یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا
اِنْ
جَآءَكُمْ
فَاسِقٌ
بِنَبَاٍ
فَتَبَیَّنُوْۤا
اَنْ
تُصِیْبُوْا
قَوْمًا
بِجَهَالَةٍ
فَتُصْبِحُوْا
عَلٰی
مَا
فَعَلْتُمْ
نٰدِمِیْنَ
۟
3

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ فعلتم ندمین (49 : 6) “ اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پشیمان ہو ”۔

اہل ایمان کو پہلی پکار یہ تھی کہ تم نے رہنمائی کہاں سے لینی ہے اور تمہاری قیادت کہاں ہے ۔ دوسری پکار۔

یایھا الذین امنوا کے ساتھ یہ تھی کہ اس قیادت کے حقوق اور ملنے کے آداب یہ ہیں۔ یہ دونوں باتیں تو اس سورت کی بیشتر ہدایات اور آداب اور قوانین کی بنیاد تھیں۔ کیونکہ مسلمانوں کو یہ بتانا بھی ضروری تھا کہ ہدایت و ارشاد کا سر چشمہ کہاں ہے۔ اور یہ بھی بتانا ضروری تھا کہ مرشد اور قائد کا احترام اور مقام کیا ہے تا کہ قائد کا بھی احترام ہو اور جو ہدایات وہ دیتا ہے ان کو بھی سنجیدگی سے لیا جائے۔ یہ تیسری پکار اور ہدایت اس لیے ہے کہ اس جدید سوسائٹی میں خبروں کے سلسلے میں پالیسی کیا ہوگی اور خبر سن کر ایک عام آدمی کا رد عمل کیا ہونا چاہئے ؟ تو یہ کہا گیا کہ یہ خبر بھی قائد کے پاس جانی چاہئے اور ہر خبر کی تفتیش اور تحقیق ہونی چاہئے۔

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ فعلتم ندمین (49 : 6) “ اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پشیمان ہو ”۔ یہاں فاسق کی تخصیص اس لیے کی گئی ہے کہ فاسق پر بدگمانی کی جاسکتی ہے اور یہ تخصیص اس لیے کردی گئی کہ لوگ اسلامی جماعت میں قابل اعتماد لوگوں کے تصرفات و اقداما ات پر بھی شک نہ کریں۔ اور معلومات کے سلسلے میں اعتبار کے بجائے شک ایک اصول نہ بن جائے کیونکہ ایک اسلامی جماعت میں اصول تو یہی ہوگا کہ اس کے ارکان کی خبروں پر اعتبار کیا جائے گا اور ان پر عمل ہوگا۔ رہا وہ شخص جو فاسق ہے تو اس کی خبروں کی تصدیق ضروری ہوگی کیونکہ اس پر شبہ کیا جاسکتا ہے یوں ایک اسلامی جماعت میں خبروں کے اعتبار اور عدم اعتبار لینے یا نہ لینے کے بارے میں ایک معتدل قاعدہ بن جائے گا۔ کسی فاسق کی خبر پر فوراً عمل نہ ہوگا۔ یہ نہ ہو کہ کسی پر کوئی زیادتی ہوجائے ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ جلد بازی کی وجہ سے ہوجائے گی۔ اور بعد میں اسلامی سوسائٹی کو نادم ہونا پڑے۔ ایسا کام کرلیا جائے جس سے اللہ ناراض ہو ، کیونکہ یہ ایک ایسے فعل کا مصدر ہوجائے گا جو حق اور عدل کے پیمانوں پر پورا نہ اترتا ہو۔

