فلما وضعتها قالت رب اني وضعتها انثى والله اعلم بما وضعت وليس الذكر كالانثى واني سميتها مريم واني اعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم ٣٦
فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّى وَضَعْتُهَآ أُنثَىٰ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ ٱلذَّكَرُ كَٱلْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّى سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّىٓ أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ ٱلرَّجِيمِ ٣٦
فَلَمَّا
وَضَعَتْهَا
قَالَتْ
رَبِّ
اِنِّیْ
وَضَعْتُهَاۤ
اُ ؕ
وَاللّٰهُ
اَعْلَمُ
بِمَا
وَضَعَتْ ؕ
وَلَیْسَ
الذَّكَرُ
كَالْاُ ۚ
وَاِنِّیْ
سَمَّیْتُهَا
مَرْیَمَ
وَاِنِّیْۤ
اُعِیْذُهَا
بِكَ
وَذُرِّیَّتَهَا
مِنَ
الشَّیْطٰنِ
الرَّجِیْمِ
۟
3

زوجہ عمران کی یہ خشوع و خضوع کے عطر سے معطر دعا کہ اے رب میری نذر قبول فرما ! وہ نذر جو اس کے دل کا ٹکڑا ہے۔ اس کا جگر گوشہ ہے ۔۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ خالص اللہ کی مسلم اور مطیع فرمان ہیں ۔ وہ کلمۃ اللہ کی جہت کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں ۔ بالکلہ یکسو ہیں ۔ ہر قید سے آزاد ہیں اور ان کے دل میں ماسوائے قبولیت نذر اور رضائے الٰہی کے جذبے کے اور کچھ نہیں ہے۔

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالأنْثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

” پھر جب وہ بچی اس کے ہاں پیدا ہوئی تو اس نے کہا :” مالک ! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہوگئی ہے ۔ حالانکہ جو کچھ اس نے جنا تھا ‘ اللہ کو اس کی خبر تھی ………اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا ۔ خیر ‘ میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے۔ اور میں اسے اور اس کی آئندہ نسل کو شیطان مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔ “

اس کا خیال یہ تھا کہ میرا بچہ لڑکا ہوگا۔ اور گرجوں میں جن بچوں کی نذر دی جاتی تھی وہ بالعموم لڑکے ہوا کرتے تھے تاکہ وہ ہیکل کی خدمت کریں ۔ اور وہ صرف عبادت کے لئے وقف ہوجائیں اور دنیا سے کٹ جائیں ۔ لیکن وہ کیا دیکھتی ہے کہ بچہ لڑکی ہے ۔ اس لئے وہ گڑگڑا کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور نہایت ہی متأسفانہ انداز میں کہتی ہے ۔

رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَى……………” میرے رب ‘ میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہوگئی ۔ “

وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ……………” اور جو کچھ اس نے جنا ‘ اس کا علم تو اللہ کو بہرحال تھا۔ “ لیکن وہ یہ الفاظ اس لئے کہتی ہے کہ وہ خود متوجہ الی اللہ ہے اور ہدیہ پیش کرتی ہے ۔ گویا وہ ان الفاظ سے اللہ کے ہاں معذرت پیش کررہی ہے ۔ کہ اگر لڑکا ہوتا تو وہ اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرتا ۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالأنْثَى……………” اور لڑکا ‘ لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔ “ یعنی جس مقصد کے لئے نذر مانی گئی ہے ‘ اس مقصد کے لئے تو لڑکا ہی موزوں ہوتا ہے۔ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ……………” میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے۔ “

” یہاں جس انداز سے بات ہورہی ہے ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زوجہ عمران اللہ تعالیٰ سے آمنے سامنے بات کررہی ہیں ‘ گو تخلیہ میں بات ہورہی ہے ‘ دل کی پوری بات بتائی جارہی ہے ۔ صاف صاف بتائی جارہی ہے ۔ اور اپنا پورا اثاثہ پیش کیا جارہا ہے ۔ براہ راست خدمت اقدس میں ‘ اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کے تعلق باللہ کا یہی حال ہوتا ہے ۔ محبت ‘ قرب اور براہ راست رابطہ اپنے رب کے ساتھ سادہ الفاظ میں اخلاص کے ساتھ ہمکلامی ‘ جس میں نہ تکلف ہے اور نہ پیچیدگی ہے ۔ وہ بات اس طرح کرتے ہیں جس طرح رب ان کے بالکل قریب ہے ۔ ان سے محبت کرتا ہے ‘ سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔

وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

” میں اسے اور اس کی آئندہ نسل کو شیطان مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ “ یہ وہ آخری بات ہے جو ایک ماں اپنے بچے کی نذر پیش کرنے بعد الوداعی طور پر کہتی ہے ۔ اور اسے اپنے رب کی حمایت اور اس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی ہے ۔ اور اس کے لئے اور اس کی اولاد کے لئے شیطان مردود سے پناہ مانگتی ہے ………اور یہ باتیں خلوص قلب کا مظہر ہیں ‘ وبطیب خاطر یہ نذر دے رہی ہے اور اپنی محبوب اولاد کے لئے وہ جو تحفظ طلب کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ اسے شیطان مردود سے بچائے۔