاح کو باقی رکھوالے تو معاملہ خراب ہونے سے ٹل سکتا ہے ۔ اس لئے کہ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ عورت اپنے حقوق زنا وشوئی بھی معاف کردیتی ہے مگر طلاق لینا پسند نہیں کرتی ۔ اگر صورت یہ ہو کہ خاوند کی کوئی دوسری زیادہ محبوب بیوی ہو اور پہلی بیوی کے اندر کشش اور تازگی باقی نہ رہی ہو اور عورت خاوند کے جذبات کا احترام کرکے اس کو راضی کرلے اور اس طرح نکاح باقی رہ جائے ۔ غرض ان تمام حالات میں معاملہ بیوی کے اختیار میں دے دیا گیا ہے ۔ وہ مختار ہے کہ اس کی مصلحت جس صورت میں ہو وہ اسے اختیار کرلے ۔ اسلامی نظام اس پر کچھ لازم نہیں کرتا بلکہ اختیار ہے کہ وہ اپنے معاملے میں تدبر کرکے کوئی بہتر فیصلہ اپنے حق میں کرلے ۔

لیکن اسلام معاملے کو بخل کے حوالے ہی نہیں کردیتا بلکہ اسے ایک دوسرے طرز عمل کی طرف بھی بلاتا ہے ‘ اس لئے کہ بخل ہی انسانی فطرت کا خاصہ قائمہ نہیں ہے بلکہ احسان اور خدا ترسی بھی فطرت انسان کے اندر ہیں ۔

(آیت) ” وان تحسنوا وتتقوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا “۔ (4 : 127) (لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرز عمل سے بیخبر نہ ہوگا)

احسان اور تقوی پر ہی آخری دارومدار ہے اور احسان اور تقوی کا کوئی عمل ضائع نہ ہوگا ۔ اس لئے ضائع نہ ہوگا کہ اللہ کا علم سب چیزوں پر محیط ہے ۔ وہ ہر انسان کے عمل سے بھی خبردار ہے اور اس عمل کی تہ میں پائے جانے والی نیت سے بھی خبردار ہے ۔ نفس انسانی کو اس طرف پکارنا کہ تم احسان اور تقوی کو اپنا شعار بناؤ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام اعمال سے خبردار ہے ‘ یہ ایک ایسی پکار ہے جس کا نفس انسانی پر گہرا اثر پڑتا ہے ۔ اس پکار پر ہر انسان لبیک کہتا ہے ۔ بلکہ یہ وہ واحد دعوت وتلقین ہے جس کے لئے ہر نفس بہت جلدی تیار ہوجاتا ہے ۔

ایک بار ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی نظام حیات انسانی زندگی کے حالات اور اس کی واقعی صورت حال کے ساتھ معاملہ کرتا ہے ۔ یہ معاملہ مثالی طور پر حقیقت پسندانہ ہے یا حقیقت پسندانہ مثالیت ہے ۔ اسلام ان باتوں کا اعتراف کرتا ہے جو فطرت انسانی کا لازمی حصہ ہیں اور ہیں بھی پوشیدہ اور یہ اعتراف نہایت ہی تعجب خیز انداز میں ہے ۔