آپ 44:1 سے 44:8 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
حم ١ والكتاب المبين ٢ انا انزلناه في ليلة مباركة انا كنا منذرين ٣ فيها يفرق كل امر حكيم ٤ امرا من عندنا انا كنا مرسلين ٥ رحمة من ربك انه هو السميع العليم ٦ رب السماوات والارض وما بينهما ان كنتم موقنين ٧ لا الاه الا هو يحيي ويميت ربكم ورب ابايكم الاولين ٨
حمٓ ١ وَٱلْكِتَـٰبِ ٱلْمُبِينِ ٢ إِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ فِى لَيْلَةٍۢ مُّبَـٰرَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ٣ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ٤ أَمْرًۭا مِّنْ عِندِنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ٥ رَحْمَةًۭ مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ ٦ رَبِّ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَآ ۖ إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ ٧ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ ءَابَآئِكُمُ ٱلْأَوَّلِينَ ٨
حٰمٓ
۟ۚۛ
وَالْكِتٰبِ
الْمُبِیْنِ
۟ۙۛ
اِنَّاۤ
اَنْزَلْنٰهُ
فِیْ
لَیْلَةٍ
مُّبٰرَكَةٍ
اِنَّا
كُنَّا
مُنْذِرِیْنَ
۟
فِیْهَا
یُفْرَقُ
كُلُّ
اَمْرٍ
حَكِیْمٍ
۟ۙ
اَمْرًا
مِّنْ
عِنْدِنَا ؕ
اِنَّا
كُنَّا
مُرْسِلِیْنَ
۟ۚ
رَحْمَةً
مِّنْ
رَّبِّكَ ؕ
اِنَّهٗ
هُوَ
السَّمِیْعُ
الْعَلِیْمُ
۟ۙ
رَبِّ
السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضِ
وَمَا
بَیْنَهُمَا ۘ
اِنْ
كُنْتُمْ
مُّوْقِنِیْنَ
۟
لَاۤ
اِلٰهَ
اِلَّا
هُوَ
یُحْیٖ
وَیُمِیْتُ ؕ
رَبُّكُمْ
وَرَبُّ
اٰبَآىِٕكُمُ
الْاَوَّلِیْنَ
۟
3

درس نمبر 234 تشریح آیات

1۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 59

آیت نمبر 1 تا 8

آغاز دو حروف سے ہوتا ہے حا۔ میم۔ اور دونوں کی قسم اٹھائی جاتی ہے اور پھر کتاب مبین کی بھی قسم اٹھائی جاتی ہے جو ایسے ہی حروف تہجی سے مرکب ہے۔ ان کے بارے میں سورتوں کے آغاز میں ہم بار ہا بات کرچکے ہیں۔ پھر ان حروف کی بھی اسی طرح قسم اٹھائی گئی جس طرح کتاب مبین کی قسم اٹھائی گئی۔ کتاب مبین کی اہمیت مسلم مگر ان حروف کی اہمیت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر حرف بھی ایک معجزہ اور نشانی ہے اور ہر حرف انسان کی زبان کی ساخت کی نشانی ہے اور پھر کس انداز سے زبان اپنے مخرج سے اس حرج و صوت کو نکالتی ہے ، پھر ان حروف کے مخارج کی ترتیب پھر ہر حرف کے نام اور اس کی آواز کے درمیان ایک رمزد اشارہ اور ان حروف اور کلمات کے ذریعہ انسان عظیم حقائق تک پہنچتا ہے۔ اور علوم کو مرتب کرتا ہے۔ یہ اس قدر عظیم کام ہے کہ اگر ہم اس پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنی عادت اور مانوسیت کو ایک طرف پھینک دیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ایک حرف کس قدر عظیم چیز ہے اس لیے ان کی قسم اٹھائی گئی۔ وہ چیز کیا ہے جس کے لئے یہ قسم اٹھائی گئی ہے ، وہ ہے وہ عظیم حادثہ جو ایک مبارک رات میں واقع ہوا یعنی نزول قرآن ۔

انا انزلنہ فی۔۔۔۔۔ منذرین (44 : 3) فیھا یفرق کل امر حکیم (44 : 4) امرا من عندنا انا کنا مرسلین (44 : 5) رحمۃ من ۔۔۔۔۔ العلیم (44 : 6) “ ہم نے اسے ایک بڑی خیرو برکت والی رات میں نازل کیا ہے ، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے۔ ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے ، تیرے رب کی رحمت کے طور پر ، یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ”۔

