قالوا يا قومنا انا سمعنا كتابا انزل من بعد موسى مصدقا لما بين يديه يهدي الى الحق والى طريق مستقيم ٣٠
قَالُوا۟ يَـٰقَوْمَنَآ إِنَّا سَمِعْنَا كِتَـٰبًا أُنزِلَ مِنۢ بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًۭا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِىٓ إِلَى ٱلْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ ٣٠
قَالُوْا
یٰقَوْمَنَاۤ
اِنَّا
سَمِعْنَا
كِتٰبًا
اُنْزِلَ
مِنْ
بَعْدِ
مُوْسٰی
مُصَدِّقًا
لِّمَا
بَیْنَ
یَدَیْهِ
یَهْدِیْۤ
اِلَی
الْحَقِّ
وَاِلٰی
طَرِیْقٍ
مُّسْتَقِیْمٍ
۟
3

قالوا یقومنا انا ۔۔۔۔۔ طریق مستقیم (46 : 30) “ اور انہوں نے جا کر کہا ، اے ہمارے قوم کے لوگو ، ہم نے ایک کتاب سنی ہے ، جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے۔ تصدیق کرنے والے ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی ، رہنمائی کرتی ہے حق اور راہ راست کی طرف ”۔ وہ بڑی جلدی سے اپنی قوم کی طرف لوٹے ، اور جاتے ہی انہوں نے ان کے سامنے تقریر شروع کردی کہ برادران قوم ہم نے ایک نئی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اور اپنے اصولوں میں یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کی تصدیق کرتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کتب سماوی سے واقف تھے ، کیونکہ قرآن آیات اور بنیادی تعلیمات سنتے ہی ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ دونوں کی تعلیمات ایک ہیں انہوں نے قرآن کا جو حصہ سنا تھا ضروری نہیں ہے کہ اس میں کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات ہوں۔ البتہ انہوں نے یہ معلوم کرلیا تھا کہ دونوں کتابوں کا مزاج اور سرچشمہ ایک ہے۔ یہ جنوں کی شہادت جو انسانی تعصبات اور موثرات سے دور ہیں اور قرآن کا کچھ حصہ سننے پر انہوں نے یہ تبصرہ کردیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک برحق کتاب ہے ۔ اور کتب سابقہ کی مصدق ہے۔ یہ ایک اہم شہادت ہے۔

قرآن سننے کے بعد ان کے شعور میں جو بات بیٹھ گئی اور ان کے دل و دماغ نے جس حقیقت کو پا لیا وہ یہ تھی کہ یھدی الی الحق والی طریق مستقیم (46 : 30) “ یہ حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے ”۔ یہ نہایت ہی اہم بات ہے جو انہوں نے کہی کیونکہ قرآن سے پہلا تاثر یہی ملتا ہے کہ یہ کتاب برحق ہے اور دوسرا یہی ملتا ہے کہ یہ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ جو شخص بھی بصیرت رکھتا ہو وہ قرآن کو پڑھ کر یہ دونوں باتیں محسوس کرتا ہے۔ اگر اس کی روح بغض وعناد ، کبر اور خواہشات نفسانیہ کی رسیوں میں جکڑی ہوئی نہ ہو۔ چناچہ قرآن کریم کا ایک حصہ سنتے ہی ان لوگوں نے اس راز کو پالیا اور اپنی قوم کے سامنے پہلی تقریر میں یہی حقیقت بیان کردی جو ان کے احساسات کی سچی تعبیر تھی۔

اس کے بعد انہوں نے جو باتیں اپنی قوم سے کہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس دعوت پر مطمئن ہوگئے ہیں اور اب ان پر فرض ہے کہ وہ ایک ایک فرد تک اس دعوت کو پہنچا دیں۔