آپ 40:30 سے 40:33 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَقَالَ
الَّذِیْۤ
اٰمَنَ
یٰقَوْمِ
اِنِّیْۤ
اَخَافُ
عَلَیْكُمْ
مِّثْلَ
یَوْمِ
الْاَحْزَابِ
۟ۙ
مِثْلَ
دَاْبِ
قَوْمِ
نُوْحٍ
وَّعَادٍ
وَّثَمُوْدَ
وَالَّذِیْنَ
مِنْ
بَعْدِهِمْ ؕ
وَمَا
اللّٰهُ
یُرِیْدُ
ظُلْمًا
لِّلْعِبَادِ
۟
وَیٰقَوْمِ
اِنِّیْۤ
اَخَافُ
عَلَیْكُمْ
یَوْمَ
التَّنَادِ
۟ۙ
یَوْمَ
تُوَلُّوْنَ
مُدْبِرِیْنَ ۚ
مَا
لَكُمْ
مِّنَ
اللّٰهِ
مِنْ
عَاصِمٍ ۚ
وَمَنْ
یُّضْلِلِ
اللّٰهُ
فَمَا
لَهٗ
مِنْ
هَادٍ
۟
3

فرعون نے حضرت موسیٰ کو دنیاکی سزا سے ڈرایا تھا، اس کے جواب میں رَجُل مومن نے فرعون کو آخرت کی سزا سے ڈرایا۔ حق کے داعی کا طریقہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی فکر کرتے ہیں، داعی آخرت کےلیے فکر مند ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی اصطلاحوں میں بولتے ہیں، داعی آخرت کی اصطلاحوں میں کلام کرتاہے۔ لوگ دنیا کے مسائل کو سب سے زیادہ قابل ذکر سمجھتے ہیں، داعی کے نزدیک سب سے زیادہ قابل ذکر مسئلہ وہ ہوتا ہے جس کا تعلق آخرت سے ہو۔

اپنے Quran.com کے تجربے کو زیادہ سے زیادہ بنائیں!
ابھی اپنا دورہ شروع کریں:

0%