آیت 41{ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآئَ ہُمْ } ”یقینا وہ لوگ جنہوں نے اس یاد دہانی کا انکار کیا جبکہ یہ ان کے پاس آگئی۔“ اس سے آگے اس مفہوم کے الفاظ محذوف ہیں کہ ”اب ان لوگوں کی شامت آنے والی ہے“۔ نوٹ کیجیے کہ اس سورت میں یہاں تیسری مرتبہ قرآن کا ذکر آیا ہے۔ اس سے پہلے آیت 3 اور آیت 26 میں بھی قرآن کا ذکر آچکا ہے۔ یہاں قرآن کو ”الذکر“ یعنی یاد دہانی قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب تو اس گواہی کو اجاگر کرکے تمہارے سامنے لا رہی ہے جو پہلے سے تمہاری فطرت کے اندر مخفی ہے۔ اللہ کی معرفت اور اس کی محبت تو تمہاری ارواح کے اندر پہلے سے موجود تھی لیکن تمہاری عدم توجہی کی وجہ سے اس معرفت پر غفلت اور ذہول کے پردے پڑگئے تھے ‘ جس کے نتیجے میں تم اپنی فطرت کی اصل پہچان کو بھول کر اللہ ہی کو بھول گئے تھے۔ سورة الحشر کی آیت 19 میں اہل ایمان کو اسی حوالے سے تاکید کی گئی ہے : { وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْط } کہ اے اہل ایمان ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو نتیجتاً اللہ نے انہیں ایسا کردیا کہ وہ خود اپنے آپ ہی کو بھول گئے۔ چناچہ یہاں قرآن کو ”الذکر“ کہہ کر گویا اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ کتاب انسانی فطرت میں مضمرمعرفت خداوندی کے ابدی سبق کی یاد دہانی کے لیے آئی ہے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس یاد دہانی کا انکار کردیا ہے اب ان کی شامت آنے والی ہے۔ { وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ} ”انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بلاشبہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔“