آپ 3:97 سے 3:98 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
فِیْهِ
اٰیٰتٌۢ
بَیِّنٰتٌ
مَّقَامُ
اِبْرٰهِیْمَ ۚ۬
وَمَنْ
دَخَلَهٗ
كَانَ
اٰمِنًا ؕ
وَلِلّٰهِ
عَلَی
النَّاسِ
حِجُّ
الْبَیْتِ
مَنِ
اسْتَطَاعَ
اِلَیْهِ
سَبِیْلًا ؕ
وَمَنْ
كَفَرَ
فَاِنَّ
اللّٰهَ
غَنِیٌّ
عَنِ
الْعٰلَمِیْنَ
۟
قُلْ
یٰۤاَهْلَ
الْكِتٰبِ
لِمَ
تَكْفُرُوْنَ
بِاٰیٰتِ
اللّٰهِ ۖۗ
وَاللّٰهُ
شَهِیْدٌ
عَلٰی
مَا
تَعْمَلُوْنَ
۟
3

آیت 97 فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَ ج ۔سورۃ البقرۃ کے نصفِ اوّل کے آخری چار رکوعوں 15 ‘ 16 ‘ 17 ‘ 18 میں پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور خانہ کعبہ کا ذکر ہے ‘ پھر باقی ساری گفتگو ہے۔ یہاں سورة آل عمران کے نصفِ اوّل کے تیسرے حصے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور خانہ کعبہ کا تذکرہ آخر میں آیا ہے۔ گویا مضامین وہی ہیں ‘ ترتیب بدل گئی ہے۔وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ط آ جاتا ہے۔جاہلیت کے بدترین دور میں بھی بیت اللہ امن کا گہوارہ تھا۔ پورے عرب کے اندر خونریزی ہوتی تھی ‘ لیکن حرم کعبہ میں اگر کوئی اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تھا تو اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ حرم کی یہ روایات ہمیشہ سے رہی ہیں اور آج تک یہ اللہ کے فضل و کرم سے دارالامن ہے کہ وہاں پر امن ہی امن ہے۔ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ط اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر کہ وہ حج کریں اس کے گھر کا ‘ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی۔ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ نوٹ کیجیے کہ یہاں لفظ کَفَرَآیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کوئی استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا وہ گویا کفر کرتا ہے۔اگلی آیت میں اہل کتاب کو بڑے تیکھے اور جھنجوڑنے کے سے انداز میں مخاطب کیا جا رہا ہے ‘ جیسے کسی پر نگاہیں گاڑ کر اس سے بات کی جائے۔