ابن کثیر نے ذکر کیا ہے کہ یہ آیت ولید ابن عقیل ابن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ان کو رسول اللہ ﷺ نے بنی المصطلق کے پاس زکوٰۃ کی وصول کے لئے بھیجا ۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ مجاہد اور قتادہ نے یوں کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ولید ابن عقبہ کو بنی المصطلق کی طرف بھیجا کہ ان کو صدقہ دیں۔ انہوں نے اسے قبول کیا۔ وہ واپس آئے اور کہا کہ بنی المصلطق جمع ہو رہے ہیں کہ آپ ﷺ سے جنگ کریں اور بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ اسلام سے بھی مرتد ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے خالد ابن ولید ؓ کو بھیجا اور حکم دیا کہ معاملے کی تحقیق کریں اور جلد بازی نہ کریں۔ وہ گئے اور ان کی آبادی کے قریب رات کو پہنچے ۔ انہوں نے اپنے جاسوس بھیجے جب وہ واپس آئے تو انہوں نے اطلاع دے دی کہ یہ لوگ تو پختہ مسلمان ہیں اور انہوں نے اذان دی اور نماز پڑھی۔ صبح کے وقت ان کے پاس حضرت خالد بن ولید ؓ آئے تو انہوں نے وہ بات دیکھی جس پر انہیں تعجب ہوا۔ حضرت خالد واپس ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ قتادہ کہتے ہیں حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں “ تحقیق اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے ”۔ نیز دوسرے سلف صالحین نے بھی یہ لکھا ہے ، مثلاً ابن ابو لیلیٰ ، یزید ابن روحان ، ضحاک ، مقاتل ابن حیان وغیرہ نے کہ یہ آیت ولید ان عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ، واللہ اعلم ! (اختتام اقتباس از ابن کثیر)

لیکن آیت کا مفہوم عام ہے۔ اصول یہ ہے کہ فاسق آدمی کی بات کی تحقیق و تفتیش کی جائے گی۔ رہے صالح لوگ تو ان کی باتوں پر عمل ہوگا کیونکہ ایک مومن جماعت کے اندر یہ اصول ہے کہ ہر شخص کی بات پر اعتبار ہوگا ماسوائے فاسق کے۔ اور صالح آدمی کی بات پر اعتبار ہی تفتیش و تحقیق کا ذریعہ ہے ۔ رہی یہ بات کہ ہر معاملے میں شک کیا جائے اور ہر خبر کو چھوٹا تصور کیا جائے الا یہ کہ وہ ثابت ہوجائے تو یہ اسلامی سوسائٹی کا اصول نہیں ہے ورنہ کسی بھی سوسائٹی میں کوئی اجتماعی کام چل ہی نہ سکے گا ۔ رہے صالح لوگ تو ان کی باتوں پر عمل ہوگا کیونکہ ایک مومن جماعت کے اندر یہ اصول ہے کہ ہر شخص کی بات پر اعتبار ہوگا ماسوائے فاسق کے۔ اور صالح آدمی کی بات پر اعتبار ہی تفتیش و تحقیق کا ذریعہ ہے۔ رہی یہ بات کہ ہر معاملے میں شک کیا جائے اور ہر خبر کو چھوٹا تصور کیا جائے الا یہ کہ وہ ثابت ہوجائے تو یہ اسلامی سوسائٹی کا اصول نہیں ہے ورنہ کسی بھی سوسائٹی میں کوئی اجتماعی کام چل ہی نہ سکے گا۔ اسلام زندگی کو معمول کے مطابق چلنے دیتا ہے۔ وہ احتیاطی تدابیر بیشک اختیار کرتا ہے مگر اس لیے کہ زندگی کا معمول چلتا رہے۔ اس لیے نہیں کہ زندگی معطل ہو کر رہ جائے۔ یہ ہے نمونہ اسلامی اصول کا کہ خبروں کے اخذ ورد میں اس کا اصول کیا ہے ۔

یہ ممکن ہے کہ ولید ابن عقبہ نے ابتداء میں جو اطلاعات فراہم کیں ، ان کے نتیجے میں بعض لوگوں نے بنی المصلطق کو سخت سزا دینے کی تجویز کی ہوگی ۔ یہ اس لیے کہ اس وقت دین اسلام کے لئے بےحد جوش اور جذبہ جاتا ہے اور اس لیے بھی کہ زکوٰۃ کا انکار کردینا بہت بڑا جرم تھا۔ چناچہ اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ تمہارے اندر رسول اللہ ﷺ ابھی موجود ہیں اور رسول اللہ کی موجودگی کو ذرا سمجھنے کی کوشش کرو کیونکہ آپ ﷺ کا تو خدا سے رابطہ قائم ہے ۔