اور مبارک رات جس میں قرآن نازل ہوا ، وہ رات ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا اور یہ رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے ، جس کے بارے میں تصریح ہے۔

شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن “ رمضان المبارک کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا ”۔ قرآن مجید سب کا سب تو نہ اس رات کو نازل ہوا ہے اور نہ سب کا سب رمضان المبارک میں نازل ہوا ہے لیکن اس زمین پر اس کے آنے کا آغاز رمضان المبارک میں ہوا اور پھر اس مبارک رات میں ہوا۔ لیلۃ القدر یا لیلہ مبارکہ کے بارے میں یہی کافی ہے۔ واللہ اعلم !

یہ رات فی الواقع مبارک ہے جس میں انسانیت کے لئے رحمت خداوندی کا یہ عظیم دروازہ کھلا اور جہاں اسلامی نظام زندگی انسانوں کی زندگی میں جاگزیں ہونا شروع ہوا جس کے اندر انسان روح فطرت سے شناسا ہوا ، جس کی نہایت ہی خوبصورت ترجمانی قرآن مجید میں کی گئی ہے۔ فطرت انسانی اس نظام کے لئے لبیک کہتی ہے اور خوشی خوشی اسے قبول کرتے ہے اور یوں داعی فطرت انسانی کے مطابق ایک ایسا نظام قائم ہوجاتا ہے جو فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور اس کائنات کے بھی عین مطابق ہوتا ہے جس میں انسان رہ رہا ہے۔ یہ نظام اس قدر پاک و صاف اور بلا تکلف اور بغیر کسی تکلیف کے قائم ہوتا ہے اور اس نظام کے زیر سایہ انسان رہتا تو زمین پر ہے لیکن وہ ہوتا آسمانوں پر ہے۔

صحابہ کرام ؓ اور پہلے انسان جن پر یہ قرآن نازل ہوا ، وہ اسی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ایک عرصہ تک اللہ کے ساتھ مربوط اور موصول زندگی گزارتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو فی الفور بتاتا تھا کہ تمہارے دلوں میں یہ یہ تصورات آتے ہیں ، اور یہ کہ میں دیکھ رہا ہوں اور ان کو بھی یقین تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ اور اللہ ہمارا نگران ہے ، ہمارے دل کے ہر میلان اور ہر وسوسے اور پھر ہمارے جسم کی ہر حرکت کو وہ جانتا ہے۔ یہ لوگ اپنے معاملات میں سب سے پہلے اسی کے ہاں پناہ لیتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ اللہ قریب بھی ہے اور سننے والا بھی ہے اور دعاؤں کو قبول کرنے والا بھی ہے۔

یہ برگزیدہ گروہ چلا گیا اور اس کے بعد قرآن کریم ایک کھلی کتاب کی حیثیت سے رہ گیا ، جو انسانوں کے دل کے ساتھ مربوط تھا۔ یہ انسان پر اس طرح اثر کرتا رہا جو کسی جادو گر کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ لیکن یہ اثر ان لوگوں پر ہوتا جو اس قرآن کو پڑھ کر اس لیے اپنے دل کھولتے۔ تاہم انسان کے قلب و نظر بعض اوقات یوں بدل جاتے ہیں کہ یہ تغیرو انقلاب بعض اوقات افسانہ نظر آتے۔ انسان ان پر یقین ہی نہیں کرسکتا۔

یہ قرآن بطور ایک نظام زندگی باقی رہا۔ اس کا نظام کا مل ، واضح اور نہایت ہی پاکیزہ “ انسانیت ” دینے والا تھا۔ اور قرآنی نطام زندگی جہاں بھی قائم رہا ، جس معاشرے میں رہا ، جس زمانے میں رہا ایک مثالی نظام رہا۔ جہاں قرآنی نظام زندگی قائم ہوا اور جس زمانے میں قائم ہوا ، اس الٰہی نظام کی روشنی میں ایک ممتاز انسانی زندگی سامنے آئی اور اس کے اندر انسانی زندگی کے تمام خصائص موجود رہے۔ اور یہ خصوصیت صرف اسلامی نظام زندگی کی ہے کہ جہاں یہ قائم ہوتا ہے وہاں ایسی اعلیٰ معیاری زندگی اور معاشرہ وجود میں آتا ہے اور یہ ایسا معاشرہ ہوتا ہے جس کے قیام میں کسی انسانی جدو جہد کا دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ اس نظام کی برکت اور قدرت الٰہیہ سے وجود میں آتا ہے۔

