فَتَقَبَّلَهَا
رَبُّهَا
بِقَبُوْلٍ
حَسَنٍ
وَّاَنْۢبَتَهَا
نَبَاتًا
حَسَنًا ۙ
وَّكَفَّلَهَا
زَكَرِیَّا ؕۚ
كُلَّمَا
دَخَلَ
عَلَیْهَا
زَكَرِیَّا
الْمِحْرَابَ ۙ
وَجَدَ
عِنْدَهَا
رِزْقًا ۚ
قَالَ
یٰمَرْیَمُ
اَنّٰی
لَكِ
هٰذَا ؕ
قَالَتْ
هُوَ
مِنْ
عِنْدِ
اللّٰهِ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
یَرْزُقُ
مَنْ
یَّشَآءُ
بِغَیْرِ
حِسَابٍ
۟
3

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا……………” آخرکار اللہ نے اس کی لڑکی کو قبول کرلیا اور اسے اچھی لڑکی بناکر اٹھایا۔ “ مال کے دل میں اخلاص اور للّٰہیت کو جذبہ موجزن تھا ‘ یہ اس کا صلہ تھا ‘ یہ ایک خالص نذر تھی جو صرف اللہ کے لئے تھی ‘ اور یہ اسے درحقیقت آنیوالے دور میں نفخ روح کے لئے تیار کرنا تھا ۔ کلمۃ اللہ کے حمل کے لئے اسے تیار کرنا تھا ۔ تاکہ وہ حضرت عیسیٰ کی خارق العادت ولادت کے لئے تیار ہو جس کی کوئی مثال اس سے قبل موجود نہ تھی ۔

وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا……………” ذکریا کو اس کا سرپرست بنادیا گیا۔ “ وہ اس کے ولی اور ذمہ دار قرارپائے ۔ اس دور میں حضرت زکریا ہیکل کے صدر نشین تھے ۔ اور وہ حضرت ہارون کی اولاد سے تھے ۔ اور ہیکل سلیمانی کی مجاوری اور انتظام ان کی اولاد کے ہاتھ میں چلا آرہا تھا ۔ یوں حضرت مریم کی نشوونما اور تربیت کا بابرکت سلسلہ شروع ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اسی نوخیز راہبہ کے لئے اپنے فیض خاص سے رزق کا خصوصی انتظام فرماتے تھے۔

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ……………” زکریاجب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتا ‘ تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا ۔ پوچھتا ‘ مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا ؟ قوہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب دیتا ہے۔ “

ہم ان تفصیلات میں جانا نہیں چاہتے کہ یہ رزق کیسا تھا ‘ جس طرح کہ مختلف روایات وارد ہیں ‘ یہاں اس قدر کہنا کافی ہے کہ وہ رزق بڑا بابرکت تھا ۔ آپ کے ماحول میں برکت تھی اور ہر طرف سے وہ چیزیں مہیا ہورہی تھیں جن پر رزق کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس قدر وافر رزق ہوتا تھا کہ ان کا کفیل بھی حیران رہ جاتا ۔ حالانکہ وہ نبی تھا ۔ وہ ان فیوض وبرکات کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھتا کہ یہ کیسے اور کہاں سے ؟ لیکن حضرت مریم ایک مومن صادق کی طرح بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ جواب دیتیں اور اللہ کے انعامات کا اعتراف کرتیں ۔ اللہ کے کرم کا اقرار کرکے معاملہ اس کے حوالے کردیتیں۔

هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ……………” یہ اللہ کے پاس سے آیا ہے ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب دیتا ہے ۔ “ یہ وہ کلمات ہیں ‘ جو بتاتے ہیں کہ بندے کا تعلق اپنے رب کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔ اور کس طرح بندگان عالی مقام اپنے ان رازوں کو راز ہی رہنے دیتے ہیں جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہوتے ہیں ۔ اور بات میں اس راز کے بارے میں بڑی تواضع اور کسر نفسی سے بات کرتے ہیں ۔ اس کبر و غرور میں مبتلا نہیں ہوتے ۔ یہاں حضرت مریم کے ہاں فراہمی رزق کے سلسلے میں غیر معمولی صورت حال دکھائی گئی اور جس پر حضرت زکریا نبی وقت کو بھی تعجب ہوا ۔ وہ آئندہ آنے والے زیادہ عجائبات قدرت کے لئے بطور تمہیدذکر ہوئے ۔ جن میں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کی ولادت شامل ہے ۔

اس مقام پر (مریم جیسی اولاد اور اس کے پاس وافر رزق ) کو دیکھ کر حضرت زکریا (علیہ السلام) کے دل میں امید کی کرن پھوٹی ‘ آپ کی اولاد نہ تھی ‘ یہ ایک فطری خواہش تھی ‘ جو ہر انسان کے دل میں دسر قدرت نے ودیعت کی ہوئی ہوتی ہے۔ یعنی اولاد صالح کی زبردست خواہش ۔ تاکہ انسان کی ذات تسلسل میں رہے ۔ اور اس کے بعد اس کا کوئی جانشین ہو ‘ یہ وہ خواہش ہے جو بڑے بڑے عبادت گزاروں اور زاہدوں کے دل میں بھی موجزن رہتی ہے ۔ ان لوگوں کے دل میں بھی جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کرلیا ہوتا ہے۔ اور جو ہیکل کی خدمت کے لئے وقف ہوچکے ہوتے ہیں ۔ یہ وہ فطرت ہے جس اللہ نے لوگوں کی تخلیق کی ہے ۔ اور یہ اس گہری حکمت کا نتیجہ ہے کہ اس جہاں میں زندگی کا تسلسل جاری ہے اور وہ دن رات چوگنی ترقی کررہی ہے ۔ اس مقام پر حضرت زکریا (علیہ السلام) سامنے آتے ہیں ۔