انسان جو ادارے بناتے ہیں وہ انہی جیسے انسانوں کے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔ اور مخصوص زمان و مکان میں چل سکتے ہیں لیکن اللہ نے جو ادارے اور قوانین بنائے ہیں ان کے اندر صفت دوام رکھ دی ہے۔ ان کے اندر انتہائی حسن و کمال رکھ دیا گیا ہے اور ایسی صلاحیت رکھ دی ہے جو ہر زمان و مکان کی قید سے وراء ہے جن میں اصل حقیقت اپنی جگہ موجود ہوتی ہے۔ اور ہر زمان و مکان کے اعتبار سے اس کی عجیب صورت پذیری ہوتی رہتی ہے۔

اس قرآن کو اللہ نے اس مخصوص رات میں اتار اتا کہ لوگوں کو متنبہ کیا جائے۔

انا کنا منذرین (44 : 3) “ کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ”۔ اس لیے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ یہ انسان بڑا غافل ہے اور تنبیہہ کا محتاج ہے۔

یہ رات جس میں قرآن کریم نازل ہوا ، اس نزول قرآن کی وجہ سے فیصلے والی اور حق و باطل کے درمیان فرق کی جانے والی رات قرار پائی :

فیھا یفرق کل امر حکیم (44 : 4) “ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے ”۔ اس رات میں اس قرآن کے ذریعہ ہر معاملے کا فیصلہ کردیا گیا۔ ہر تنازعے کا فیصلہ۔ اس رات کو حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ، باطل مٹا دیا گیا ، حدود مقرر کر دئیے گئے۔ اور اس زمین پر انسان کے سفر کے لئے نشانات طے کر دئیے گئے اور یہ امور قیامت تک کے لئے طے ہوگئے۔ لہٰذا ایسے تمام اصول طے کر دئیے گئے جن کے اوپر اس دنیا میں انفرادی اور اجتماعی زندگی قائم ہوتی ہے جس طرح اس کائنات کی ۔۔۔۔ کے لئے اللہ نے تمام اصول اس کے اندر ودیعت کر دئیے ہیں۔

(مولانا مودودی کا جو ترجمہ میں نے دیا ہے اس سے اس مذکورہ تفسیر کا فرق واضح ہے ۔ کیونکہ سید قطب “ یفرق ” کو فرق کے معنوں میں لے رہے ہیں جو درست معلوم نہیں ہوتا ۔ (مترجم) ۔

اور یہ فیصلے اللہ کے ارادے سے ہوئے کیونکہ اللہ کی مشیت یہ تھی اور یہ رہی ہے کہ رسولوں کو بھیجا جائے تا کہ وہ کلام الٰہی کو بیان کریں اور اس کے مطابق فیصلے کریں۔

انا کنا مرسلین (44 : 5) “ ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے ”۔ اور رسول کا بھیجنا اللہ کی رحمتوں کے تقاضے سے تھا۔ قیامت میں اللہ لوگوں پر حمت کرنا چاہتا تھا۔

رحمۃ من ربک انہ ھو السمیع العلیم (44 : 6) “ تیرے رب کی رحمت کے طور پر یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ”۔ قرآن کے نزول سے جس طرح اللہ کی رحمت کا ظہور ہوا ، اس طرح کسی اور رحمت کا ظہور نہیں ہوا۔ یہ قرآن نہایت آسانی کے ساتھ اور سرعت کے ساتھ دلوں میں بیٹھ جاتا ہے اور انسان اس کے رد عمل کے طور پر اس طرح خود کار طریقے سے عمل کرتا ہے جس طرح انسان کے جسم میں خون دوڑتا ہے اس طرح یہ بشر ایک نہایت یہ سنجیدہ اور شریف انسان بن جاتا ہے اور انسانی معاشرہ ایک خوبصورت خواب کی طرح نظر آتا ہے۔ اور یہ خواب ایک عملی خواب ہوتا ہے جو آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔

یہ نظریہ حیات جو قرآن مجید نے پیش کیا ، اپنی جامعیت اور ہم آہنگی کے زاویہ سے ، ایک ایسا خوبصورت عقیدہ کہ انسان بےساختہ اس کے ساتھ محبت کرنے لگتا ہے۔ دل اس کے ساتھ اٹک جاتے ہیں۔ یہ نظریہ نہ صرف یہ کہ خیرو صلاح پر مبنی ہے۔ اس کے اندر کمال اور جامعیت بھی موجود ہے بلکہ یہ چیزیں اس میں اس قدر ترقی کرتی ہیں کہ پرکشش خوبصورتی کے مقام تک چلی جاتی ہیں۔ یہ خوبصورتی اس قدر کامل اور جامع ہے کہ اس عقیدے اور نظام کا ایک ایک جزء نہایت ہی خوبصورت ہے۔ پھر اس کا جزئی اور کلی حسن و کمال اس کائنات کے جزئی اور کلی حسن و کمال کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

یہ قرآن مجید رحمۃ من ربک (44 : 6) “ تیرے رب کی طرف سے بطور رحمت کے نازل ہوا ”۔ اور اس مبارک رات میں نازل ہوا۔

انہ ھو السمیع العلیم (44 : 6) “ یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے ”۔ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ اللہ جو کلام اور جو احکام نازل کرتا ہے وہ علم ومعرفت کی بنا پر نازل کرتا ہے۔ وہ لوگوں کے اقوال و افعال کو جانتا ہے اور ایسے اصول و قوانین نازل کرتا ہے جو ان کے لئے مفید ہیں اور جن کے ذریعے ان کی اصلاح ہوتی ہے۔

اللہ ہی وہ ذات ہے جو اس کائنات کا نگہبان ہے اور اس کا اور اس کے اندر تمام چیزوں کا محافظ ہے۔

رب السموت والارض وما بینھما ان کنتم موقنین (44 : 7) “ آسمانوں اور زمین کا رب اور ہر اس چیز کا رب جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے ، اگر تم واقعی یقین رکھتے ہو ”۔ اس لیے وہ لوگوں کے لئے جو کلام و نظام نازل کرتا ہے وہ ان کی تربیت کے لئے کرتا ہے جس طرح اس کائنات میں اس کی ربوبیت چلتی ہے ، انسان بھی اسی کا حصہ ہے اور انسان بھی اللہ کے قوانین فطرت کا ایک حصہ ہے اور یہاں ایمان اور ایقان کی طرف جو اشارہ کیا ہے تو وہ اس لیے کہ ان کے عقائد نہایت مضطرب ، اور ڈانواں ڈول تھے کیونکہ ایک طرف تو وہ آسمانوں اور زمین کو اللہ کی مخلوق سمجھتے تھے۔ دوسری جانب انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے ارباب بھی بنا رکھے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اللہ کا تصور نہایت مجمل ، غیر واضح ، سطحی اور پختگی سے بہت دور تھا۔ حالانکہ اللہ واحد الٰہ ہے جو موت وحیات کا مالک ہے اور اولین اور آخرین سب کا رب ہے۔

لا الہ الا۔۔۔۔۔ الاولین (44 : 8) “ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے وہی زندگی عطا کرتا ہے ، وہی موت دیتا ہے ، تمہارا رب اور تمہارے اسلاف کا رب جو گزر چکے ہیں ”۔ زندہ کرنا اور مارنا تو دونوں ایسی باتیں ہیں جن کو تمام انسان دیکھتے ہیں اور یہ بھی ان کو معلوم ہے کہ یہ کام اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے تو معمولی فکر و تدبر کی ضرورت ہے۔ موت کا منظر اور حیات کی کہانی دونوں انسانی قلب پر بہت ہی قریب سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان سے انسان کا دل متاثر اور منفعل ہونے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ اور پھر وہ حق کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا تذکرہ قرآن میں بہت ہوتا ہے۔ اور انسانی قلب اور دماغ کو اس طرف باربار متوجہ کیا جاتا ہے اور مومنین کے دلوں کو بار بار اس کا غسل دیا جاتا ہے۔

٭٭٭٭